نیب نے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف اپنے داماد کو ورلڈ بینک میں نوکری دینے پر کارروائی شروع کر دی ہے۔
قانون کے تحت ورلڈ بینک میں جو بیوروکریٹ بھیجا جاتا ہے‘ اس سے پہلے ایک خط صوبائی اور وفاقی وزارتوں کو بھیجا جاتا ہے ۔ افسران کی درخواستیں لے کر انہیں سلیکٹ کر کے پھر پینل انٹرویو کیا جاتا ہے اور پھر ایک کو منتخب کیا جاتا ہے۔
راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کے سکینڈلز فائل کیے تو انہوں نے قومی اسمبلی میں تقریر میرے خلاف کی جس میں انہوں نے مجھے مختلف القابات سے نوازا ۔
رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب میں نے ان کے دور کے پچاس ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ سکینڈل کو بریک کیا کہ کیسے ایم این ایز، وزراء، ایم پی اے اور یار دوستوں کو کروڑوں روپے بانٹ دیے گئے اور ایم این ایز کے بارے میں پتہ چلا کہ اکثریت ان فنڈز کو لکی مروت اور فاٹا کے علاقوں میں بیچ کر ایک کروڑ روپے پر بیس لاکھ روپے کما رہی تھی۔ اچھے دن تھے۔ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ۔ ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈز روک دیا گیا ۔
لیکن راجہ پرویز اشرف کو داد دوں گا‘ جب بھی ملاقات ہوئی، مجال ہے کبھی انہوں نے ایک مرتبہ بھی منہ کا ذائقہ خراب کیا ہو ۔ ہمیشہ عزت سے ملے اور کبھی گلہ نہیں کیا۔ نواز شریف پر دو تین دفعہ بات کی تو موصوف نے دورہ چین میں بڑی مشکل سے ہاتھ میری طرف بڑھایا تھا اورمیں نے بھی اتنی ہی انگلیاں آگے کی تھیں جتنی ان کی مجھے نظرآرہی تھیں۔
بات ہورہی تھی رشتہ داروں اور دوستوں کو ورلڈ بینک اور ایشین بینک میں ہزاروں ڈالرز کی نوکریاں دلانے کی۔
تاہم آج راجہ صاحب سے ہمدردی ہورہی ہے۔
شوکت عزیز سے لے کر گیلانی، راجہ اور اب وزیراعظم نواز شریف تک سب نے اپنی پسند کا بندہ اٹھایا اور ورلڈ بینک اور ایشین بینک میں لگادیا ۔
مثلاً گیلانی صاحب اپنے پرنسپل سیکرٹری سے جان چھڑانا چاہتے تھے جنہیں لندن سے امپورٹ کیاگیا تھا۔ زرداری صاحب کا کہنا تھا بینظیر بھٹو اپنے پرانے وفادار سے لندن میں وعدہ کر چکی تھیں۔ وہ پاکستان سے فرار ہونے کے بعد لندن میں ٹیکسی چلاتے تھے لہٰذا انہیں پرنسپل سیکرٹری بنایا جائے۔ ان پر کئی مقدمات درج تھے جس وجہ سے وہ لندن میں ٹیکسی چلانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ گیلانی صاحب کو ابھی پرنسپل سیکرٹری کی افادیت کا علم نہیں ہوا تھا کہ وہ کتنے کام کی چیز ہوتا ہے لہٰذا مان گئے۔ پہلے اس پرنسپل سیکرٹری نے اپنے خلاف مقدمات ایک ایک کر کے خارج کرائے اور پھر انہوں نے بھی پر پرزے نکالنے شروع کیے۔ تاہم جب گیلانی صاحب کا کھل کر انگڑائیاں لینے کا جی کرنے لگا تو ان صاحب نے ہر بات میں ٹانگ اڑانا شروع کر دی ۔ گیلانی نے زرداری صاحب کی ناراضی سے بھی بچنا تھا اور جان بھی چھڑانی تھی لہٰذا فیصلہ ہوا کہ انہیں ورلڈ بینک بھیج دیا جائے۔
یوں ورلڈ بینک کی یہ جاب گیلانی صاحب کے کام آگئی اور پھر چل سو چل۔
یاد پڑتا ہے گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف نے ایک دن بلا کر کہا کہ مشورہ دیں اب کیا کروں۔ میں نے کہا راجہ صاحب میں مشورے نہیں دیتا ۔ یہ میرا کام نہیں کہ سیاستدانوں کو ذاتی مشورے دوں۔ بہت اصرار کیا تو اتنا کہا اپنے خاندان کو اقتدار سے دور رکھیں۔ گیلانی صاحب بہت بدنام ہوچکے۔ لوگ آپ کا وزیرپانی و بجلی کا کردار بھول جائیں گے۔ راجہ صاحب نے اپنے پریس سیکرٹری اکرم شہیدی کی موجودگی میں سر ہلایا کہ واہ واہ کیسا نادر مشورہ دیا ہے۔ ایک ہفتے بعد پتہ چلا انہوں نے اپنے داماد کو ورلڈ بینک میں لگوا دیا اور ایک بھائی کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر چالیس کروڑ روپے بھی دیے۔ راجہ صاحب نے اس پر بس نہیں کی بلکہ لاہور اور کراچی میں رہائش پذیر دوستوں کو غریبوں کے فنڈز میں سے بھی لاکھوں روپے غریب سمجھ کر ادا کیے تھے۔ اب اس چکر میں نہیں پڑتے کہ ان میں کوئی رشتہ دار بھی تھے یا پھر سب پرانے دوست... اب موصوف ریفرنس بھگت رہے ہیں۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ راجہ صاحب کے پرنسپل سیکرٹری کو علم ہوا کہ وہ ریٹائر ہونے والے ہیں لہٰذا انہوں نے سیکرٹری فنانس واجد رانا کے ساتھ مل کر ایک خفیہ کھیل کھیلا۔ پہلے وفاقی پبلک سروس کمشن کے ممبران کی تنخواہیں راتوں رات لاکھوں میں کر دی گئیں۔ ایک سمری وزیراعظم کے نام رانا صاحب نے بھیجی کہ سب کی تنخواہیں بڑھائیںجائیں۔ پرنسپل سیکرٹری نے فوراً تنخواہ بڑھانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ۔ سب حیران کہ بھگوان کیسے راضی ہوگیا تھا ۔ کمشن کے ممبران بھی حیران حکومت کیسے راضی ہوگئی تھی۔ ایک ہفتے بعد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو کہہ کر ایک اور سمری بنوائی گئی جس میں اپنے نام ڈلوائے گئے اور سفارش کی گئی کہ راجہ صاحب کے پرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری فنانس جواد رانا کو فوراً ممبر ایف پی ایس سی لگا دیا جائے اور نئے پیکیج پر دونوں نے چارج سنبھال لیا ۔ دونوں بابوئوں کا کمال دیکھیں... خود منصوبہ بنایا، خود اس پر عمل کیا اور خود ہی اس سے فائدہ اٹھایا اور ہم ابھی بھی شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے زکوٹا جن سمجھدار نہیں ہیں۔ جب خود فائدہ اٹھانا ہو تو پھر ان زکوٹا جنوں سے بہتر اور کوئی پرفارم نہیں کر سکتا۔
دونوں آج کل ایف پی ایس سی میں بیٹھ کر قوم کے نونہالوں سے سوال و جواب کرتے ہیں کہ کون اچھا بیوروکریٹ بنے گا۔ ان دونوں کے اوپر عزت ماب زرداری صاحب کے سابق سیکرٹری ملک آصف حیات بیٹھے تھے جو پہلے ہی سلمان فاروقی کے ساتھ مل کر ایوان صدر میں بٹنے والی چودہ کروڑ روپے عیدی سے اپنا بھاری حصہ وصول کر چکے تھے۔
یوں سب زکوٹا جن اکٹھے ہوگئے اور پھر چل سو چل۔
اب آتا ہے ہمارے مغل بادشاہ اور عدل جہانگیری کا دور۔
ناصر کھوسہ پنجاب کے چیف سیکرٹری تھے۔ کھوسہ صاحب کی اکلوتی قابلیت یہ تھی وہ اپنے سرائیکی علاقوں سے دور رہتے تھے۔ سول سروس میں موجود سرائیکیوں کی اکثریت یہ راز جان چکی ہے کہ اگر سول سروس میں ترقی پانی ہے تو پھر اپنے علاقے کے مسائل سے دور رہو اور ہائوس آف شریف اور لاہور سے وفادار رہو۔ یوں ناصر کھوسہ اسی سنہرے فارمولے پر چلتے ہوئے ترقی پاگئے۔ جب نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری کے عہدے سے کھوسہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو نئی نوکری کی تلاش شروع ہوئی۔ ایک دفعہ آنکھ اس سیٹ پر پڑی جس پر راجہ پرویز اشرف نے داماد کو لگوایا تھا۔ نواز شریف صاحب نے بھی وہی کام کیا جو پہلے وزیراعظم کرتے تھے۔ بادشاہ سلامت نے حکم جاری کیا اور آج کل کھوسہ صاحب واشنگٹن رہتے ہیں۔ اس سے پہلے نواز شریف صاحب نے اپنی کابینہ کے سیکرٹری سمیع سعید کو بھی رولز کی پروا کیے بغیر ایشیائی ترقیاتی بینک کے اعلیٰ عہدے پر تعینات کیا۔ کوئی پینل نہ بیٹھا جو کبھی ان لوگوں کے انٹرویو کرتا کہ آیا وہ اس قابل بھی تھے کہ وہ ورلڈ بینک اور ایشین ترقیاتی بینک کے اتنے اعلیٰ عہدوں پر کام کر سکتے اور پاکستان کے مفادات کا تحفظ کر سکتے یا پھر ملک میں ان سے بہتر لوگ مل سکتے تھے؟
سوال یہ ہے کہ اگر گیلانی صاحب اور نواز شریف صاحب دو دفعہ رولز کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں اور اپنے وفاداروں کو بغیر کسی انٹرویو کے اٹھا کر ہزاروں ڈالرز کی نوکری دے سکتے ہیں تو پھر راجہ پرویز اشرف نے داماد کو لگا کر کیا غلط کیا ہے؟
کیا نیب سے پوچھا جا سکتا ہے وہ کس قاعدے اور قانون کے تحت ایک وزیراعظم کو پکڑ لیتے ہیں اور اسی جرم پر دوسرے کو سلام کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں ۔ اگر راجہ نے داماد کو غلط لگایا تو پھر وزیراعظم نوازشریف اور گیلانی اور دیگر نے بھی غلط لگایا۔ ان کے نام اس ریفرنس میں شامل کیوں نہیں ہیں؟
بہتر ہے نیب احتساب کا یہ ڈرامہ بند کرے۔ جس طرح طاقتور کے آگے نیب جھک جاتا ہے اور کمزور پر چڑھ دوڑتا ہے اس کے بعد اس کی ساکھ ختم ہوچکی ہے۔ نیب کی عادت بن چکی یہ وزیراعظم اور وزراء کے اقتدار سے باہر جانے کا انتظار کرتا ہے اور پھر شیر بن جاتا ہے۔
جنرل امجد کے دور سے یہ کام شروع ہوا ۔ نیب افسران نے ایل پی جی کے کوٹے اپنے ملزم اقبال زیڈ احمد سے لیے تھے جس سے تیس کروڑ رپے کی ڈیل ہوئی ۔ اس نے بارہ کروڑ ادا کیے۔ باقی نیب افسران نے کوٹے لے کر اس کے ساتھ ہی کاروبار شروع کر دیا تھا۔ آج بھی وہی چل رہا ہے۔ نیب افسران کسی کو بھی پکڑ لیتے ہیں اور دب کر مال کھاتے ہیں۔ نیب کے صبح صادق ٹائپ انکوائری افسران جنہیں انجم عقیل معصوم اور بے قصور لگتا ہے، تو پچاس ارب روپے کے سکینڈل کے ملزم کو چالیس کروڑ روپے کی بارگین کر کے چھوڑ دیتے ہیں اور جب رولا پڑتا ہے تو پھر پکڑنا پڑتا ہے۔
کرپشن ختم نہ ہوسکی لیکن نیب افسران کی ساتھ پشتوں کی زندگیاں بدل گئیں۔
نیب میں اگر کہیں کوئی انصاف اور ضمیر نام کی چیز بچ گئی ہے تو راجہ پرویز اشرف کے خلاف ریفرنس ختم کریں یا پھر اس ریفرنس میں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی سمیت ان تمام وزیراعظموں کے نام ڈالیں جنہوں نے ماضی میں اس طرح اپنے دوستوں اور وفادار بابوئوں کو ورلڈ بینک میںراتوں رات ہزاروں ڈالرز کی نوکریاں دی تھیں یا پھر زیادہ جرأت دکھانی ہے تو پھر نوازشریف صاحب سے پوچھ لیں کہ اپنی بیٹی کو ایک سو ارب روپے کے منصوبے پر کیسے تعینات کیا؟
ہے کوئی نیب میں جس کا ضمیر زندہ ہے یا پھر کوئی آج کے دور کا نیا اقبال زیڈ احمد جیسا نیا کھلاڑی ان سب کو ایل پی جی کے کوٹے کھلا کر خرید چکا ہے...!