تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     30-10-2014

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں ان دنوں دارو رسن کا موسم ہے،ملا عبدالقادر پچھلے سال دسمبر میں پھانسی کے پھندے پر جھول گئے، سزایافتہ 92سالہ پروفیسر غلام اعظم چند روز قبل زنداں میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ ہیومن رائٹس واچ اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی رائے ہے کہ وار کرائمز ٹریبونل کے فیصلے شفافیت سے محروم ہیں اور کارروائی انصاف کے بنیادی تقاضوں سے متصادم۔ گواہوں کو ہر سطح پر ہراساں کیا گیا اور ملزمان کو فیئر ٹرائل کے مواقع دستیاب نہ تھے۔ 
دی اکانومسٹ نے دسمبر 2012ء میں نام نہاد انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل کے چیئرمین نظام الحق کی برسلز میں مقیم اپنے بنگلہ دیشی نژاد دوست ضیاء الدین سے ٹیلی فونک گفتگو شائع کی جس میں نظام الحق نے کہا ''(حسینہ واجد) حکومت مکمل طور پر پاگل ہو چکی ہے، وہ فوری فیصلے کے لیے جنونی انداز میں دبائو ڈال رہی ہے وہ 16دسمبر2012ء تک ہر صورت فیصلہ چاہتی ہے وغیرہ وغیرہ‘‘۔
اسی وار کرائمز ٹریبونل نے گزشتہ روز جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما مطیع الرحمان نظامی کو سزائے موت سنائی۔ جون میں نظامی کی طبی حالت کے پیش نظر ٹریبونل نے فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ نظامی پر الزام ہے کہ اس نے بنگلہ دیش کی ''تحریک آزادی‘‘ کو ناکام بنانے کے لیے البدر نامی تنظیم بنائی، مکتی باہنی کے گوریلوں کا مسلح مقابلہ کیا اور آسام میں ہتھیار سمگل کئے۔مطیع الرحمان نظامی نے جن لوگوں کا مقابلہ کرنے کے لیے البدر تنظیم کی ان کے بارے میں پروفیسر وارث مرحوم نے مشرقی پاکستان سے واپسی پر اکتوبر 1971ء میں لکھا: 
'' ہم گھبرا گئے جب ہمیں سلاٹر ہائوس دکھایا گیا جہاں غیر بنگالیوں کو ذبح کر کے لٹکایا اور ان کا خون نچوڑا جاتا تھا۔ محمد پور اور میر پور کے کیمپوں میں کٹے پھٹے جسموں والی عورتوں سے مکتی باہنی کے دہشت پسندوں کی غیر انسانی کارروائیوں کی کہانیاں سننے کو ملیں‘‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری پاکستانی وائس چانسلر سید سجاد حسین نے اپنی کتاب ''شکست آرزو‘‘ میں انہی واقعات کا تذکرہ یوں کیا'' پاکستانی فوج کے ایکشن سے پہلے بنگلہ دیش کی سرزمین غیر بنگالیوں کی لاشوں سے اٹی پڑی تھی ایک مقام پر تو لاشوں کے باعث بہتا پانی رک گیا، بنگالی علیحدگی پسندوں نے اپنے ہی بنگالی بھائیوں کو جو پاکستان کے وفادار تھے، ظلم و دہشت کا نشانہ بنایا‘‘۔
بنگالی دانشوروں شرمیلا بوس، اے ڈبلیو چودھری اور مکتی باہنی کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش کی آزادی کی مسلح جدوجہد کرنے والے کرنل شریف الحق والیم نے اپنی کتابوں میں بھارتی سازش، عوامی لیگ کی ملی بھگت، پاکستان کو دولخت کرنے کی وجوہات اور علیحدگی پسندوں کے مظالم کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے۔ کرنل عثمانی اور جنرل ضیاء الرحمان کے دست راست شریف الحق والیم نے ''مجاہدین آزادی‘‘ کے کرتوتوں، لوٹ مار، اغوا، آبرو ریزی اور قتل و غارت پر بھی روشنی ڈالی ہے جن کی وجہ سے 1975ء میں فوجی انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔
بنگلہ دیش کی علیحدگی کے ذمہ دار صرف بھارت، عوامی لیگ یا شیخ مجیب الرحمن نہ تھے، ہمارے ظالم جاگیردار، متکبر جرنیل، لٹیرے سرمایہ کار، اذیت پسند بیورو کریٹس اور ہر فوجی و غیر فوجی حکمران کی ہاں میں ہاں ملا کر مشرقی پاکستان کے عوام کو مشتعل کرنے والے سیاستدان اس جرم میں برابر کے شریک تھے۔ ان میں سے کسی کو پاکستان میں سزا ملی نہ بنگلہ دیش میں، مگر جنہیں اپنے جرم وفا پہ ناز تھا وہ برسہا برس سے ظلم و ستم اور دارو رسن کا سامنا کر رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ کیمپوں میں اذیت ناک زندگی بسر کرنے والے بہاری اور زندانوں اور پھانسی گھاٹوں کو آباد کرنے والے غلام اعظم، مطیع الرحمان نظامی، دلاور سعیدی، علی احسن مجاہد اور فضل القادر چودھری مرحوم کے فرزند ارجمند صلاح الدین چودھری جیسے پشتینی بنگالی۔
'' زنداں نامہ‘‘ میں معرو ف ترقی پسند رہنما میجر محمد اسحق نے فیض احمد فیض کی نظم ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے کو آفاقیت کا بے مثل نمونہ قرار دیا اور لکھا‘‘ یہ نظم کربلا، سرنگا پٹم، جلیانوالہ، قصہ خوانی، سٹالن گراڈ، ملایا، کینیا، مراکش، تونس، کوریا سبھی سے متعلق معلوم ہوتی ہے۔ تہران، کراچی، ڈھاکہ کی سڑکوں پر دم توڑتے طلبہ، مراکش، تونس، کینیا اور ملایا میں خون سے لت پت مجاہد سب ایک ہی جانفزا نعرہ دہراتے سنائی دیتے ہیں۔ قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم۔ اور نکلیں گے عشاق کے قافلے‘‘۔ 
مگر یہ سب ماضی کی باتیں ہیں جب ہماری فکری تگ و تاز ایسی تھی ؎ 
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں 
تو دہلی کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے 
ترکی کی فوجی حکومت نے منتخب وزیراعظم عدنان میندریس کو سزائے موت سنائی تو گوہر ایوب خان کے بقول ''والد (فیلڈ مارشل ایوب خان) نے ترک حکومت کے نام خط لکھ کر بھٹو کو انقرہ بھیجا جس میں درخواست کی گئی کہ وزیراعظم عدنان میندریس اور دیگر وزراء کو پھانسی دینے کے بجائے پاکستان بھیجا جائے۔ اس ضمانت پر کہ وہ سیاست نہیں کریں گے؛ تاہم ترک حکومت نے کوئی جواب نہ دیا‘‘۔ 2000ء میں اسی جذبۂ اخوت نے میاں نوازشریف کی جان بچائی۔ 
اب صورتحال کیا ہے؟ مصر میں منتخب وزیراعظم محمد مرسی کا تختہ الٹ کر فوجی حکمران نام نہاد عدالت سے سزائے موت دلوادیں‘ حسینہ واجد حکومت بنگلہ دیش میں پاکستان سے وفاداری کے جرم میں پھانسی‘ عمر قید اور دیگر سزائوں کی لوٹ سیل لگا دے اور مقبوضہ کشمیر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والوں پر زندگی اجیرن کردی جائے‘ ہمارے حکمران بولتے ہیں نہ ہمارے دفتر خارجہ اور وزارت دفاع کو احتجاج کا حوصلہ پڑتا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگانے والے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو بھی یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نظر آتا ہے جبکہ قاہرہ‘ ڈھاکہ اور سری نگر کے درو بام سے صدائیں بلند ہو رہی ہیں ؎ 
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں 
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟ 
مطیع الرحمن نظامی اور ان کے دیگر ساتھیوں کے حوالے سے تاریخی حقیقت یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے عام معافی کا اعلان کیا۔ پاکستانی فوجیوں اور البدر و الشمس کے کارکنوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ ہوا کیونکہ وہ پاکستان کے شہری تھے اور اپنے وطن کی سلامتی و استحکام کے لیے مصروف جدوجہد۔ اس مقصد کے لیے آئین میں پانچویں ترمیم ہوئی اور 2008ء تک ہر حکومت نے گڑے مردے نہ اکھاڑنے کی یہ پالیسی جاری رکھی۔ اپنے وطن کی حفاظت ہر غیرت مند شہری کا فرض اور حق تھا اور یہ جدوجہد بین الاقوامی قوانین کے تحت جرم تھی نہ حب الوطنی کے طے شدہ عالمی معیار کے مطابق معیوب۔ اسی بنا پر وار کرائم ٹربیونل اور حسینہ واجد حکومت کے اقدامات اور فیصلوں کے خلاف دنیا بھر میں شور مچا۔ عالمی تنظیموں نے صدائے احتجاج بلند کی‘ یورپی یونین کی سطح پر ہنگامہ ہوا۔ جان کیری نے بنگلہ دیشی حکومت کو روکا اور طیب اردوان نے زوردار سفارتی احتجاج کیا مگر شیخ مجیب الرحمن کی سپتری بھارت کی پشت پناہی کے سبب ڈھٹائی سے ڈٹی رہی۔ پاکستانی حکومت آج تک ''حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘ کی تصویر بنی ہے؛ البتہ مودی کو منانے اور بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے کے لیے اس کی بے تابی قابل دید ہے۔ یہ ہماری مجبوری ہے یا عادت ؎ 
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں 
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے 
آج پاکستان میں فوج ایک بار پھر 1971ء کی طرح قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں اور بھارت کے زرخرید تخریب کاروں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے۔ اور سیاسی بے حسی کی شاکی۔ شاید سبھی البدر والشمس اور پروفیسر غلام اعظم‘ ملا عبدالقادر‘ مطیع الرحمن نظامی کے انجام سے خوفزدہ ہیں؛ حالانکہ یہ سب اپنے ضمیر‘ اپنے خدا و رسولؐ‘ اقبالؒ و قائداعظمؒ اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی ریاست کے سامنے سرخرو ہیں۔ 
16 دسمبر کی طرح ان دنوں ہم آزمائش سے دوچار ہیں۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کے سچے عاشق اس آزمائش میں پورے اُترے مگر ہم؟ ؎
ہمیں وہ آزماتا ہے 
تو اس کے آزمانے کے عجب اوزان ہیں جن کو 
نہ ہم سمجھے نہ تم سمجھے نہ کوئی اور سمجھا 
زمین و آسمان میں اس قدر مخلوق ہے اس کی 
کسی کو بھی نہیں وہ صرف ہم کو آزماتا ہے 
ہماری زندگی کے ارتقا کے بیج بننے‘ ہمارے پیڑ بننے تک 
ہمیں وہ آزماتا ہے 
وہ بس یہ دیکھتا ہے کہ کوئی جب ٹوٹتا ہے تو 
وہ اپنے ظرف کی وسعتوں پہ جا کے کتنا صبر کرتا ہے 
ہمیں وہ آزماتا ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved