تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     01-11-2014

افسوسناک پہلو

کسی اندھے کو بھی نظر آرہا تھا کہ شمالی وزیرستان آپریشن ہوکے رہنا ہے ۔ یہ ایک طویل جنگ کا مختصر مگر ناگزیر حصہ تھا۔یہ علاقہ دہشت گردوں کا گڑھ تھا۔ ''آدم خور بازار‘‘سمیت، انسانوں کو خاک و خون میں نہلا دینے والی اشیا مثلاً خود کش جیکٹیں دکانوں پہ عام فروخت ہوتی تھیں ۔ یہی جگہ امریکی ڈرون حملوں کا سب سے بڑا ہدف تھی۔ ظاہر ہے کہ امریکی ہزاروں ڈالر مالیت کے یہ میزائل محض اپنا دل خوش کرنے اور رائے عامہ اپنے خلاف کرنے کے لیے نہیں داغ رہے تھے ۔ ادھر بظاہر اعتدال پسند مگر دل سے عسکریت پسندوں کے حمایتی پروپیگنڈا مشینوں میں تبدیل ہو کے انسانی حقوق کے علمبردار بن گئے ۔اس دوران اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والے معصوم بچوں اور خواتین کی تصاویر انٹر نیٹ پہ لگائی جاتیں اور انہیں پاک فوج کے کھاتے میں گھسیڑ دیا جاتا۔ سادگی کے مارے مگر بے حد مقبول عمران خان فوجی کارروائی کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ۔ ظاہر ہے کہ نون لیگ ایسے کسی اقدام کی متحمل نہ ہو سکتی تھی ، تحریکِ انصاف کو جس سے سیاسی فائدہ حاصل ہوتا۔ دوسرے یہ کہ لیگی قیادت اس خوف میں مبتلا تھی، ہر دولت مند جس کا شکار ہوتاہے ۔ ہزار برس جینے کی خواہش!
بعض مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس باب میں افسوسناک کردار ادا کیا، اس لیے کہ وہ تحریکِ طالبان کو اوپر سے نیچے تک جانتے تھے 
جو مزاروں ، کلیسائوں اور بازاروں میں قتلِ عام کرتے پھر رہے تھے ۔ وزیرستان میں کتنے ہی سپاہیوں کو شہید کر دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ 2009ء کے مذاکرات کے بعد سوات آپریشن کے دوران جو فضل اللہ زخمی حالت میں افغانستان فرار ہوا تھا، وہی اب تحریکِ طالبان کا سربراہ تھا۔ اس کے باوجود قلمی انتہا پسند ''مذاکرات، مذاکرات اور مذاکرات ‘‘کا ڈھول بجاتے رہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال بعدآخر جب آپریشن شروع ہوا تو اس دوران ہزاروں جنگجو افغانستان فرار ہو چکے تھے۔ دعوے سے کہتا ہوں کہ ایک سال قبل اچانک یہ کارروائی کی جاتی تو ایک ہزار کی بجائے چار پانچ ہزار فسادی قتل ہوتے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قوم کو گمراہ کرنے والے شرمندہ تو ہوئے ہی نہیں ، اسی ڈھٹائی کے ساتھ عوام کی رہنمائی میں مصروف ہیں ؎
حشر کے دن وہ گنہگار نہ بخشا جائے 
جس نے دیکھا تری آنکھوں کا پشیماں ہونا
اسلام آباد دھرنے میں علّامہ طاہر القادری کے کردار کے بارے میں سب جانتے تھے کہ وہ کینیڈا کے شہری ہیں ۔ سب جانتے تھے کہ دو سال قبل کس بے دردی سے اپنے ہزاروں مریدوں کا جذباتی استحصال کرنے کے بعدوہ بیرونِ ملک روانہ ہو گئے تھے ۔ اس پسِ منظر میں ہم جیسے قلم کار چیختے رہ گئے کہ ایک دن یہ حکومت سے ہاتھ ملا کر واپس چلے جائیں گے ۔کچھ لوگوں کا روّیہ اس دوران کیا تھا؟ کنٹینر کے اندر جا جا کر ان کے انٹرویو لیے گئے ۔ ایسی پزیرائی کہ باید و شاید۔ کیا کسی نے ان کے ماضی پہ سوال اٹھانے کی کوشش کی اور اسی جرات کے ساتھ ، جس سے سیاسی رہنمائوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتاہے ؟کیا کسی نے یہ سوال کیا کہ پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہو کر کینیڈ اکی شہریت اختیار کرنے والا کوئی شخص ہمارا لیڈر کیسے ہو سکتاہے ؟ آج جب وہ کینیڈا لوٹ چکے اور اپنے پاسپورٹ کی تجدید کراتے پھرتے ہیں تو انہی لوگوں کو کسی اور ہنگامے کی تلاش ہے۔ کیا یہ ہے رائے عامہ کی تعلیم و تربیت ؟
ان کی جی حضوری کرنے والے یہ بھی بھول گئے کہ دھرنے کے نتیجے میں حکومت اگر الٹا دی جاتی تو ملک میں طوائف الملوکی کا راج ہوتا۔ ہمیں تو یہیں رہنا ہے مگر علّامہ صاحب کو اس صورت بھی کینیڈا ہی لوٹنا تھا ۔ تفوبر تو اے چرخ گرداں، تفو
اور سیاست کے شاہین ؟یہ ضمانت دی گئی تھی کہ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کا دھرنا طے شدہ مقام سے آگے نہ بڑھے گا۔ پھر جب طے شدہ منصوبے کے تحت وہ ریڈ زون میں داخل ہوئے تو کیا ان جماعتوں نے احتجاج کیا؟ کیا عمران خان اور طاہر القادری کو عہد شکن قرار دیاگیا ؟ جی نہیں ؟ سب ٹی وی کے سامنے تشریف فرما اس تماشے سے محظوظ ہوتے رہے ۔
اس دوران چین کے صدر نے دورہ ٔپاکستان ملتوی کر دیا۔ انہوں نے پاکستان کے طول و عرض سے گزرتے ہوئے، گوادر کی بندرگاہ سے ملتے ہوئے موٹر وے اور ریلوے کے نظام پہ بات کرنا تھی ۔اس معاشی راہداری کے تحت چینی بحری جہازوں کو اپنے جنوبی سمندر سے ویت نام، سنگا پور ، سری لنکا اور پورے بھارت کے گرد طواف کرنے کی بجائے چھ ہزار کلومیٹر مختصر راستے سے خلیجی منڈیوں تک پہنچنا تھا۔ اسی راستے سے انہیں تیل خریدنا تھا۔ معاشی راہداری کے اس راستے میں جگہ جگہ کاروباری سرگرمیوں نے جنم لینا تھا۔ 23ہزار ارب روپے کی ننھی منی پاکستانی معیشت کو ساڑھے آٹھ لاکھ ارب کی دیو قامت چینی معیشت سے منسلک ہونا تھا، جو عالمی طاقت امریکہ کا نصف ہے ۔ 
عمران خان نے جب اپنے ہاتھ سے پولیس کو پھانسی دینے، ٹیکس ادائیگی سے عوام کو روکنے اور ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک سے ترسیلات کا حکم دیا تو کس مائی کے لعل میں جرأت تھی کہ انہیں ریاست مخالف سرگرمیوں کا مرتکب قرار دیتا۔ یہی بات اگر عام آدمی کہتا تو اسے غدّار کہا جاتا۔ ہم شخصیت پرستی میںمبتلا ہیں اور یہ بت پرستی سے کم نہیں ۔ پاکستانی قوم کس رو میں بہتی چلی جا رہی ہے ۔ کوئی اسے روکتا کیوں نہیں ؟ کوئی اسے جگاتا کیوں نہیں ؟ 
اس جھوٹ پہ افسوس کہ ڈرون حملوں کے زیادہ تر شکار دہشت گرد نہیں ، معصوم اور بے گناہ لوگ تھے ۔ اس جھوٹ پہ افسوس کہ قبائلی علاقوں میں جنرل مشرف نے خوامخواہ افواجِ پاکستان جا گھسائیں۔ حالانکہ وہاں دنیا بھر کے دہشت گرد دندنارہے تھے ۔ اس جھوٹ پہ افسو س کہ شمالی وزیرستان آپریشن میں ایک سالہ تاخیر نے ملک کو شدید نقصان سے دوچار نہیں کیا۔ اس جھوٹ پہ افسوس کہ علّامہ طاہرالقادری کا مرتّب کردہ منصوبہ ملکی بقا پہ کاری ضرب نہ لگا سکتا تھا۔ اس لقمے پہ افسوس جو جھوٹ کے عوض ملتاہے ۔ افسوس ، صد افسوس ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved