ناروے کے مسلمانوں کی دعوت پر مجھے تین روز کے لئے اوسلو جانے کا موقع ملا۔ جمعرات 23اکتوبر کو صبح ساڑھے پانچ بجے روانگی ہوئی اورمقامی وقت کے مطابق سہ پہر سواپانچ بجے اوسلو پہنچے ۔ناروے آمد کا مقصد اوسلو میں ''سندرے نوراسترندمسلم سنٹر ‘‘ کے سنگ بنیادکی تنصیب اور اس عظیم الشان منصوبے کے لئے عطیات جمع کرنے (Fund raising) کی تقریبات کا اہتمام تھا۔الحمد ﷲ! یہ تمام پروگرام احسن طریقے سے انجام پائے۔ جمعۃ المبارک کی نماز کے بعد مجوزّہ اسلامک سنٹر کے سنگِ بنیاد کی تنصیب کی تقریب میںمسلمان مردوں اور عورتوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا۔ میرے علاوہ برطانیہ سے علامہ محمد فاروق چشتی کو بھی اس تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔ اتوار کی شام مجوزّہ منصوبے کے لئے عطیات جمع کرنے کی خاطر ایک عَشائیے کا اہتمام تھا، جس میں بڑی تعداد میں مردوں اور عورتوں نے حصہ لیا اور تعمیر کے پہلے دو مراحل کے لئے مطلوبہ فنڈ جمع ہوگیا۔ اس منصوبے کے اخراجات کا مجموعی تخمینہ پینتالیس ملین کرونالگایا گیا ہے اور تقریباً پچاس فیصد وسائل مسلمانوں کے فراخدلانہ عطیات سے جمع ہوگئے ، اب تعمیری کام شروع کیاجارہا ہے اور امید ہے کہ تعمیری مراحل کے دوران مزید مطلوبہ مالی وسائل دستیاب ہوتے رہیں گے ۔طاہر سلام ، راجا اقبال، غلام سرور،سید محمد زبیر ، افتخار محمود ،محمد منشا خان اور معصوم زبیر صاحبان اس تنظیم کے اہم اَرکان ہیں۔
اوسلو میں مختلف اسلامی مراکز ومساجد میں علمائِ کرام اور انتظامیہ کے ذمّے داران کے ساتھ مفید اجلاس ہوئے، ان میں مرکزی جماعتِ اہلسنت، اسلامک کلچرل سنٹر، ورلڈ اسلامک مشن اوراسلامک کونسل ناروے سے وابستہ علماء موجود تھے۔اسلامک کونسل ناروے سے ساٹھ ہزار مسلمان اپنے چالیس مراکز کے توسط سے وابستہ ہیں ۔جن علماء سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں ،اُن میں مولانا نعمت علی شاہ ،مولانا محبوب الرحمن ، مفتی محمد زبیرتبسم ، مولانا سید اشرف علی ،مولانا نجیب الرحمن ناز ، پروفیسر عطاء المصطفیٰ اورمولانانوراحمد نور شامل ہیں۔
ناروے کے مسلمانوں کو دَرپیش اہم مسائل میں رمضان المبارَک ، شوال المکرم ، ذوالحجہ اور دیگر اسلامی مہینوں کے آغاز یعنی رویتِ ہلال کا مسئلہ شامل ہے ۔ ناروے کی آبادی تقریباً باون لاکھ ہے، ان میں سے مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ سے مُتجاوزہے، اس میں تمام خطوں کے مسلمان شامل ہیں۔ پاکستانی مسلمانوں کی تعداد تقریباً پینتیس تا چالیس ہزار ہے اور ان میں غالب اکثریت گجرات، لالہ موسیٰ ، کھاریاں، جہلم اور ملحقہ علاقے کے لوگوں کی ہے، دوسری بڑی آبادی صومالیہ کے مسلمانوں کی ہے ، جو وہاں کی خانہ جنگی کے دوران سیاسی پناہ کے لئے ناروے آئے۔
پاکستانی مسلمانوں کے مراکز کے علماء اور انتظامیہ کے ذمے داران رویتِ ہلال کے مسئلے پر ایک فارمولے پر متفق ہوگئے ہیںکہ اگر سائنسی اعتبار سے نئے قمری مہینے کا چاند قابلِ رویت ہو اور کسی مسلمان ملک سے رویت کی اطلاع آجائے ، تو قمری مہینے کاآغاز ہوجائے گا۔ تاحال اس سے ایک جماعت متفق نہیں ہوپائی ۔
تمام مسالک کے اسلامی مراکز کے علماء اور انتظامیہ کے ذمّے داران نے تجویز پیش کی کہ جون میں آپ اور مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب یہاں آئیں اور اس مسئلے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں تعاون کریں، میں نے انہیں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب بھی امید ہے تعاون کے لئے تیار ہوں گے ۔ میں نے انہیں تجویز پیش کی کہ رائیونڈ سے تبلیغی جماعت کے کسی ذمے دارعالم کوبھی اس موقع پر دعوت دیں تاکہ پاکستانی مسلمانوں کی حدتک یہ مسئلہ مکمل اتفاقِ رائے سے حل ہوجائے۔
ناروے کے مسلمانوں کادوسرا اہم مسئلہ سال کے بعض دنوں میں نمازِ عشاء کے وقت کا تعین ہے، کیونکہ اُن ایام میںمغرب کے فوراًبعد فجر کا وقت شروع ہوجاتاہے اور عشاء کا وقت داخل ہی نہیں ہوتا۔ پس ضروری ہے کہ نمازِ عشاء کے لئے اتفاقِ رائے سے ایک ایسا نظام الاوقات طے کیا جائے، جو وہاں کے مسلمانوں کے لئے قابلِ عمل ہو، اس میں گرمیوں کے موسم میں سحر ی کے اوقات کا مسئلہ بھی شامل ہے ۔
ناروے کے مسلمانوں کا تیسرا اہم مسئلہ قطبِ شمالی (North Pole)میں پنج وقتہ نمازوں کے اوقات اور رمضان المبارَک میں سحر اور افطار کے اوقات کا ہے ، کیونکہ وہاں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے ۔ جب چھ ماہ کا دن ہوتاہے تو سورج غروب ہی نہیں ہوتااور جب چھ ماہ کی رات ہوتی ہے ، تو سورج طلوع ہی نہیں ہوتا۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتاہے کہ پنج وقتہ نمازوں اور سحر وافطار کے اوقات کے تعین کے لئے معیار کسے بنایا جائے۔ شرعی طور پر کسی موقّت عبادت (Time Bound Obligation/ Fixed Time Obligation) کے وجوبِ ادا کے لئے اس وقت کا پایا جانا ضروری ہے اور بعض ممالک میں سال کے بعض دنوں میں عشاء کا وقت پایا ہی نہیں جاتا اور قطبین میں چھ ماہ تک کسی بھی نماز کا وقت نہیں پایا جاتا۔ اسی لئے ہمارے قدیم فقہائِ کرام بھی اس سلسلے میں مُترَدِّد (Indecisive)رہے ہیں کہ آیا کسی مقام پر وقت نہ پائے جانے کی صورت میں اُس وقت کی نماز سِرے سے واجب ہی نہیں ہوگی اور اگر وجوب کا قول کیا جائے ، تو ادا کی نیت سے پڑھی جائے گی یا قضا کی نیت سے ؟۔
اس عہد کے علماء بالعموم وجوبِ ادا کے قائل ہیں ، کیونکہ عدمِ وجوب کا قول اختیار کرنے کی صورت میں دین کا ایک فریضہ بعض صورتوں میں مطلقاً ساقط قرار پائے گا اور یہ ذمّے داری قبول کرنا کسی کے لئے آسان نہیں ہے،کیونکہ کسی عبادت کو مطلقًا ساقط قرار دینا شارع کا حق ہے ،اگرچہ ظاہری دلائل اس کے حق ہی میں کیوں نہ ہوں، اسی لئے بالعموم ''وجوبِ ادا‘‘کے قول ہی کو اختیار کیا جاتاہے۔نیت دل کے ارادے کا نام ہے ، اس لئے بہ نیتِ ادا پڑھ لینی چاہئے، حتمی معاملہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر چھوڑ دینا چاہئے۔
چنانچہ ناروے کے مسلمانوں نے تجویز پیش کی کہ آپ حضرات جون کے مہینے میں آئیں اور عملاً قطبِ شمالی میں جاکر حالات کا مشاہدہ کریں اور ایک متفقہ رائے دیں کہ روزے کی سحر وافطار اور پنج وقتہ نمازوں کے لئے اس خطے میں رہنے والے مسلمان کس مقام کے اوقات کو اپنے لئے معیار بنائیں، کیونکہ زندگی کے باقی معمولات کے لئے ان کے ہاں بھی چوبیس گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل ایک دن کا اعتبار کیا جاتاہے اور اسی اعتبار سے کاروبار اور ملازمتوں کے اوقاتِ کار کا تعین ہوتاہے۔
ناروے میں ایک مقام ایسا بھی ہے ، جسے وہ انتہائِ عالَم (End of the World)سے تعبیر کرتے ہیں، وہاں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ بھی ایک اعتباری نام ہے، کیونکہ جب زمین گول ہے ، تو کسی بھی مقام کو حساب کتاب کے لئے ابتدا یا انتہا قرار دیا جاسکتا ہے،کہاجاتاہے کہ ایسا ہی ایک مقام اٹلی میں اور ایک امریکہ میں بتایاجاتاہے، واللہ اعلم بالصواب۔
جنگ عظیم کے دوران ناروے پر حملے کے لئے جرمنی کے بحری جنگی جہاز آتے تھے، تو ناروے والوں نے ان کے مقابلے کے لئے پہاڑ میں آٹھ منزلہ سرنگ (Tunnel) کھودی اور وہاں سے توپیں پہاڑ کی چوٹی پہ لے جاکر جرمنی کے حملہ آور بحری جہازوں پر بمباری کرتے تھے ، اب وہ سرنگیں پختہ بنادی گئی ہیں، اُس مقام کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ جنگِ عظیم میں ناروے پر جرمنوں نے قبضہ کیا اور1945ء میں جب یہ ملک جرمن قبضے سے آزاد ہوا ، تو جو سیاست دان جرمنی کے حامی بنے تھے ، انہیں سزائے موت دی گئی۔ماضی میں ناروے کافی عرصے تک ڈنمارک کی کالونی رہا ، پھر سویڈن کے ساتھ الحاق ہوا اور بالآخر انہوں نے1905ء میں ایک آزادمملکت کی حیثیت اختیار کی۔اِس وقت ناروے اقتصادی اعتبار سے دنیا کی مالدار ترین ریاستوں میں سے پہلے یا دوسرے نمبر پر ہے، اس کے لئے عالمی سطح پر کسی ملک کی فی کس آمدنی (Per Capita Income) کو معیار بنایاجاتاہے ۔ اسکنڈے نیویا کے دیگر ممالک کی طرح ناروے بھی ایک فلاحی ریاست ہے، ہر پیدا ہونے والے بچے کی کفالت ریاست کی ذمے داری ہے اور ہر معذوربچے (Handicap)پر حکومت فی کس پاکستانی کرنسی کے اعتبار سے ایک لاکھ روپے سے زیادہ ماہانہ خرچ کرتی ہے۔