دھرنے کے میلے میں ‘ تجارتی ٹھیلاتو سودا بیچ کے چلتا بنا‘ لیکن اصل میلہ مقصد کے حصول تک جاری رہے گا۔ کم از کم میلے کے منتظم اعلیٰ عمران خان کا دعویٰ یہی ہے۔ اس میلے کا فائدہ ‘ وزیراعظم نوازشریف ابتدائی مرحلے میں حاصل کر چکے۔ یعنی ان کی حکومت تھوڑے عرصے کے لئے بچ گئی۔ اس وقفے کے دوران‘ جو سب سے عمدہ اور تاریخی کام وہ کر سکتے تھے‘ اس کا انہوں نے آغاز کر دیا ہے۔ جہاں تک ان کے تاریخ میں زندہ رہنے کا تعلق ہے‘ وہ اپنے سینے پر کئی شاندار تمغے سجا چکے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہی کہ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہیں جو اس منصب پر تیسری مرتبہ فائز ہوئے۔ کوئی نہیں جانتا ‘ وہ مزید کتنی مرتبہ وزیراعظم بنیں گے‘ لیکن یہ طے ہے کہ اگلے کئی عشروں تک‘ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کا اعزاز‘ شاید ہی کوئی حاصل کر سکے۔ انہوں نے ایٹمی تجربات کا فیصلہ کر کے‘ اپنے ملک کو ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا۔ یہ تمغہ حاصل کرنے والے وہ پاکستان کے پہلے اور آخری وزیراعظم ہیں۔ یہ ایسا اعزاز ہے‘ جو کوئی بھی لیڈر زندگی میں صرف ایک بار حاصل کر سکتا ہے‘ جو وہ کر چکے۔ وہ برصغیر کے پہلے لیڈر ہیں‘ جنہوں نے اس خطے میں اولین موٹروے بنائی۔ برصغیر کے پونے دو ارب عوام کو‘ معاہدہ لاہور پر عملدرآمد کر کے‘ وہ دائمی امن کا تحفہ دے سکتے تھے اور وزیراعظم واجپائی کے ساتھ مل کر امن کا نوبل پرائز بھی‘ ان کے نام ہو سکتا تھا‘ مگر ایک سازش کے تحت انہیں نکال دیا گیا‘ جس کا یقینی طور پر پورے برصغیر کے عوام کو دکھ رہے گا۔ لیکن پاکستان کے 20کروڑ عوام کے لئے وہ ایک اور تاریخی کارنامہ انجام دے سکتے تھے۔ قدرت نے انہیں پھر ایک تاریخی اعزاز لینے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ان کا ایک حالیہ فیصلہ ‘ جو میرے نزدیک دھرنے کے نتیجے میں کیا گیا۔ یوں تو وہ‘ کئی کام دھرنے کے اثرات کے تحت ہی کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں ان کا لافانی تاریخی کارنامہ یہ ہو گا‘ جس کی بنیاد انہوں نے پرائمری سے یونیورسٹی تک‘ نصاب تبدیل کرنے کا حکم دے کر رکھی ہے۔ پاکستان کے تنگ نظر ملائوں نے ‘ کمزور اور غیرمنتخب حکمرانوں کو دبائو میں لا کر تاریخ کی صورت بگاڑی۔تاریخ کو مجرمانہ حد تک مسخ کرنے والے ‘جنرل ضیاالحق تھے۔
اصل کام برصغیر کی تاریخ ‘ قیام پاکستان کے محرکات اور دوقومی نظریئے کو حقیقی سیاق و سباق میںلکھنے اور پاکستان کی ٹھوس بنیادیں اجاگر کرنے کا ہے۔ پاکستان کی تاریخ صرف 1436 سال کو محیط نہیں‘ ہزاروں سال پرانی ہے۔ جس طرح اسلام کی تاریخ سے جزیرہ نمائے عرب کی تاریخ کو نہیں نکالا جا سکتا‘ اسی طرح پاکستان کی تاریخ سے‘ ہم اپنے وطن کی جغرافیائی تاریخ کو بھی نہیں نکال سکتے۔ تاریخ کی جڑوں سے دائمی رشتہ قائم رکھنے کا سبق خود قرآن کریم ہمیں عملاً دیتا ہے۔ قرآن پاک میںان تمام ادیان ‘ انبیائے کرام اور قرآن کریم سے پہلے اتری ہوئی‘ آسمانی کتابوںکا احوال شامل ہے‘ جو مختلف ادوار میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے اور نزول قرآن کے بعد انہیں‘ ردوبدل کی وجہ سے غیرموثر قرار دیا گیا۔ ماضی سے رشتہ کلام اللہ میں بھی نہیں توڑا گیا۔ جوکام خود اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں نہیں کیا‘ وہ ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ یوں تو دنیا میں کہیں بھی سچی اور حقیقی تاریخ موجود نہیں‘ لیکن انسان اپنی تحقیقی صلاحیتوں کو‘ بہتر انداز میں استعمال کر کے‘ جہاں تک ممکن ہو سکے‘ تاریخ کی سچائیاں تلاش کر سکتا ہے۔ ان گنت محققین ایسا کر چکے ہیں اور دنیا میں ایسا لٹریچر موجود ہے‘ جس سے استفادہ کر کے‘ ہم اپنی تاریخ درست کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں صرف ایک ہی لیڈر کو موقع اور اتنی اہلیت ملی تھی کہ وہ تاریخ نویسی کا ٹھوس کام کر اسکتے تھے؟ بھٹو صاحب سے ان کے بعض ساتھیوں نے پوچھا تھا کہ ''جب آپ نے پارٹی بنائی تو کہا تھا کہ وہ حقائق پر مبنی تاریخ لکھوانے کا کام کریں گے۔ ‘‘تو ان کا جواب تھا۔ ''میں کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن میرے پاس اختیار نہیں۔‘‘ بے شک پاکستان جیسے ملک میں‘ سچی تاریخ لکھوانے کا کام آسان نہیں اور
اب تو تاریخ کو مسخ کرنے والی قوتیں اتنی زیادہ طاقتور ہو گئی ہیں کہ کوئی بھی حکومت‘ تاریخ کے سچے حقائق منظر عام پر نہیں لا سکتی اور کوئی لکھ بھی دے‘ تو حکومت کے لئے اسے نصاب میں شامل کرنا‘ دشوار ہو گا۔ لیکن اگر کوئی بڑا لیڈر اس کام کا ذمہ اٹھا لے‘ تو اسے دو مرحلوں میں کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ حقائق پر مبنی سچی تاریخ لکھوا لی جائے اور اس کی چند جلدیں ویب سائٹس‘ ریسرچ لائبریریوں‘ قومی ریکارڈ کے مراکز اور دنیا بھر کی لائبریریوں میں محفوظ کرا دی جائیں‘ تاکہ کوئی بھی محقق اگر پاکستان کی حقیقی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے‘ تو ان سے استفادہ کر لے۔ سچائی کے دشمن‘ صحیح تاریخ کو نصاب میں شامل نہیں ہونے دیں گے‘ تاہم مورخین کی ایک کمیٹی بنا کر‘ ان کے اور مختلف فقہ کے مستند علمائے کرام کے مابین حکومت اپنے زیرانتظام مشاورت کا بندوبست کر لے اور وہ افہام و تفہیم کے ذریعے ‘ جتنا مواد نصاب میں شامل کرنے پر اتفاق رائے کر لیں‘ کم از کم اسے تاریخ کی کتابوں کا حصہ بنا دیا جائے۔ مگر اس بات کی سختی سے ہدایت کر دی جائے کہ جو واقعات غلط‘ من گھڑت اور گمراہ کن ہیں‘ وہ تاریخ کی نصابی کتابوں سے حذف کر دیئے جائیں۔
مثلاً مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات کا‘ ہماری تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ قدیم تاریخ کا مہاراجہ اشوک اپنے عمل میں ایک صلح جو اور انسانیت دو ست حکمران تھا۔ اس کے دور میں تمام مذاہب کے لوگ‘ صلح صفائی کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔ بدھ مذہب کے بانیوں نے برہمنیت اور ذات پات کی اونچ نیچ کے‘ اس نظام کو جو پنڈتوں نے مسلط کر رکھا تھا‘ ترک کر کے بھائی چارے اور اخوت پر مبنی معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کی۔ برہمنوں نے نہ صرف اس کی شدت سے مزاحمت کی بلکہ قدیم ہندوستان میں ان کا جینا دوبھر کر دیا۔ حد یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تاریخ میں سے بھی بدھوں کا تاریخی کردار حذف کر دیا‘ لیکن ہم بدھوں کے ساتھ اپنی دھرتی کے ان رشتوں کو کیو ں توڑیں؟ جو آج بھی پوٹھوہار اور خیبرپختونخوا میں‘ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ بدھوں کے پیغام محبت کو مسترد کرنے والوں میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔ اس کے برعکس اکبراعظم نامی مسلمان بادشاہ نے‘ مذہبی ہم آہنگی ‘ برداشت اور ایک دوسرے کے عقائد کے احترام پر مبنی اقدار کو فروغ دیا۔ یہاں تک کہ باہمی رشتوں کی حوصلہ افزائی بھی کی اور خود جودھابائی نامی ہندو راج گھرانے کی خاتون سے شادی کر کے‘ مذہبی رواداری کی مثال پیش کی۔ اکبر کا زمانہ‘ مذہبی رواداری اور محبت و اخوت کا زمانہ تھا۔ آج بھی اس دھرتی پر امن و شانتی کے جو گیت گائے جاتے ہیں‘ وہ اکبر ہی کے دور کی تہذیبی روایت کے حوالے سے تخلیق ہوئے ۔ اقبالؒ کے شعر ہیں:
سچ کہہ دوں اے براہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آکے میں نے آخر دیروحرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا‘ چھوڑے تیرے فسانے
اور اس نظم کا آخری شعر ہے ؎
شکتی بھی‘ شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے افکار میں‘ مذہبی منافرت کا دور دور تک پتہ نہیں ملتا۔ آزادی کے بعد جو تبادلۂ آبادی کا جھکڑ چلا اور انسانی خون بے رحمی سے بہایا گیا‘ اس کا تاریخ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی کانگریسی لیڈروں کے ذہن میں یہ نفرت تھی۔ ہندو مسلم کی تفریق ‘ مذہبی انتہاپسندوں نے پیدا کی تھی اور یہی ان کا کاروبار تھا۔ مسلمانوں کا قتل عام بھی کسی بڑی سیاسی پارٹی نے نہیں کیا اور پاکستان میں ہندوئوں اور سکھوں کا قتل عام‘ ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے والے دولت کے پجاریوں نے کیا۔ بعد میں دونوں طرف سے حکمرانوں نے‘ مذہبی انتہاپسندوں کے ساتھ ملی بھگت کر کے‘ تاریخ میں مذہبی منافرت کو زبردستی داخل کرایا اور یہ کام آج بھی پاکستان اور بھارت میں ہو رہا ہے۔ مورخ مبارک احمد نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''یہ بتانے کے لئے صحیح طریقے سے لکھنے اور بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ مغل دور میں فرقہ وارانہ فسادات کیوں نہیں تھے؟‘‘ ڈاکٹرمہدی حسن نے کہا کہ ''کسی تاریخ کی کتاب میں قائد اعظمؒ کی وہ تقریر نہیں ہے‘ جو انہوں نے 11اگست کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں کی تھی۔‘‘ ان تحریروں کو ناقابل اشاعت قرار دے دینا چاہیے‘ جو قائداعظمؒ اور اقبالؒ کو تنگ نظر اور متعصب ملائوں کا ہم خیال بنا کر پیش کرتے ہیں۔صحیح اور سچی تاریخ لکھ کر‘ حقیقی پاکستانی قوم تیار کی جا سکتی ہے۔ یہی نسل‘ اقبالؒ اور قائدؒ کے خوابوں کا پاکستان تعمیر کر ے گی۔نوازشریف نے یہ قدم اٹھا لیاہے‘ توحقیقی منزل تک پہنچ کروہ تباہی کے راستے پر سرپٹ دوڑتی ہوئی‘ اپنی قوم کو امن اور ترقی کے راستے پر گامزن کر دیں گے۔ کاش! وہ ایسا کر سکیں۔