''نیلوفر‘‘ کے خوبصورت اور دل نشیں نام سے بحیرۂ عرب میں انٹری دینے والے طوفان نے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں اپنی رُونمائی سے تو گریز کیا تاہم اچھا خاصا ہنگامہ ضرور کھڑا کردیا، تماشا لگادیا۔ ''نیلوفر‘‘ کے برپا ہونے کے آثار کیا ہویدا ہوئے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں ہلچل مچ گئی۔ اِس قدر ٹھنڈے، پُرسکون اور نرم و نازک نام والے طوفان نے یاروں کی دوڑیں لگوادیں۔ اچھے خاصے خوابِ غفلت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو ہوش میں آکر متحرک ہونا پڑا۔ طوفان کے خدشے سے اور کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، دو دن میں یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ اِس ملک کے لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے اب طوفان درکار ہیں!
ہم نام کے اثرات کے قائل نہیں مگر ''نیلوفر‘‘ کے معاملے میں ہم اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ نسوانی نام نے خوب اثر دکھایا۔ طوفان مرد کی سی شان اور اکڑ کے ساتھ آرہا تھا مگر پھر خالص نسوانی انداز سے پسپائی کی راہ پر گامزن ہوا۔ علامہ نے کہا تھا ؎
دیکھیے اِس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا!
ہم بھی بحیرۂ عرب کی تہہ سے ''نیلوفر‘‘ کے اُچھلنے کے منتظر تھے مگر ''نوٹس مِلیا، ککھ نہ ہِلیا‘‘ کے مصداق ککھ نہ اُچھلا اور ''گنبدِ نیلوفری‘‘ کا جھاگ یُوں بیٹھا کہ لوگ ڈھونڈتے ہی رہ گئے۔گویا ع
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے!
ہمارا خیال تھا کہ مرزا تنقید سمندری طوفان کی آمد کا سُن کر متجسّس ہوں گے مگر یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بات بات پر حیران ہونے والے مرزا ''نیلوفر‘‘ کی آمد کی خبر پر سمندر کی سی گہری سوچ میں ڈوب گئے! شاید ذہن کی پیالی میں کوئی طوفان اُٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ذہن کے تبحّر سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوپائے تو بولے، ''ہمارے ہاں بحران اور طوفان قطار بند کھڑے ہیں۔ ایسے میں 'نیلوفر‘ کو کیا آنا تھا؟ اور بُھولے بھٹکے آ بھی جاتا تو کیا تیر مار لیتا؟ کون خیر مقدم کرتا؟ بھارت میں جب سے نریندر مودی کی سرکار بنی ہے، یہاں اِتنے طوفان سَر اُٹھائے ہوئے ہیں کہ قدرت کے تیار کردہ طوفانوں کی نمائش کے لیے کوئی تھیٹر خالی نہیں مل رہا! مودی سرکار نے خیر سے کنٹرول لائن کی پیالی میں بھی ایسا طوفان اُٹھایا ہے کہ امن کی آشا پوری کی پوری جھاگ بن کر فضا میں تحلیل ہو رہی ہے اور دوستی کی خواہش دُھول چاٹ رہی ہے!‘‘
''نیلوفر‘‘ نے ہزار بارہ سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایسا کرّ و فَر دکھایا کہ یہاں تو اُچھل کود شروع ہوگئی۔ حد تو یہ ہے کہ شاہ سائیں یعنی سندھ کے وزیر اعلٰی سید قائم علی شاہ کو بھی ایکشن میں آنا پڑا۔ اُن کا ایکشن میں آنا تھا کہ ہم قلم تھام کر بیٹھ گئے۔ بہت سے صاحبانِ ذوق کی طرح ہمیں بھی شاہ سائیں کی رسیلی باتوں کا چَسکا لگ چکا ہے۔ وہ جب بھی لب کُشا ہوتے ہیں، ہم قلم تھام کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ چند ایک شاہکار ٹائپ کے جُملے محفوظ کرکے اُن پر طبع آزمائی کرکے اپنی کالم نگاری کا بھرم رکھیں!
شاہ سائیں کو شاید کسی نے بتادیا تھا کہ ''نیلوفر‘‘ کا سانس اُکھڑ چکا ہے اِس لیے اُنہوں نے اپنی ''ٹھنڈیاں تے مٹھیاں گنڈیریاں‘‘ جیسی باتوں سے تھوڑا سا طوفان برپا کرنے کی کوشش کی۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ سائیں نے فرمایا، ''طوفان کے باعث کراچی اور اُس کے نواح میں 35 تا 40 انچ (!) بارش متوقع ہے۔‘‘ ملی میٹر کے بجائے انچ کا ذکر کرکے شاہ سائیں نے میڈیا کے محاذ پر تھوڑا بہت ہنگامہ تو برپا کر ہی دیا۔ ملی میٹر کے بجائے انچ کا ذکر سُن کر شاہ سائیں کے پیچھے کھڑے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے سَر پکڑ لیا اور میڈیا پر یہ بات سُننے والے دِل تھام کر رہ گئے۔
شاہ سائیں نے ملی میٹر کو انچ میں تبدیل کرنے پر اکتفا نہیں کیا۔ اُن کے ترکش میں اور بھی تیر تھے۔ ایک سوال پر شاہ سائیں نے ''انکشاف‘‘ کیا کہ ماہی گیر سمندری طوفان اور دیگر موسمیاتی تغیّرات کے بارے میں موسمیات کے ماہرین سے زیادہ جانتے ہیں! ہم نے وہی کیا جو عموماً ایسے مواقع پر ہم کرتے آئے ہیں۔ یعنی شاہ سائیں کی سادگی اور معصومیت پر ''زیر لب کے نیچے‘‘ مُسکرا دیئے! ہمارے ماہی گیر موسم کی جانکاری کے معاملے میں ماہرین کی ''جان ماری‘‘ کے محتاج نہیں۔ اگر وہ موسمیات کے ماہرین کی پیش گوئیوں پر چلتے تو اپنی کشتیاں اور لُٹیا کب کی ڈبو چکے ہوتے!
کراچی میں جو چند برساتی نالے رہ گئے ہیں اُن کے نالے سُننے والا اب کوئی نہیں۔ جو حال قوم کے مقدر کی نالیوں کا ہے وہی کراچی کے برساتی نالوں کا ہے۔ دونوں ''چوک‘‘ ہوئے پڑے ہیں۔ ''نیلوفر‘‘ نے جلوہ دکھانے کی خواہش ظاہر کی تو سرکاری مشینری کے چند سرکردہ پُرزے ہی خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہوئے بلکہ ہلچل اور دھماچوکڑی سے کراچی کے برساتی نالوں کی قسمت بھی جاگ اُٹھی۔ شاہ سائیں نے بتایا کہ اُنہوں نے گجر نالے کا نیچے سے ''طبی‘‘ معائنہ کیا ہے۔ گجر نالے کے حوالے سے شاہ سائیں شاید ''طبعی‘‘ معائنہ کہنا چاہتے تھے۔ خیر، جو کچھ اُنہوں نے کہا وہ بھی اُن کے لیے فطری اور طبعی ہی ہے!
''نیلوفر‘‘ اہل پاکستان کو درشن نہ دے سکا۔ اِس سمندری طوفان کی بھینس بھی گئی پانی میں! مگر خیر، یہ طوفان جاتے جاتے بہت سوں کی بھینسوں کو پار لگاگیا ہے۔ طوفان سے بچاؤ کے نام پر قومی خزانے کی جیب کچھ ڈھیلی کی گئی۔ چند بڑوں کی دِلی مراد بر آئی۔ کسی نہ کسی بِلّی کے ہاتھوں چھینکا تو ٹوٹنا ہی تھا، ٹوٹ گیا۔ دریا کے بطن سے جنم لینے کا سیلاب ہو یا سمندر کی تہہ سے اُچھلنے والا طوفان، جن کے مزے ہیں اُن کے تو مزے ہیں۔ عوام کو ریلیف پہنچانے کے نام پر سرکاری مشینری کے چند طاقتور پُرزے اپنی جیب میں مزید بہت کچھ ٹھونس لیتے ہیں۔ طوفان ٹل جاتے ہیں مگر اِن لوگوں کے مزے نہیں ٹلتے۔
جو لوگ سمندری طوفان اور دیگر قدرتی آفات کے ٹلنے کو کسی نہ کسی بزرگ کی کرامات کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کو ہمارا حال اور ہماری اوقات زیادہ معلوم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ لوگ کسی بڑی آفت کا ایک جھٹکا بھی جھیل نہیں پائیں گے۔ ہم اللہ کے حضور گڑگڑاکر بارش کے لیے دعا کرتے ہیں مگر بارش کم کم ہی ہوتی ہے۔ سبب یہ نہیں کہ اللہ ہماری دعا نہیں سُنتا یا رحمت برسانا نہیں چاہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اِس قابل ہی نہیں کہ بارانِ رحمت سے کماحقہ مستفید ہوسکیں۔ چار چھینٹے پڑتے ہیں تو ہمارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ جاذبؔ قریشی نے خوب کہا ہے ؎
کیوں مانگ رہے ہو کِسی بارش کی دُعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو!