ہمارے حکومتی وزراء اور اکابرین آئے روز ایک ہی بات کہے جا رہے ہیں کہ چینی صدر کے دورۂ پاکستان ملتوی ہونے سے پاکستان34 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے محروم ہو گیا ہے ؟۔27 اکتوبر کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لندن پہنچ کر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اور اس سے اگلے دن وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وفاقی وزارء نے ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت کا ذمہ دار اسلام آباد کے دھرنوں کو قرار دیتے ہوئے کہاکہ ان کے پیچھے کچھ غیر ملکی طاقتیں ہیں جو پاکستان کی معیشت کی بہتری نہیں چاہتیں۔سری لنکا، نیپال اور خاص طور پرچینی صدر کا دورۂ پاکستان ملتوی ہونے سے اپنے ہونے والے ''نقصانات‘‘ کا غصہ عمران خان پر نکالتے ہوئے اس کا ذمہ دار اسے قرار دیاگیا ۔ دوسرے الزامات سے تھک ہار کر عمران خان پر ان کا اب یہی ایک الزام رہ گیا ہے کہ اس کی وجہ سے '' ہماری‘‘ معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے ؟۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 28 اکتوبر کو ہماری بلائی گئی سرمایہ کاری کانفرنس کی کامیابی ہماری بہتر معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اب ان کی کس بات پر اعتبارکیا جائے؟۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہوئے نہیںتھکتے کہ چینی صدر کا دورۂ پاکستان عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے ملتوی ہوا ۔کیا وہ اس حقیقت سے با خبر نہیں کہ اسی چینی صدر کی حکومت نے عمران خان پر اعتماد کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کو ایک ارب ڈالر کی مدد دی ہے تا کہ وہاں کے غریب عوام کے لیے گھر تیارکئے جا سکیں ؟
جب چینی صدر کا مجوزہ دورہ پاکستان ملتوی ہوا تو کہا گیا کہ اس سے پاکستان اپنے حصے سے محروم رہا اور بھارت کادورہ کر کے چین ان
کی معیشت کو سنبھالا دے گا۔ایسا کہنے والے یہ بتانے سے نہ جانے کیوں گریزاں ہیں کہ چین کے صدر نے اپنے دورۂ بھارت کا آغاز کس طرح کیا ؟۔ بھارت کی محبت میں جو بات چھپائی جا رہی ہے ‘وہ یہ ہے کہ جس دن اور جس وقت چین کے صدر اپنے دورۂ بھارت کیلئے نئی دہلی کے اندرا گاندھی ایئر پورٹ پر ہوائی جہاز سے باہر قدم رکھ رہے تھے ‘اسی وقت چینی فوج کے ایک ہزار جوان شمال میں بھارت چین متنازعہ سرحدی علا قے چومور لداخ کی سرزمین کے اندر چار پانچ میل تک داخل ہو چکے تھے ۔ یہ چینی حکومت کا بھارت کیلئے مستقبل کی خیر سگالی کا وہ پیغام تھا جسے بھارت کی مودی حکومت نے کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی تو لیا لیکن اپنی اس سبکی سے اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ چینی صدر کے تین روزہ دورہ ٔبھارت میں ہر وقت ان کے ہاتھ پائوں اس طرح پھولے رہے کہ پوری بھارتی سرکاری مشینری کو سمجھ نہیں آ تی تھی کہ کیا کیا جائے؟۔ مودی سرکار نے یہ خبر دنیا سے چھپانے کی بہت کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہی لیکن سچ جلد ہی باہر آ گیا اور اس سچ میں چھپی ہوئی ذلت اور شرمندگی بھارت سے ابھی تک ہضم نہیں ہو رہی ۔اب ذرا چینی فوج کی لداخ کے اندر پانچ میل تک کی''در اندازی‘‘کی ٹائمنگ کا اندازہ کیجئے اوربھارت کے بڑھکیں مارنے والے ستونوں کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگائیے کہ اس وقت ان پر کیا بیت رہی ہو گی اور وہ شرمندگی اور ذلت کے کس احساس تلے لمحہ لمحہ کچلے جا رہے ہوں گے؟۔
چینی صدر کے دورۂ بھارت کے دوران ان کی بد حواسیاں دیکھنے والی تھیں۔ جب چینی صدر اور ان کے ساتھ آئے ہوئے180 رکنی وفد کی موجو دگی میں بھارت اور چین کے درمیان گجرات میں مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط ہو رہے تھے‘ تو اس وقت گجرات کی صوبائی حکومت نے جو نقشہ وہاں پیش کیا‘ تو اس میں حیران کن طور پر ارونا چل، مقبوضہ جموں کشمیر کے متنازعہ علا قے اورAKSAI CHIN کے علاقوںکو عوامی جمہوریہ چین کا حصہ ظاہرکیا گیا تھا۔ اس پر 22 ستمبر کو اپوزیشن جماعت کانگریس کے ترجمان ابھیشک منو نے لتے لئے ۔ابھی تک مودی سرکار کو اپنے عوام سے جان چھڑانی مشکل ہو رہی ہے‘ کیونکہ جب یہ سرکاری نقشہ میڈیا اور دونوں حکومتوں کو پیش کیا گیا تو نریندر مودی بھی چینی صدر کے ساتھ اس سرکاری تقریب میں موجو د تھے۔ گجرات کے سرکاری حکام کی طرف سے یہ نقشہ پیش کئے جانے پر جو عذر پیش کیا گیا ‘وہ اس قدر بودا تھا کہ میڈیا یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ‘ مودی نے یہ نقشہ جان بوجھ کر پیش کیا ہے تاکہ چینی قیا دت کو بھارت کے مختلف شعبوں اور کے انفراسٹرکچر کیلئے 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر رام کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چینی صدر کے دورۂ بھارت سے قبل جب نریندر مودی بطور وزیر اعظم جاپان کے سرکاری دورے پر گئے تو واپسی پر ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر چکا تھا کیونکہ جاپانی وزیر اعظم سے اپنی دوستی پر ناز کرتے ہوئے مودی جاپانی سرمایہ کاری کیلئے بہت ہی پر امید تھے‘مگر جب مودی نے بھارت میں جاپانی سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا تو جاپانی وزیر اعظم نے فوری طور پر اس سے معذرت کر لی تھی۔
جب چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے چومور لداخ کے سرحدی علاقے میں پختہ سڑکیں بنانے کا عمل شروع کر دیا تو بھارت کے مشہور چینلاین ڈی ٹی وی نے بریکنگ نیوز دیتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ بھارتیوں کو کیوں نہیں بتایا گیا تھا کہ جس وقت بھارتی قیادت چینی رہنمائوں اور ان کے ساتھ آنے والے اعلیٰ سطحی وفدکا پر جوش انداز میں استقبال کرنے کیلئے ہوئی اڈے پر تیار کھڑی تھی ‘اسی وقت چین کے ایک ہزار فوجی چین اور بھارت کے متنازعہ علاقے چومور لداخ میں پانچ میل اندر تک داخل ہوچکے تھے اور ان کے ساتھ سڑک کی تعمیر کیلئے بھاری تعمیراتی سامان اور پانچ سو سے زائد تعمیراتی کام کرنے والے مزدور بھی تھے‘جبکہ بھارتی فوج سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش اور بے بس تھی۔ذرا خود ہی سوچیے کہ نریندر مودی اور ان کے آرمی چیف‘ جنہوں نے اپنے بارے میںپورے بھارت میں یہ تاثر پھیلایا ہوا ہے کہ وہ بھارت کی سکیورٹی اور عزت و وقار کے بارے میں کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے سخت ترین مخالف ہیں اور جو اس خطے میں بھارت کو معاشی طاقت کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی دفاعی اور سیاسی طاقت سمجھتا ہے ۔نریندر مودی چینی فوجوں کے متنازعہ علا قے میں چار کلو میٹر تک اندر گھس آنے پر اس طرح بے دست و پا تھا کہ نہ بول سکتا تھا اور نہ ہی حرکت کرنے کے قابل تھا۔کیا اس کا مطلب یہی لیا جائے کہ وہ صرف پاکستان جیسے اپنے سے چھوٹے ہمسایہ ممالک کو ہی اپنا غصہ دکھانے اور طاقت ور ہونے کی دھمکیاں دینے کے قابل رہ گیاہے؟۔
چینی فوجوں کی اس حرکت پر بھارت کی وزارت خارجہ چپ رہی تو بھارت کی انٹیلی جنس بیورو نے عین اس وقت تبت کے اپنے پرانے مہروں کو استعمال کرتے ہوئے حیدر آباد ہائوس کے باہر جہاں بھارت چین کانفرنس ہو رہی تھی ''تبت آزاد کرو‘‘ کے نعرے لگوانے شروع کرا دیئے ۔ وہ لوگ اسلام آباد میں دھرنوں کو وجہ بناتے ہوئے چینی صدر کے دورہ پاکستان کے ملتوی ہونے کے سبب صبح شام یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ چین اب بھارت کی جانب مائل ہو رہا ہے اور یہ دورہ نہ ہونے سے پاکستان 34 ارب ڈالر کا قرضہ ملنے سے محروم ہو گیا ہے کیا انہوں نے پاکستان کے سرکاری میڈیا کے ذریعے یا وزارت خارجہ کی طرف سے اپنی قوم کو چینی صدر کے دورہ بھارت کے ساتھ ساتھ لداخ کے متنازعہ علا قے میں ایک ہزار چینی فوجیوں کے اترنے کی خبر بھی دینے کی کوشش کی ہے؟۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ اپنی ہی قوم سے یہ اہم ترین بات چھپائی گئی؟آخر کیوں؟