تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-11-2014

مردانِ کار

مردانِ کار‘ اے خدا کے بندو‘ مردانِ کار‘ عربوں کا محاورہ یہ ہے: لکل فن رجال۔ ہر کام کے لیے مخصوص لوگ ہوا کرتے ہیں۔ 
متامل اور متذبذب وزیر اعظم نے بالآخر وہ فیصلہ صادر کر دیا‘ خیرخواہ جس پہ مصر تھے۔ ڈیزل اور پٹرول کی قیمت کم کر دی گئی۔ ظاہر ہے کہ قومی معیشت پر خوشگوار اثرات اس کے مرتب ہوں گے۔ قنوطیوں اور خدا واسطے کا بیر رکھنے والوں کی بات دوسری ہے۔ قنوطی وہ شخص ہوتا ہے‘ پھول دیکھ کر جسے قبریں یاد آتی ہیں۔ بعض لوگوں کا بے ساختہ ردعمل یہ ہے کہ بجلی بھی سستی ہونی چاہیے۔ جی نہیں‘ ہرگز نہیں ہو سکتی۔ اگر کر دی جائے تو کسی اور مد میں سرکاری خزانے پر اتنا ہی بوجھ پڑے گا۔ بجلی کا بحران حل کرنے کی سرکاری حکمت عملی ناقص ہے۔ اس لیے بھی ناقص ہے کہ اس کی حاکمیت کو پوری طرح کوئی مانتا ہی نہیں۔ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مراسم خوشگوار نہیں یا مرکز کو کمزور پا کر وہ من مانی پر تلی رہتی ہیں۔ بجلی چوروں کو پولیس پکڑتی نہیں۔ کیوں پکڑے۔ جو پولیس حکمرانوں کی باندی ہو‘ جس کا کام ان کی حفاظت اور لقمۂ تر کے لیے وسائل جمع کرنا ہو‘ اس طرح کے کام وہ نہیں کیا کرتی۔ 
ایک خوشگوار صبح وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے پولیس والوں کی تنخواہیں دوگنا کر دی تھیں۔ چٹنی سے روٹی کھانے والے کی بھی اور لاہور کے اس افسر کی بھی‘ جسے ڈکیت کہا جاتا ہے۔ ذاتی طور پر ڈکیتی کی واردات کرتے ہوئے پکڑا گیا کہ دوسروں کو حصہ کیوں دیا جائے۔ کچھ عرصہ معطل رہنے کے بعد بحال کر دیا گیا۔ اللہ جانے اب کہاں ہے۔ 
ایک سہانی صبح وزیر اعلیٰ نے ججوں کی تنخواہیں بھی دوگنا کر دی تھیں۔ دال روٹی کھانے والے مجسٹریٹ کی اور راولپنڈی کے اس جج کی بھی‘ جس نے مجھے پیغام بھیجا تھا: ملزم نے ایک لاکھ روپے کی پیشکش کی ہے‘ تمہاری پیشکش کیا ہے؟ 
آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا۔ الا ماشاء اللہ‘ حکمران طبقہ کرپٹ۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ والوں کے کارناموں سے ہم خوب واقف ہیں۔ تحریک انصاف بھی نمک کی کان میں نمک ہو چکی۔ ملتان کا ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد شاہ محمود قریشی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ایک ہردلعزیز مگر سادہ لوح آدمی ہتھے چڑھ گیا ہے۔ اس صورت حال کا زیادہ سے زیادہ فائدہ مجھے اٹھا لینا چاہیے۔ روزِ گزشتہ عمران خان کی موجودگی میں اس نے اعلان کیا کہ جس شخص کو تحریک انصاف میں شامل ہونا ہو‘ میری خدمت میں اسے پیش کیا جائے۔ عمران خان خاموش رہے اور وہی بتا سکتے ہیں کہ کیوں خاموش رہے۔ دوسروں نے مگر سوال کیا کہ ایک ہی آدمی کیوں۔ مختلف لوگوں کے مراسم مختلف سے ہوتے ہیں۔ کچھ دیر بحث ہوتی رہی‘ بالآخر ایک کمیٹی بنا دی گئی۔ کمیٹی کے چار میں سے دو ارکان پرلے درجے کے بدعنوان ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس قماش کے لوگ جن کے بارے میں یہ کہا گیا ؎ 
بھاگ ان بردہ فروشوں سے، کہاں کے بھائی 
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے 
حال ہی میں آڈٹ کرنے والے ایک معتبر ادارے نے‘ پارٹی فنڈ میں غبن کرنے والے جن چار افراد کی نشاندہی کی‘ یہ دونوں مذکورہ معززین ان میں نمایاں ہیں۔ نسبتاً کچھ مقبول لیڈر اس پر شاد تھے کہ شاہ محمود پارٹی کو اغوا کرنے کی جو کوشش کر رہے ہیں‘ اس میں کچھ نہ کچھ رکاوٹ پڑی۔ بجا ارشاد۔ اتنی بڑی جماعت میں اچھے لوگوں کا کیا ایسا قحط ہے کہ بہرحال بدعنوانوں پر ہی انحصار کیا جائے ؎ 
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب 
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں 
میاں محمد نواز شریف بحران سے بچ نکلے ہیں اور اس پر نہال نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ یہ ناچیز بار بار عرض کرتا رہا‘ علامہ صاحب بھاگ گئے اور قرائن یہ ہیں کہ معاہدہ کر کے بھاگے۔ یہ ارشاد کر کے رخصت ہوئے کہ شریف حکومت کا خاتمہ اللہ کو منظور نہیں۔ بنیادی مطالبے سے خود کپتان بھی دستبردار ہے۔ کبھی یہ کہتا ہے: میاں صاحب خدا کے لیے ابھی استعفیٰ نہ دیجیے گا‘ کبھی یہ اطلاع دیتا ہے کہ 30 نومبر کا عوامی طوفان بجلی کی قیمت کم کرانے میں مددگار ہو گا۔ جی نہیں‘ مسئلہ یہ نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کاروبارِ حکومت قاعدے اور قرینے سے چلایا جائے۔ دور دور تک جس کے آثار نہیں۔ تحریک انصاف اگر برسراقتدار آ جائے‘ تب بھی نہیں۔ اعجاز چودھری‘ سیف اللہ نیازی‘ عامر کیانی اور صداقت عباسی اگر معتبر ہیں تو قانون اور قاعدہ پامال۔ پرانے خوشامدیوں کی جگہ نئے خوشامدی۔ عمران خان کے حامیوں کا استدلال یہ ہے کہ وہ خود تو اُجلا ہے۔ جی ہاں کیپٹن قابل اعتماد ہے لیکن ٹیم کے باقی دس کھلاڑیوں میں سے پانچ اگر میچ فکس کرنے والے ہیں تو نتیجہ کیا ہو گا۔ کرکٹ کے زمانے میں عمران خان کیا اس طرح کے لوگوں کو برداشت کیا کرتے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ قطعاً نہیں۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی میں بھی نہیں۔ تحریک انصاف میں اس لیے کہ حصولِ اقتدار کا بھوت سر پہ سوار ہے‘ اس لیے کہ خوشامدیوں نے انہیں گھیر رکھا ہے‘ اس لیے کہ سیاسی حرکیات کا ادراک وہ نہیں رکھتے اور جو رکھتے ہیں‘ ان میں سے بعض ان کی نگاہ التفات سے محروم ہیں؛ چنانچہ پارٹی پر شاہ محمودوں کا غلبہ ہے اور انجام معلوم ؎
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل 
کل نہ پہچان سکے گی گلِ تر کی صورت 
اخبار نویس دوستوں نے میرا مذاق بہت اڑایا۔ مجھ سے بدگمان بھی بہت ہوئے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ عمران خان سے میں ناراض ہوں اور حساب برابر کرنے پر تُلا ہوں۔ ناراض اگر ہوتا تو کیا دھاندلی پر اس کے موقف کی اس طرح ڈٹ کر تائید کرتا؟ ناراض اگر ہوتا تو کیا اس کے گھر جا کر مؤدبانہ عرض کرتا کہ حضور‘ سال بھر توقف فرمائیے۔ پارٹی کی تنظیم نو کیجیے۔ چھوٹی عدالتوں‘ پولیس‘ ایف بی آر اور سول سروس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے عرق ریزی فرمائیے۔ بار بار کیا یہ کہتا کہ شریف حکومت تو ریت کا گھروندا ہے‘ کسی وقت بھی جو زمین بوس ہو جائے گا۔ تمام تر توجہ اس پر ہونی چاہیے کہ مستقبل کی چارہ گری کے لیے مبسوط اور مربوط ایک پائیدار نظام ابھی سے وضع کر لیا جائے ؎ 
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی 
لا کے رکھیو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے 
انقلاب اور آزادی کے قافلے روانہ ہونے سے ایک ہفتہ قبل‘ اس ناچیز نے لکھا ''ناکامی‘ دیوار پہ لکھی ہوئی ناکامی‘‘۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کرنے والے اس وقت نہایت پُرامید اور نہایت پُرجوش تھے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ پس پردہ وہ کون تھے۔ بار بار اس لیے یہ سوال میں اٹھاتا رہا کہ بری حکومت گوارا ہے یا انارکی؟ عمران خان کے باب میں‘ کوئی تبدیلی اس کے سوا‘ مجھ ناچیز کی رائے میں نہیں آئی کہ مایوسی کا شکار ہو کر اب بدعنوان لوگوں کو وہ گوارا کرنے لگے ہیں۔ ان کے ذاتی کارنامے سب کے سب یاد ہیں۔ نیت اس کی ٹھیک تھی۔ روپے پیسے کا قتیل وہ ہرگز نہیں۔ مردم شناس مگر وہ قطعاً نہیں۔ مقبول اب وہ بہت ہے۔ پہل اب اس کے ہاتھ میں ہے۔ مزید یہ کہ شریف حکومت اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کی بے پایاں صلاحیت رکھتی ہے۔ کسی بھی وقت کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ تب عمران خان اقتدار پا لے۔ اندیشہ مجھے یہ ہے کہ اگر ایسا ہوا تو فقط چہرے بدلیں گے۔ ممکن ہے‘ ایسی افراتفری پھیلے کہ نواز شریف گوارا محسوس ہونے لگیں‘ جس طرح آج کل بعض کو پرویز مشرف ہیرو لگتے ہیں۔ 
قدرت کے قوانین اٹل ہیں۔ کارِ سیاست میں سب سے اہم اور بنیادی ادارہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ سیاسی جماعت ہے۔ سیاسی پارٹیاں‘ جب تک جمہوری خطوط پر استوار نہ ہوں گی‘ کارکنوں کی جب تک تربیت نہ کی جائے گی‘ حکمرانوں کی تبدیلی سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ 
مردانِ کار‘ اے خدا کے بندو‘ مردانِ کار‘ عربوں کا محاورہ یہ ہے: لکل فن رجال۔ ہر کام کے لیے مخصوص لوگ ہوا کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved