پاک ایران بارڈر پر وہ کچھ شروع ہو چکا ہے جس کیلئے دشمن نہ جانے کتنے عرصے سے منصوبہ بندیوں میں مصروف تھے۔ ایرانی فورسز کی فائرنگ سے ایف سی کے صوبیدار کے شہید ہونے پر ایرانی سفیرکی دفتر خارجہ میں فوری طلبی کی گئی۔ اگر لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی ففٹی مکمل ہونے سے پہلے بھارت سے بھی اسی وقت اور اسی زبان میں احتجاج کیا جاتاتو ہو سکتا تھا کہ اب تک ہمارا جو جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے‘ وہ نہ ہوتا۔ پاک ایران سکیورٹی فورسز کی ایک دوسرے پر کی جانے والی گولہ باری دونوں ملکوں کے عوام میں غلط فہمیوں کی خلیج کو گہرا کئے جا رہی ہے۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی کشیدگی کسی طور پر بھی ہمارے لئے مناسب اور فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔ بُرے وقت میں ہماری ہر طرح سے مدد کرنے والے ملک سے تلخی کو ختم کرنا ہی ہمارے لئے بہتر ہو گا۔ اگر پاک ایران بدلتے ہوئے تعلقات پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ تلخی کا آغاز1998ء میں اس وقت ہوا جب طالبان نے افغانستان کے شمالی علا قوں کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے مزارِ شریف میں ایرانی قونصلیٹ جنرل کو قتل کیا۔ پاکستان سے ایران کی تلخیاں بڑھیں اور ایران بھارت تعلقات پروان چڑھنا شروع ہو گئے۔آج جب پاک ایران معاملات میں قدرے کشیدگی پائی جاتی ہے تو وہ وقت بھی یاد آتا ہے جب ایران پاکستان کوتفتان تک25 میگاواٹ بجلی پہنچانے کے علا وہ گواد رکیلئے بھی بجلی کی سہولت مہیا کرنے کیلئے تیار تھا‘ لیکن پھر کیا ہوا؟ پاک ایران گیس معاہدے کی منسوخی نے ہمارے قریب آنے والے ایرانی دلوں کو دوبارہ ہم سے دور کرنا شروع کر دیا ۔ ایران کا خیال ہے کہ بلوچستان کی ایک جیش العدل نامی مذہبی جماعت دہشت گردوں کو ایران میں داخل کر رہی ہے جس سے تہران اور دوسرے ایرانی علاقوں میں مسلح بغاوت کو فروغ مل رہا ہے۔ 2009ء میں دہشت گردوں کی جانب سے پاسداران انقلاب کے جرگے پر کئے گئے حملے کو ایرانی عوام ابھی تک نہیں بھول پائے۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے امسال گیارہ اور بارہ مئی کے دورہ ایران کو سامنے رکھیں تو ممکن ہے یہ بات قارئین کے ذہن میں آ جائے کہ اس دورے سے چند دن قبل ایرانی وزیر خارجہ اپنے دورہ پاکستان میں اپنے میزبان ملک کی اعلیٰ ترین سیا سی اور عسکری قیا دت سے دو طرفہ معاملات پر تفصیلی ملاقاتیں کر چکے تھے۔ ایرانی وزیر خارجہ کے دورے کے چند روز بعد پاکستان کی حکومتی قیادت کا دورہ ایران معمولی نہیں ہو سکتا تھا لیکن جیسے ہی وزیر اعظم ایران کے دورے سے واپس لوٹے تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خبر جا ری کر دی کہ '' ایک دوست ملک کی طرف سے گرانٹ کے طور پر ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر پاکستان کے قومی خزانے میں جمع ہو چکے ہیں‘‘۔ اس خبر کے ساتھ ہی وزیراعظم کا دورۂ ایران سمٹ کر رہ گیا حالانکہ ایرانی قیا دت سے ہونے والی بات چیت میں وزارت خارجہ نے سب سے زیا دہ توجہ گیس پائپ لائن منصوبے پر مرکوز رکھی تھی اور دہشت گردی کے معاملے پر خاموشی اختیار کی گئی۔
بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اس وقت ایران، افغانستان اور پاکستان خطے میں عالمی مفادات کی تکمیل میں اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ایران اگر توانائی کے حوالے سے ناگزیر ہے تو پاکستان ارد گرد کی توانائی کی ترسیل کیلئے اہمیت رکھتا ہے جبکہ افغانستان وسطی ایشیائی ریاستوں کی راہ داری کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ ، برطانیہ اور نیٹو کی مرحلہ وار واپسی نے بر صغیر کی جغرافیائی صورت حال کو اس قدرتبدیل کر دیا ہے کہ بھارت‘ جو پاکستان کی مشرقی سرحدوں سے ٹیک لگائے کھڑا ہے‘ کیلئے افغانستان اب اتنا ہی اہم ہو چکا ہے جتنا پاکستان کیلئے کشمیراور یہ مداخلت مستقبل میں دونوں ملکوں اور عالمی امن کیلئے انتہائی خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہیں۔امریکہ پاکستان کو دبانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ جیسے ہی امریکی فوجی افغانستان سے اپنا سامان سمیٹنا شروع ہوئے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ پاکستان کی فوج تحریک طالبان کے خلاف کامیابی سے ہمکنار ہونے والی ہے تو اچانک بر صغیر میں احرارالہند کے نام سے ایک نئی دہشت گرد تنظیم ابھر کر سامنے آ گئی جس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ نیوکلیئر پاکستان کی عسکری قوتوں کو ہر وقت حالت جنگ میں رکھا جائے۔
امریکہ جو بظاہرایران کا سخت ترین دشمن نظر آتا تھا‘ اب صرف گھورنے والے دشمن کی شکل اختیار کر نے لگا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ایران اگر مکمل طور پر اس کے ہاتھوں سے نکل گیا تو امریکہ، افغانستان ، مڈل ایسٹ اور وسطی ایشیا میں اپنا کھیل کامیابی سے نہیں کھیل سکے گا۔ اسی لیے امریکہ کی شدید کوشش ہے کہ ایران اور چین کے تعلقات کو ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے‘ اور اس کیلئے وہ چین ایران اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں پہلی دراڑ ڈالنے میں اس طرح کامیاب ہو ا کہ امسال اپریل کے آخری ہفتے میں ایران نے چین کے ساتھ کئے گئے 2.5 بلین ڈالر کے اس معاہدے کو منسوخ کر دیا‘ جو چین نے ایران کے جنوب مغربی علا قے میں واقع ایرانی آئل فیلڈ آزادیگان کی ڈویلپمنٹ کیلئے کیا تھا۔ ایران کی طرف سے بس اتنا ہی کہا گیا کہ چونکہ چینی کمپنی اس معاہدے پر تیز رفتاری سے عمل نہیں کر رہی اس لیے اس معاہدے کو اب منسوخ کیا جا رہا ہے‘ لیکن اس موقع پر عوامی جمہوریہ چین کی قیادت کی دانشمندی نے امریکہ کو سٹپٹا کر رکھ دیا‘ کیونکہ اس نے ایران کے وزیر دفاع حسین دہقان کے دورہ چین سے پہلے ہی ڈھائی بلین ڈالر کا یہ چینی کنٹریکٹ منسوخ ہونے کی خبر سننے کے بعد بھی اس دورے کی گرم جوشی کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ
امریکہ یہی توقع کر رہا تھا۔ چین مخالف ان تمام قوتوں کواس وقت سخت مایوسی ہوئی جب انہوں نے دیکھا کہ چین نے کسی بھی قسم کا احتجاج کرنے کی بجائے اسے خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے مہمان ایرانی وزیر دفاع کو غیر معمولی پروٹوکول دیا۔ ایرانی وزیر دفاع کے چار روزہ دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کے بعد امریکہ کا غصہ او ر پریشانی دیدنی تھی۔ ایرانی وزیر دفاع حسین دہقان کے دورہ چین کی افادیت کو کم کرنے کیلئے مشترکہ اعلامیہ جاری ہونے سے چند گھنٹے پہلے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا گیاکہ'' ہر اس شخص کو پانچ ملین امریکی ڈالر بطور انعام دیا جائے گا جو مشہور چینی بزنس مین لی فنگ وی کی گرفتاری میں مدد دے گا۔ اپنے اس اعلان کو مزید سنسنی خیز بناتے ہوئے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ لی فنگ وی‘ جسے عرف عام میں ''کارل لی‘‘ کے نام سے بھی جا نا جاتا ہے‘ کا شمار امریکہ کو مطلوب انتہائی اہم جرائم پیشہ افراد میںہوتا ہے۔ کارل لی نامی اس چینی پر امریکی حکومت کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ 2009ء میں جب ایران پر امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد کی گئی تھیں تو یہ شخص چین کی وساطت سے امریکہ کے مالی اداروں کو استعمال کرتے ہوئے ایران کی در پردہ مددکرتا رہا۔ ا س چینی شہری کی گرفتاری کیلئے امریکی حکومت کی جانب سے پانچ ملین ڈالر انعام رکھنے کے ساتھ ہی یعنی اسی دن امریکی وزارت مالیات کی جانب سے لی فنگ وی کی امریکہ میں موجود8 تجارتی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے انہیںکام کرنے سے روک دیا گیا۔