تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     02-11-2014

خیبر پختونخوا۔۔۔۔ کامیابی کی کہانی

پہلے اچھی خبر۔۔۔ تازہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں خیبر پختونخوا کامیاب جارہا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ رشکِ لندن یا پیرس بن گیا ہے، ایسی بات نہیں ۔ ہم حقیقت پسند ہیں۔ اب بری خبر۔۔۔نوا ز شریف حکومت روز بروز اپنی مقبولیت کھورہی ہے۔ اس خبر کا منبع کوئی سروے نہیں بلکہ عام پاکستانی کے جذبات ہیں۔ ایسا نہیں کہ حکومت ختم ہوچکی ہے، نہیں، لیکن یہ دکھائی کہیں نہیں دیتی۔ ڈاکٹر رفعت حسین ایک قابلِ فخر پختون ہیں۔ وہ امریکہ میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ ایک کامیاب سرجن ہیں۔ ان کا آبائی شہر پشاور ہے جہاں ان کے معمر والدین، جن کی عمر نوے سے کم نہیںہوگی، رہتے ہیں۔ وہ ہرسال پاکستان جاکر کچھ دیر ہسپتالوں میں پیدائشی طور پر کٹے ہوئے ہونٹوں کا آپریشن کرتے ہیں۔ سرجری سے ایسے بچے مکمل طور پر صحت یاب ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر رفعت پاکستانی ڈاکٹروںکو کچھ تعلیم دینے کے لیے وقت بھی نکال لیتے ہیں۔ 
جب بھی ڈاکٹر رفعت پاکستان آتے ہیں تو عام افراد سے بھی ملاقات کرنے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عام افراد ہی ایک معاشرے کی درست عکاسی کرتے ہیں۔ان کا مشاہدہ درست اور اظہار پرخلوص ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان میں ہونے والے تجربات کو ہر مرتبہ خوشگوار کہنا آسان نہیںہوتا۔ اس مرتبہ جب ان کا جہاز اسلام آباد ایئرپورٹ، جسے دنیا کے بدترین ایئرپورٹس میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے، پر صبح کے تین بجے اترا تو سامان اٹھانے میں ان کی مدد کرنے والے مزدور کا تعلق بھی کے پی کے سے ہی تھا۔ اُنھوں نے پوچھا ''کیا خبریں ہیں‘‘ تو اُس نے پشتو میں جواب دیا۔۔۔''بہت بہتر حالات ہیں‘‘۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہ کس طرح تو اُس نے جواب دیا کہ بہتر پولیس، ہسپتال اور صفائی کے نظام سے صوبے میں تبدیلی آرہی ہے۔ 
جس ٹیکسی والے نے ڈاکٹر رفعت کو ان کے اسلام آباد میں میزبان کے گھر پہنچایا، جہاں اُنھوں نے عارضی قیام کے بعد پشاور جانا تھا، اُس سے ڈاکٹر صاحب نے اسلام آباددھرنوں اور عمران خان کے بارے میں دریافت کیا۔ اس پر اس ٹیکسی والے نے حکومت پر ناروا الفاظ میں تنقید بھی کردی اورآج کل ایک مشہور نعرہ بھی دہرایا۔ اس کا پشتو ترجمہ بہت ہی خراب مفہوم پیش کرتا ہے۔ اگلی صبح ڈاکٹر رفعت نے پشاورکی طرف رخت سفر باندھا۔ اس موقع پر اُنہیں شریف برادران کی کارکردگی سے پہلا واسطہ پڑا جب زیادہ تر سڑکیںکھدی ہوئی ملیں ۔ اسلام آباد سے پشاور جانے والی موٹر وے تک جانے میں بیس منٹ لگتے ہیں لیکن اُنہیں دوگھنٹے لگ گئے۔اُنھوںنے دیکھا کہ سڑکوں کو متبادل راستوں کا مناسب انتظام کیے بغیر اندھا دھند کھود ڈالا گیا ہے ۔
ڈاکٹر رفعت کو پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھے ابھی بمشکل اڑتالیس گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اُنہیں وفاقی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کارکردگی میں فرق دکھائی دینے لگا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے شاید ووٹ دینے پاکستان نہیں جانا، لیکن جن افراد نے اگلے انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے ہیں، کیا یہ فرق ان کی نگاہوںسے اوجھل ہے؟ یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتوںکے انتخابات پنجاب میں آسانی سے اور وہ بھی مستقبل قریب میں نہیں کرائے جائیںگے۔ ڈاکٹر صاحب کو ایسا لگا کہ ہرشخص کی زبان پر عمران خان کا نام ہے۔ حالیہ تاریخ نے کسی سیاسی رہنما کی ایسی تشہیر نہیں دیکھی ہوگی۔ جس طرح وہ عوام کی نظروں میں آگئے ہیں (کچھ اُنہیں پسند کرتے ہیں، کچھ ناپسند، لیکن نظر انداز کوئی نہیں کرسکتا)اس کی مثل پیش کرنا مشکل ہے۔ڈاکٹر رفعت کو ایک ستر سالہ بزنس مین ملا ۔ وہ اس کاروبار بہت اچھا جارہا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ اُسے سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں لیکن اُس کاکہناتھا کہ عمران کو اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں جو اُس نے کردیا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ وہ کیا چیز ہے تو اُس بزنس مین نے جواب دیا۔۔۔''شوکت خانم ہسپتال میں ایک غریب مریض بھی اُسی بیڈ پر ہوتا ہے جس طرح کا بیڈ ایک کروڑ پتی مریض کو ملتا ہے۔‘‘ ہمیں باقی پاکستان میں بھی برابری کا یہی احساس چاہیے۔ یقینا دولت مند کی زندگی مختلف ہوتی ہے لیکن اس کا سماجی رتبہ عام شخص سے بلند کیوں ہو؟دونوںکی ریاست کے نزدیک ایک سی حیثیت ہو۔ دوسری طرف شریف برادران پنجاب اور وفاق کی سیاست میں کم وبیش دوعشروںسے ہیں لیکن ان کی کسی میدان میںایسی ترجیح دکھائی نہیں دیتی۔ 
اس کے بعد ڈاکٹر رفعت ایک معمر عورت سے ملے جو خیبرپختونخواکے کسی دورافتادہ گائوں میں پیداہوئی اور اُس نے وہیں زندگی بسر کی تھی۔ اس کے باجود اُس کی آنکھوں میں بہتر مستقبل کی چمک تھی کہ کپتان سب کچھ بدل دے گا۔ یہ ہے وہ سیاسی اور اخلاقی کامیابی جس سے موجودہ حکمران خائف ہیں۔ عمران خان کو اقتدار ملے نہ ملے، وہ دل جیت چکا ہے۔ وہ عورت ،جو کسی گائوں میں رہتی تھی، آج اس کے بچے پشاور کے انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ ان کے سامنے اچھا مستقبل ہے ۔ ان کی امید سے دل کو حوصلہ ہوتاہے۔ ابھی عمران خان کی وجہ سے ملک میںکوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئی ہے لیکن اس کا احساس ہونا شروع ہوگیا ہے۔ یہی سب سے اہم بات ہے۔ اس احساس کو روایتی سیاسی پیمانوں میں نہیں ناپا جاسکتا ۔ 
ڈاکٹر رفعت نے دیکھا کہ عمران خان کا تاثر خیبرپختونخوا میں ایک ایسے رہنما کے طور پر مستحکم ہورہا ہے جو ہسپتال بناتا ہے‘سکول چلاتا ہے اور منصفانہ انتخابات پر زور دیتا ہے۔ اس پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں۔ ان تینوں خوبیوں کا مقابلہ سڑکیں، پل اور لیپ ٹاپ سے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سچ پوچھیں تو مجھے تو حکومت سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔ کیا اگلے انتخابات میں صحت اور تعلیمی سہولیات کا مقابلہ انڈرپاس یا پل یا سڑک سے ہوگا؟ یہ تو کوئی مقابلہ ہے ہی نہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران باقی ملک تک یہ تاثر کیسے اور کب پھیلاتے ہیں؟
پاکستان یقیناتبدیلی کے عمل سے گزرہاہے۔ یہ تبدیلی انتخابی کامیابی میں کیسے ڈھلے گی؟ کوئی نہیں جانتا ، لیکن سماجی ترقی کے پیمانے بدل رہے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انتخابات سیاسی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن وہ سماجی تبدیلی کے آئینہ دار نہیں بن پاتے۔ ایسی صورت میںبھی عمران خان کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اُنھوںنے انقلاب لانے کا وعدہ کیا تھا، اس کی طرف پاکستان نے بڑھنا شروع کردیا ہے۔ ایک اوربات، پاکستان یک لخت تبدیلیوںکے لیے نہیں بنا، یہ ہمارا قومی مزاج ہی نہیں۔ ہم دنیاکے تمام اسلامی ممالک سے مختلف ہیں۔ ہمارا سیاسی نظام، ادب، لباس، سپورٹس، موسیقی، فن ، زراعت اور سب سے بڑھ کرعوام کی فطری ذہانت اور محنت کرنے کی سکت بہت سی ترقی یافتہ قوموںسے بہتر ہے۔ بہت دکھ ہوتا ہے بہت سے جغادری صحافیوں کا اس کے سوااور کوئی کام نہیںکہ قوم کو مایوس کرکے اپنی ریٹنگ بناتے رہیں۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ مایوسی کا شکار افراد یہاں خود کو انقلابی کہلواتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved