تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-10-2014

اس حکایت کا نتیجہ آپ خود ہی نکالیے!

شفیق علی الصبح حسب معمول ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ صبح جلد اٹھتا ہے اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا ہے۔ جب لاس اینجلس میں رات ہوتی ہے‘ پاکستان میں دن اور جب دن ہوتا ہے تب پاکستان میں رات ہوتی ہے۔ پاکستان اور لاس اینجلس میں وقت بڑے حساب کتاب سے میل کھاتا ہے۔ پورے بارہ گھنٹے کا فرق ہے۔ یہاں صبح آٹھ بجے کا مطلب ہے وہاں رات کے آٹھ بجے۔ میں رات دیر سے سویا تھا اس لیے صبح تھوڑی دیر سے اٹھا۔ ڈرائنگ روم میں آیا تو شفیق اپنے جہازی سائز کے ٹی وی کے سامنے براجمان چائے پی رہا تھا۔ اسے مجھ سے‘ چائے نہ پینے کا گلہ رہتا ہے۔ میں نے بھی اس سے اظہار یکجہتی کے لیے کافی بنائی اور ساتھ بیٹھ کر لیپ ٹاپ پر میل چیک کرنا شروع کردی۔ شفیق ہاتھ میں ریموٹ پکڑے چینل پر چینل بدل رہا تھا۔ وہ دن بھر صرف پاکستانی چینل دیکھتا ہے۔ بچوں نے اپنے لیے علیحدہ ٹی وی کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ انہیں پاکستانی خبروں اور ٹاک شوز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ حمزہ پڑھائی کرتا ہے اور فارغ وقت میں امریکن فٹ بال دیکھتا ہے‘ جو بذات خود ایک عجیب و غریب کھیل ہے اور کسی غیر امریکی کو اگر سمجھایا نہ جائے تو اسے ساری عمر اس کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ بالآخر شفیق کو ایک چینل پسند آ ہی گیا۔ سکرین پر قبلہ شیخ رشید براجمان تھے۔ 
شیخ رشید کی خوبی یہ ہے کہ ان کی پسندیدگی کی ریٹنگ بدترین حد تک کم ہونے کے باوجود انہیں دیکھنے اور سننے کی ریٹنگ ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے۔ مجھے ایک عرصے سے کوئی آدمی ایسا نہیں ملا جو ان کی ذات کے بارے مثبت خیالات رکھتا ہو مگر اس کے ساتھ ساتھ شاید ہی کوئی ایسا شخص ملا ہو جو انہیں دل ہی دل میں چار باتیں سنانے کے ساتھ ساتھ سننا نہ چاہتا ہو۔ میڈیا کے حوالے سے آپ شیخ رشید کو فیورٹ قرار دے سکتے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا ایک سبب تو یہ ہے کہ وہ موجودہ حکومت پر جارحانہ انداز اور عوامی لہجے میں ایسا تبرا بھیجتے ہیں کہ حکومت مخالف کا جی خوش ہو جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ ہر روز کوئی نہ کوئی نیا شوشہ ضرور چھوڑتے ہیں۔ ڈالر کے سو روپے سے کم ہو جانے پر مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد صاف مکر جاتے ہیں۔ قربانی سے پہلے قربانی کے دعوے کی ہوا نکل جانے اور دیگر کئی الٹی سیدھی پیشین گوئیوں کے یکسر غلط ثابت ہو جانے کے باوجود وہ میڈیا فیورٹ ہیں۔ شفیق بھی ان کے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھتا ہے مگر وہ بھی شیخ رشید کو دیکھ کر چینل بدلنے سے رُک گیا تھا۔ میں بدستور ای میل چیک کرنے میں لگا ہوا تھا؛ تاہم ایک کان شیخ رشید کی گفتگو پر تھا۔ 
شیخ رشید نے دوران گفتگو جناب علامہ اقبال کی ایک نظم کا ایک مصرع پڑھا۔ شیخ صاحب عموماً یہ مصرع پڑھتے رہتے ہیں اور ہمیشہ ہی الٹ مفہوم میں پڑھتے ہیں۔ میں کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ اگر شعر کا صحیح مفہوم نہ آتا ہو تو اس کا حوالہ دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ تھوڑی ہی دیر بعد شیخ رشید نے پھر یہی مصرع اسی غلط تناظر میں پڑھا۔ میں نے شفیق کی طرف دیکھا تو وہ بھی حیرانی سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے اپنی طرف دیکھتا پا کر کہنے لگا: خالد بھائی! آپ نے یہ مصرع سنا ہے؟ میں نے سر ہلایا۔ وہ کہنے لگا اس کا مطلب کیا ہے؟ میں نے کہا وہی ہے جو تم سمجھے ہو۔ شفیق کہنے لگا۔ میرا مطلب ہے شیخ صاحب اس مصرع کو اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں یا اپنے خلاف؟ میں نے کہا شیخ رشید اس مصرعے کے بہانے اعترافی بیان جاری کر رہے ہیں۔ شفیق پوچھنے لگا کیا شیخ صاحب اس مصرع کو سمجھے بغیر ہمیشہ دہراتے رہتے ہیں؟ میں ہنسا اور کہا کہ شیخ صاحب ویسے تو کوے سے بھی زیادہ سیانے ہیں‘ لیکن بولتے ہوئے وہ عموماً سوچنے سمجھنے کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور وہ اپنی اسی ''خوبی‘‘ کے باعث عوامی سطح پر کم از کم باتوں کی حد تک مقبول آدمی ہیں۔ ہم پاکستانی بحیثیت قوم تماش بین ٹائپ ہیں اور اسی قسم کی گفتگو پسند کرتے ہیں۔ لیکن جہاں تک اس مصرعے کا تعلق ہے شیخ صاحب اسے اپنے لیے بڑے فخر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ قارئین کرام! اب آپ کو زیادہ دیر تجسس میں کیا رکھنا۔ شیخ رشید نے علامہ اقبال کا جو مصرع پڑھا وہ یہ ہے ع 
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح 
شیخ صاحب یہ مصرع اپنے لیے فخر سے پڑھتے اور گمان کرتے ہیں کہ وہ اس مصرعے کی صورت میں اپنے مخالفین پر کوئی بڑا معرکہ آرا ادبی حملہ کر رہے ہیں؛ حالانکہ انہیں شاید اس مصرعے کے سیاق و سباق کا رتی برابر علم نہیں۔ یہ مصرع علامہ اقبال کی نظم ''جبریل و ابلیس‘‘ کا آخری سے پہلا ہے جس میں ابلیس حضرت جبریل کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں یعنی شیطان‘ اللہ کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہوں۔ پارسی عقیدے میں فارسی زبان میں خدا کے لیے یزداں اور شیطان کے لیے اہرمن استعمال ہوتا ہے۔ اس نظم کے آخری بند میں ابلیس جبریل کو مخاطب کر کے کہتا ہے: 
ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو 
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو 
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم و خیر و شر 
کون طوفان کے طمانچے کھا رہا ہے‘ میں کہ تو؟ 
خضرؑ بھی بے دست و پا‘ الیاسؑ بھی بے دست و پا 
میرے طوفاں یم بہ یم‘ دریا بہ دریا‘ جو بہ جو 
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے 
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو! 
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ھو‘ اللہ ھو‘ اللہ ھو! 
شفیق میاں! اس نظم میں ابلیس کا زور بیاں زوروں پر ہے۔ ابلیس اپنی سرکشی پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنی نافرمانی پر انیڈتا نظر آتا ہے۔ یہی حال اپنے شیخ صاحب کا ہے۔ دشمن پر حملہ کرنا ہے‘ چاہے کسی طرف سے بھی کیا جائے۔ موصوف کی یہی ''بہادری‘‘ ہے جو اسے دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز اور میڈیا پاپولر بناتی ہے۔ ممکن ہے وہ اس مصرعے کا مطلب جانتے ہوں؛ تاہم انہیں یہ بھی پتہ ہوگا کہ ان کے مخالفین ادبی ذوق کے لحاظ سے ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ انہیں بھی قطعاً معلوم نہیں کہ اس مصرعے کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ یہاں سیاستدانوں کی اکثریت اور خاص طور پر سیاستدانوں کی ٹاپ لائن تو الحمدللہ ہر طرح سے فارغ ہے ایسے میں اکیلے شیخ رشید کا کیا گلہ کریں۔ 
خالد بھائی! یہاں شیخ رشید خود کو تو دل یزداں میں کھٹکنے والے کی جگہ پر استعمال کر رہا ہے۔ ''دل یزداں‘‘ سے اس کی کیا مراد ہے؟ میں نے شفیق سے الٹا سوال کیا کہ عمران خان اپنے جلسوں میں امپائر کی جس انگلی کا بڑا ذکر کرتے تھے اس ''امپائر‘‘ سے ان کی کیا مراد تھی؟ شفیق نے لاعلمی میں سر ہلا دیا۔ میں نے کہا اسی طرح شیخ رشید کو خود بھی پتہ نہیں کہ اس کی ''دل یزداں‘‘ سے کیا مراد ہے۔ ابن انشا نے اپنی کتاب ''اردو کی آخری کتاب‘‘ میں ایک کہانی کے آخر میں لکھا ہے ''اس حکایت کا نتیجہ قارئین کرام! آپ خود ہی نکالیے آخر آپ خود بھی سمجھ دار ہیں‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved