وزیراعظم نے ایک شاہی حکم جاری کیا ہے کہ نصاب میں ایک باب کا اضافہ کیا جائے اور وہ یہ کہ جمہوریت کے اندر کون کون سے احتساب کرنے کے ادارے ہیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کیسے کیسے پکڑ ہوتی اور انصاف ہوتا ہے۔
میں نے سوچا کیوں نہ میں بھی کچھ مدد ان لوگوں کی کر دوں جنہوں نے وہ باب لکھنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس باب کو اس واقعے سے شروع کرنا چاہیے۔ جب 2013ء کے انتخابات کے لیے ٹکٹوں کا معاملہ سامنے آیا تو نواز لیگ نے ہر علاقے سے سفارشات طلب کیں۔ اسلام آباد کی باری آئی تو ظفر علی شاہ، راجہ ظفرالحق اور انور بیگ نے انجم عقیل خان کو اسلام آباد سے ٹکٹ نہ دینے کی سفارش کی کہ وہ نیشنل پولیس فاونڈیشن کے چار ارب روپے کے سکینڈل میں ملوث ہے اور سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سنانے والی ہے۔
نواز شریف‘ شہباز شریف اور دیگر اس پر ہنس پڑے اور فرمایا‘ بھولے بادشاہو‘ یہ کیا بات کرتے ہو۔ اب ہم اخباری سکینڈلز اور خبروں پر فیصلہ کریں گے کہ کس کو ٹکٹ ملنا ہے اور کس کو نہیں؟ وہ تینوں چپ رہے۔ انجم عقیل کو ٹکٹ ملا اور وہ بڑی شان سے الیکشن ہار گئے۔ اسی انجم عقیل کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ کر کے نیب کو حکم دیا کہ کارروائی کرو ۔ نیب کے ایک افسر صبح صادق‘ جو اس کی انکوائری کر رہے تھے‘ ملے تو کہنے لگے‘ اس کیس میں تو کچھ نہیں ۔ میں نے کہا‘ سبحان اللہ‘ خدا نے آپ کو بھی کیا عقل دی ہے؟ انجم عقیل خود مان چکا کہ اس نے کرپشن کی تھی۔ تین اعلیٰ سطح کی انکوائریاں ہوئیں جن میں ثابت ہوا کہ اس نے کرپشن کی تھی۔ وہ ایف آئی اے کو لکھ کر دے چکا تھا کہ وہ چار ارب یا اس کے برابر جائیداد واپس کرے گا۔ سپریم کورٹ میں اس نے معاہدہ تسلیم کیا اور کچھ ادائیگیاں بھی کیں اور آپ فرماتے ہیں کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا اور انجم عقیل کو کوئی ہاتھ بھی نہ لگا سکا؛ چنانچہ اب وہ مزید مال کما رہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ یہ باب لکھنے میں نیب کے افسر صبح صادق کی مدد لی جائے کیونکہ ان سے بہتر یہ باب کوئی نہیں لکھ سکے گا جنہیں ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔
اس طرح یہ کارنامے بھی شاملِ نصاب ہونے چاہئیں کہ فہمیدہ مرزا سپیکر کی کرسی پر تشریف فرما ہو کر ستاسی کروڑ روپے کا بنک قرضہ معاف کرالیتی ہیں، اپنے ایک چہیتے پی ار او شمعون ہاشمی کو کے آر ایل سے ڈیپوٹیشن پر گریڈ سترہ سے اٹھا کر گریڈ بیس میں لاتی ہیں اور چالیس برس کی عمر میں دنیا کا کم عمر ترین جوائنٹ سیکرٹری لگا دیتی ہیں ۔ امریکہ علاج پر چالیس لاکھ روپے قومی اسمبلی کے بجٹ سے ادا ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہماری جمہوریت کا حسن ہی کہلائے گا۔
اسی طرح ایف آئی اے نے ایک رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی ہے اور اپنی کارکردگی پر داد مانگی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے ان برسوں میں دن رات بہت کام کیا ہے اور کل پانچ افسران پکڑے گئے ہیں جن میں سی ڈی اے چیئرمین شامل ہیں۔ اس فہرست میں ان افسران کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے امین فہیم کے دور میں ایکسپورٹ فنڈ میں فراڈ کیے تھے۔ تاہم اس فہرست میں نہ تو امین فہیم کا نام ہے اور نہ ہی ان کے اسٹاف افسر فرحان جونیجو کا‘ جنہوں نے وزارت تجارت سے لوٹ کا مال منی لانڈرنگ کر کے دوبئی شفٹ کیا اور آج کل لندن میں نئی جائیدادیں خرید رہے ہیں۔
ایف آئی اے کو ڈیڑھ برس قبل آئی ایس آئی اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔ اس سکینڈل میں بڑے معززین شامل تھے جنہوںنے پیسے لیے تھے اور ان سب کے نام سپریم کورٹ بھی پیش کیے گئے تھے۔ اس کمشن کے بارے میں پھر کبھی کسی نے کچھ نہیں سنا ۔ سنتے بھی کیسے‘ کون جا کر وزیراعظم نواز شریف سے سوال جواب کرتا۔ کون جرأت کرتا کہ جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی کو ہاتھ ڈالے۔ اس کو بھی جمہوریت کے احتساب والے باب میں شامل ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف سابق وزیرخزانہ حفیظ شیخ نے ایل این جی ٹھیکے میں مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف انکوائری کا حکم دیا تھا ۔ کہاں گئی انکوائری اور کہاں گئے ایکشن؟ اسی ڈاکٹر عاصم نے میڈیکل تعلیم کا بیڑا غرق کر دیا اور راتوں رات نئے گھٹیا کوالٹی کے کالجز منظور کر دیے۔ حکومت کے آخری روز 70 سی این جی سٹیشنوں کے لائسنس جاری کرائے۔ عاصم حسین اسلام آباد میں لوٹ مار کے بعد آج کل سندھ حکومت میں ایڈوائزر لگ کر مزید مال کما رہے ہیں۔ یہ ہے جمہوریت کے احتساب کی ایک اور نادر مثال ۔
ایک بڑے ادارے میں چار ارب روپے کا سکینڈل سامنے آیا ۔ نیب سے لے کر ایف آئی اے اور عدالتوں تک‘ سب نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ ہمارا بس نہیں چلتا ۔ ایک اور ادارے کے سربراہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف نیب کو مقدمہ بھیجا گیا کہ انہوں نے برازیل میں جا کر اپنے بورڈز کا اجلاس منعقد کیا تھا‘ ایک سمندری جہاز پر وہ اجلاس ہوا اور وہ اپنے ساتھ پورا خاندان بھی لے گئے تھے۔ نیب پر دبائو آیا اور فصیح بخاری جھک گئے کیونکہ فون اس وقت جی ایچ کیو سے آیا تھا اور فصیح بخاری جنرل کیانی سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کیس دبا دیا گیا ۔
سلمان فاروقی اور ملک آصف حیات دن دیہاڑے چودہ کروڑ روپے کی ''عیدی‘‘ لے کر بھی محتسب اعلیٰ اور چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمشن لگ جاتے ہیں۔ یہ روشن مثال بھی جمہوریت کے باب میں شامل ہو سکتی ہے۔
شریف خاندان نے 1998ء سے بنک قرضے واپس نہیں کیے اور عدالت کا اسٹے چل رہا ہے۔ اس کیس کو بھی اس باب میں شامل ہونا چاہیے کہ کیسے جمہوریت کی مہربانی سے سولہ برس تک عدالت میں مقدمات چل سکتے ہیں۔ جس طرح ہر کاروبار پر اپنے بچوں کو بٹھا دیا گیا ہے وہ بھی پاکستانی جمہوریت کی اپنی مثال ہے۔
راولپنڈی میں حنیف عباسی پر عدالت نے فرد جرم عائد کر دی ہے لیکن نواز شریف اور شہباز شریف نے اسے اربوں روپے کے میٹرو بس منصوبے کا سربراہ بنا دیا۔ فرد جرم کے باوجود عباسی صاحب کو بھی استعفیٰ دینے کی ہمت نہیں ہوئی۔ پنجاب کے وزیرقانون مشہود صاحب کی ویڈیو سامنے آگئی کہ وہ پیسے لے رہے ہیں۔ کسی نیب، ایف آئی اے یا اینٹی کرپشن کو جرأت نہیں ہوئی کہ ان سے پوچھ گچھ کر سکیں۔ یہ بھی جمہوریت
میں احتساب کی شاندار مثال ہے۔
نیب سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف اپنے داماد کو ورلڈ بنک میں نوکری دینے پر ریفرنس فائل کرتی ہے کہ انہیں غلط طریقے سے لگایا گیا تھا۔ لیکن موجودہ وزیراعظم کی بیٹی کو ایک سو ارب روپے دے کر ایک ادارے کا سربراہ لگا دیا جاتا ہے‘ اس پر نیب خاموش ہے۔ یہ ہے وہ انصاف جو اس جمہوریت نے متعارف کرایا ہے۔
ملک کا وزیراعظم اس اعتزاز احسن سے پوری قوم کے سامنے معافی مانگتا ہے جس پر ایک دن پہلے ان کے اپنے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے سیاست کو اپنے کاروبار کے لیے استعمال کرنے اور کرپشن کے سنگین الزامات لگائے تھے۔ یہ واقعہ بھی جمہوری احتساب کے اس باب میں شامل کیا جائے تو یقین کریں آنے والی نسلیں ہم پر فخر کریں گی کہ اس ملک کی باگ دوڑ کیسے کیسے لوگوں کے ہاتھ میں رہی اور کیسا انصاف ہوتا رہا۔
یہ بھی ایک عجیب کلچر ہے کہ اس ملک میں میرے سمیت کوئی اپنا احتساب کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہر ادارہ کہتا ہے کہ اس کے اپنے اندر احتساب کا نظام موجود ہے۔ سیاستدان کہتے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی کیونکہ ان کا اپنا ایک خود مختار ادارہ ہے جس کا نام پبلک اکاونٹس کمیٹی ہے۔ نیب یا ایف آئی اے کون ہوتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنے والے۔
اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ قانون صرف کمزور کے لیے ہے۔ چند طاقتور اور امیر لوگوںنے مل کر ڈیل کے تحت اب جمہوریت بھی خرید لی ہے۔ قانون اور اس کے رکھوالوں کو بھی خرید کر جیب میںڈال لیا ہے اور اب نواز شریف چاہتے ہیں کہ یہ سارے نیک اعمال نصاب میں شامل کیے جائیں تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چلے کہ ان کے دور میں کیسے عدل جہانگیری ہوتا تھا۔