تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     02-11-2014

ہیرو کے لئے

آج میں ڈیزل‘ پٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں کمی کی خبر پر لکھنا چاہتا تھا۔ چین کی نئی دھمکی میرے نزدیک اس خطے میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتی ہے۔ چین کے وزیراعظم نے کہاکہ ''افغانستان اپنے مسائل خود حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کے ہمسایوں کو اندرونی معاملات میں مداخلت کئے بغیر‘پرامن ماحول پیدا کرنا چاہیے۔‘‘ حیرت انگیز طور پر امریکہ نے فوراً ہی چین کے اس بیان کا خیرمقدم کیا ۔ افغان صدر اشرف غنی‘ اپنے پہلے غیرملکی دورے پر چین گئے۔ افغانستان کے ہمسایوں کو چین کی طرف سے مداخلت کے خلاف انتباہ غیرمعمولی بات ہے۔ یہ خبریں ‘ خطے کے نئے سٹریٹجک ڈیزائن کا پتہ دیتی ہیں‘ لیکن میں اپنی اس خوشی کے اظہار سے باز نہیں رہ سکتا‘ جومجھے ایک عرصے بعد ‘ پاکستانی کرکٹ کو دیکھ کر ہو رہی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران‘ پاکستانی کرکٹ کی جو درگت بنی اور ہمارے مایۂ ناز کھلاڑیوں کو دردر جا کر جگہ مانگنا پڑی کہ ہمیں کرکٹ کھیلنے کے لئے اپنی گرائونڈز دے دیں اور جس طرح دوسرے ملکوں کے نخرے سہنا پڑے‘ جنہوں نے ہماری درخواست کے باوجود ہمیں میچ کی جگہ دینے سے انکار کیا‘ یہ از حد تکلیف دہ ہے۔ صرف متحدہ عرب امارات کی ریاستوں نے‘ فراخ دلی سے نہ صرف ہمیں‘ دوسرے ملکوں کے ساتھ میچ کھیلنے کے لئے اپنے گرائونڈز مہیا کئے بلکہ پوری طرح حق میزبانی ادا کیا اور کل تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ابوظہبی کی انتظامیہ نے ‘ میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی پرفارمنس‘ خصوصاً یونس خان کے کھیل کو دیکھتے ہوئے‘ پویلین کے دروازے کھول دیئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں تماشائیوں نے گرائونڈ بھر دیا اور شائقین اتنی بڑی تعداد میں‘ میچ سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اس سے پہلے امارات کی کسی گرائونڈ میں‘ حاضرین کی اتنی بڑی تعداد دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ درحقیقت یہ لوگ یونس خان کو خراج تحسین پیش کرنے آئے تھے‘ جو دھڑادھڑ آسٹریلیا کے خلاف ریکارڈ پر ریکارڈ توڑتا چلا آ رہا تھا۔ یونس نے خود بتایا کہ ڈیڑھ سو رنز تک پہنچ کر‘ اس کا جسم ساتھ چھوڑنے لگا تھا۔ شدید گرمی میں دو دن کریز پر کھڑے رہ کر کھیلنا آسان نہیں ہوتا۔ جسم کی ساری توانائی خرچ ہو جاتی ہے‘ لیکن یونس نے بتایا کہ حاضرین کے شوق اور تعداد کو دیکھتے ہوئے ‘میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کوشش کی کہ انہیں اچھا کھیل دکھا کر دوسری سنچری ضرور مکمل کروں۔ یونس کا خیال تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ‘ مجھے دوسری سنچری کرتے ہوئے دیکھنے آئے ہیں۔ مجھے کوشش کرنا چاہیے کہ انہیں مایوس نہ کروں۔ یونس نے دوسرے ٹیسٹ میں اپنی چوتھی سنچری‘ تماشائیوں کی خوشی کے لئے پوری کی۔ 
یونس نے پچھلے آٹھ دنوں کے دوران ‘ پاکستانی کرکٹ کو انگڑائی لے کر‘ جس طرح بیدار ہوتے دکھایا ہے‘ اس پر مزہ آ گیا۔ ہمارے مایہ ناز کھلاڑیوں کو اپنوں اور غیروں نے‘ اس بری طرح سے مار مار کے ادھ موا کر رکھا تھا کہ ان کا اعتماد مجروح ہونے لگا تھا۔ کرکٹ میں ہمارے کچھ حریفوں نے‘ ہمارے بعض اچھے کھلاڑیوں کو غلط الزامات پر کھیل سے باہر کیا۔ کچھ کھلاڑی بھی اتنے گندے تھے کہ انہوں نے لالچ میں آ کر‘ کھیل کی پاکیزگی کو آلودہ کر دیا۔ رہی سہی کسر ‘پنکچر لگانے کا انعام دے کر حکومت نے نکال دی۔ وزیراعظم خود کرکٹ کا شوق رکھتے ہیں۔ کم از کم انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کہ پاکستان کی ادھ موئی کرکٹ کو ‘ پنکچر لگانے والوں کے حوالے کر دیتے۔ وزیراعظم کے پاس انعامات دینے کے لئے‘ بے شمار چیزیں ہوتی ہیں۔ اگر انہیں پنکچروں کی ہنرمندی پر داد ہی دینا تھی‘ تو ریس کورس کا کنٹرول انعام میں دے دیتے۔ این ایل جی کا کوٹہ عطا فرما دیتے‘ جہاں وہ گھر بیٹھے 10 لاکھ روپے فی ٹن کما لیتے۔ انہیں سفیر بننے کا بڑا شوق ہے‘ کسی ملک میں سفیر لگا دیتے‘ لیکن ہماری نیم جاں کرکٹ کو بخش دیتے‘ جسے پہلے ہی دہشت گردوں نے بدحال کر رکھا ہے اور دنیا کی کوئی ٹیم ہمارے ملک میں کھیلنے کے لئے نہیں آ رہی۔ کرکٹ کے ہر اچھے کھلاڑی کو‘ اکثر آئی سی سی کا ہدف بنا کے چار پانچ سال کے لئے کھیل سے باہر کر دیا جاتا ہے اور جو کھلاڑی اس سے بچ رہتے ہیں‘ انہیں ہمارے بورڈ کے اراکین اور عہدیدار‘ اپنی اذیت پسندانہ دلچسپیوں سے کچل کے رکھ دیتے ہیں۔ کیسے کیسے شاندار کھلاڑیوں کے کیریئر ‘ ان لوگوں نے تباہ کئے؟ یاد کر کے دل تڑپ جاتا ہے۔اس کی تازہ مثال یونس خان تھا۔ خوش اخلاقی‘ محبت اور انکسار کا یہ پیکر‘کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتا۔ اپنے کھیل میں مگن رہتا ہے اور کسی بھی معیار سے‘ اسے دنیا کے ممتاز کھلاڑیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے اور اب تو اس نے کر کے دکھا دیا ہے۔ اب کسی کا باپ بھی اسے‘ انٹرنیشنل کرکٹ سے باہر نہیں دھکیل سکتا۔ 8ہزار رنز بنانے والے‘ یوں تو ہمارے دو مایہ ناز کھلاڑی اور بھی ہیں‘ لیکن یونس خان نے یہ 8ہزار رنز ‘سب سے کم ٹیسٹ میچوں میں بنائے ہیں اور اس کا اوسط بھی اپنے دو سینئرز‘ میاں داد اور انضمام الحق سے بہتر ہے۔
وہ دنیا کا واحد کھلاڑی ہے‘ جس نے آسٹریلیا جیسی چیمپئن ٹیم کے خلاف‘ 90 سال کے بعد تین مسلسل سنچریاں بنائی ہیں۔ پہلے یہ اعزاز برطانوی کھلاڑی سٹکلف کو حاصل تھا۔ ان کے بعد 90سالوں کے دوران‘ کوئی مائی کا لال یہ ریکارڈ قائم نہیں کر سکا اور جس نے یہ ریکارڈ توڑا‘ ہمارا بورڈ اسے ٹیم میں شامل کرنے کااہل بھی نہیں سمجھ رہا تھا۔ آپ اندازہ کر سکتا ہے کہ ان ظالموں نے‘ پاکستانی کرکٹ کو کتنے بڑے بڑے اسٹارز سے محروم کیا ہو گا؟ ان کے کیریئر تباہ کئے ہوں گے؟ زندگیاں برباد کی ہوں گی؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ کھلاڑیوں کو ‘کیریئر سے محروم کرنے والے تو بہت ہیں‘ مگر کھلاڑیوں کے کیریئر برباد کرنے والے جلادوں میں سے کسی کو‘ نکالنے والا کوئی نہیں۔ کل کا منظر ہی یاد کر لیں۔ جس یونس خان سے ٹیم کو محروم کر دیا گیا تھا‘ اسے ابوظہبی میں دیکھنے والے بھی ہزاروں کی تعداد میں جوق در جوق آئے اور جن لوگوں نے 
اسے ٹیم سے باہر کیا تھا‘ مجھے یقین ہے کہ ان کی شکل دیکھنے بھی کوئی نہیں آیا ہو گا۔ اچھا ہوا کہ تماشائیوں میں کوئی ان کی شکلیں نہیں پہچان پایا۔ پہچان لیتا‘ تو کیا ہوتا؟ ویلڈن یونس خان! کرکٹ جنٹلمینزگیم ہے۔ یہ تمہارے جیسے کھلاڑیوں کے لئے ہی بنی ہے۔ تم نے خود کو ٹیم سے باہر کرنے والوں کے خلاف بھی ایک لفظ ایسا نہیں کہا‘ جسے نامناسب قرار دیا جا سکے۔ صرف اپنے رنج کا اظہار کیا‘ جو تہذیب کی اعلیٰ ترین اقدار کی نشانی ہے۔ کرکٹ‘ انہی کو عزت دیتی ہے‘ جواسے عزت دیتے ہیں اور تمہیں اس سے زیادہ عزت کیا ملے گی کہ پی سی بی کے چیئرمین شہریار خان نے میڈیا کے سامنے تمہیں ان الفاظ میں یاد کیا۔ ''یونس خان کی نظر میں پیسے کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ جو کرتے ہیں‘ ملک اور ٹیم کے لئے کرتے ہیں۔ یونس خان نوجوان کرکٹرز کے لئے رول ماڈل ہیں۔آسٹریلیا کے خلاف بہترین کارکردگی دکھانے پر‘ بورڈ ‘یونس خان کو انعام دے گا۔‘‘ پاکستانی کرکٹ کے مایہ ناز بولر اور صاحب کردار‘ کھلاڑی عبدالقادر نے تمہاری تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ''یونس خان کی موجودہ پرفارمنس انتہائی شاندار ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹ سے سلیکشن کمیٹی کو جواب دے دیا ہے۔ وہ آسٹریلیا کے خلاف لگاتار تین سنچریاں بنانے والے دنیا کے دوسرے بلے باز بن چکے ہیں۔‘‘ یونس خان نے خود کہا کہ ''میری خواہش کہ پاکستانی ٹیم یہ ٹیسٹ میچ سیریز جیت کر وائٹ واش پر ختم کرے‘ لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔‘‘ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ان کی کارکردگی کی وجہ سے پاکستانی ٹیم نمایاں دکھائی دے رہی ہے۔ ''ون ڈے ٹیم سے باہر ہونے کے بعد میں مایوس نہیں تھا‘ لیکن سوچ رہا تھا کہ اگر ایک بڑی ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلوں گا ‘ تو میری کارکردگی بھی قابل ذکر ہو سکتی ہے۔ میں نے یہاں (ابوظہبی) بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کے ساتھ سخت ٹریننگ کی اور آسٹریلوی ٹیم کو پریکٹس کرتے دیکھا اور ایک ہفتہ میرے لئے بہت کارآمد رہا۔ مجھے یہ کسی کو نہیں دکھانا تھا کہ میں کیا ہوں؟ میری سوچ صرف یہ تھی کہ میں کوئی ایسی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو سکو ں‘ جو ٹیم کے کام آئے‘ جو ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے سیریز ہاری ہوئی تھی۔مجھے تماشائیوں کی طرف سے بہت حوصلہ ملا۔ 160 کے سکور پرمیرا جسم ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ شائقین میدان کی طرف چلے آ رہے ہیں۔ میں نے سوچا اگر میں ہمت کر کے ڈبل سنچری مکمل کر لیتا ہوں ‘تو اپنی بیٹنگ دیکھنے کے لئے آنے والوں کو خوشی کا لمحہ فراہم کر سکتا ہوں۔ اظہر علی نے بہت ہی اچھی اننگز کھیلی۔ مصباح الحق کے اوپر اس سیریز سے قبل ‘بہت دبائو تھا۔ لیکن انہوں نے بھی شاندار سنچری بنائی۔ وہ مثبت سوچ کے ساتھ کھیلے اور ان کے پاس گیم پلان موجود تھا۔‘‘ یونس خان نے بی بی سی کے ساتھ اپنی گفتگو ان الفاظ پر ختم کی کہ ''وہ پاکستانی ہونے پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ ‘‘ موجودہ ٹیم کے تمام کھلاڑی ہی بہت اچھا کھیل پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ہر بڑے واقعے کا کوئی نہ کوئی ہیرو ہوتا ہے اور آسٹریلیا کے خلاف‘ پاکستانی ٹیم کے حالیہ کارناموں کا ہیرو یونس خان ہے۔ اس لئے پورا کالم اپنی ٹیم کے ہیرو کی نذر کر دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved