آج کل مغربی دنیا میں اسلام قبول کر کے یکدم جہاد میں شامل ہونے کا رجحان دکھائی دے رہا ہے ۔یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جس سے مجھے تو خوف آنا شروع ہو گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر ایک خاص قسم کے مذہبی گروہ کے خیالات سے متاثر ہو کر کم عمر لڑکے لڑکیاں سب کچھ چھوڑ کر غیر ملک روانہ ہو جاتے ہیں‘ اس عمل کو اسلام قبول کرنا کہتے ہوئے مجھے جھجک محسوس ہوتی ہے۔
یہ جو داعش کے ساتھ مل کر جہاد کرنے مغربی ملکوں سے نوجوان شام یا مشرق وسطیٰ کے کسی اور ملک میں پہنچ رہے ہیں،ان کی ذہنی کیفیت بھی مجھے ویسی ہی دکھائی دیتی ہے جیسی کارل مارکس اور لینن کے نوجوان دیوانوں کی ایک دور میں ہوتی تھی۔ اشتراکیت کے دیوانے امیر طبقے کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور ان کو غریبوں کا استحصال کرنے کا ذمہ دار گردانتے تھے۔ یہ ناانصافی اُن کے لیے برداشت کے قابل نہ تھی۔ اسی طرح جہاد کے لیے مغربی ممالک کے جو نو مسلم نوجوان شام وغیرہ جا رہے ہیں، وہ اپنے ہی ملکوں کو غاصب سمجھتے ہیں اور اپنی حکومتوں کی پالیسیاں ان کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتیں، لہٰذا اسلام کے نام پر جہاد کا پیغام ان کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ تقریباً یہی کیفیات مسلمان ملکوں کے نوجوانوں کی ہوتی ہیں جو القاعدہ یا اس جیسی تنظیموں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔
اس انتہا پسند سوچ کا اسلام سے کوئی رشتہ ہے ہی نہیں۔ جس دین کا مطلب سلامتی اور امن ہو، اس سے یہ سوچ اخذ ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ سب مغربی میڈیا کا کمال ہے کہ انہوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو بڑی کامیابی سے اسلام کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ اس حکمت عملی کے ضرور کوئی سیاسی مقاصد ہوں گے مگر دنیا کے ڈیڑھ سو کروڑ مسلمانوں میں سے محض چند ہزار ایسے ہیں جو مغرب کے اس نقطۂ نظر سے متفق ہیں۔ یہ چند ہزار لوگ جو القاعدہ وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں، کس کلیے کے تحت دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے نمائندے ہو سکتے ہیں؟ مغربی میڈیا کہتا ہے کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں مگر تمام دہشت گرد مسلمان ہوتے ہیں۔ یہ کیسا بے بنیاد الزام ہے۔ لیکن آفرین ہے پراپیگنڈہ ماہرین پر کہ اس کو حقیقت بنا دیا ہے اور اسامہ بن لادن اور اس قبیل کے لوگوں کو، جن کی کل تعداد کرہ ارض کے سارے مسلمانوں کی نسبت انتہائی کم ہے‘ تمام مسلمانوں کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور پھر ان کیخلاف دہشت گردی کی جنگ شروع کر کے کئی مسلمان ملکوں کے باشندوں کو تہہ تیغ کر دیا جاتا ہے۔
آپ اگر غور کریں تو اسلام کو انتہاپسندی والا دین یا تو مغربی میڈیا،یا القاعدہ اور اس قسم کے دیگر گروپ مانتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کا کوئی بھی فرقہ یا گروپ اسلام کے دہشت گردی سے کسی قسم کے بھی تعلق کو قبول نہیں کرتا۔
اب یہ جو مغربی ملکوں کے چند سو نوجوان اپنے تئیں اسلام قبول کر کے جہاد کرنے مشرق وسطیٰ پہنچے ہیں‘ مغربی میڈیا کی نظر میں اسلام کے نمائندے بنے ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے ذریعے مغربی میڈیا میں ایک خوفناک قسم کی مہم چل رہی ہے جس کا مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں پھیلتے ہوئے اسلام کے پُرکشش پیغام کی کشش میں کمی پیدا کی جائے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے قرآن پاک کا ایک انگریزی ترجمہ دیکھا تھا جو Sahih Internationalوالوں نے شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ تین امریکی مسلمان خواتین نے کیا ہے اور دنیا بھر میں اسے ایک بہترین ترجمہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ آج کل اسلام قبول کر کے جہاد پر جانے والے مغربی ممالک کے نوجوانوں کا بڑا کارنامہ جو منظر عام پر آیا ہے ،وہ کسی گورے صحافی کو پکڑ کر اس کی گردن اڑا دینا اور پھر اس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر جاری کر دینا ہے۔ان دونوں واقعات میں سے آپ خود فیصلہ کر لیں کہ کون سا اقدام اسلام کی ترویج کا سبب بنتا ہے اور کس اقدام سے اسلام سے دوری پیدا ہوتی ہے۔
نائن الیون کے واقعات کے بعد اسلامی دنیا میں بہت کنفیوژن رہا ہے مگر اب مسلمانوں کی اکثریت اس بات کی قائل ہو چکی ہے کہ جس نقطۂ نظر کے حامل افراد نے یہ دہشت پھیلائی تھی، انہوں نے کرہ ارض پر رہنے والے اپنے ڈیڑھ ارب بہن بھائیوں کی کوئی خدمت نہیں کی تھی۔ انتہا پسند سوچ کے حامل ان افراد نے علم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مغربی ملکوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے دہشت پھیلا کر ایسا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی ؎تھی جس کی القاعدہ اور اس قسم کے دیگر ''گروپس‘‘ آج تک وضاحت نہیں کر سکے۔
پوری دنیا کے مسلمان تاحال حیرت میں مبتلا ہیں کہ مغربی ممالک کے میڈیا نے کیوں ان مُٹھی بھر افراد کو کروڑوں مسلمانوں کا نمائندہ تسلیم کر لیا۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ کچھ صدیوں سے مسلمان علوم و فنون کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ اب آگے بڑھ نہیں سکتے۔ کون جانتا ہے مستقبل میں کیا ہوگا، لیکن یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس طرح دہشت پھیلا کر ترقی کا وہ فرق مٹایا نہیں جا سکتا جو مغربی ممالک اور مسلمان ممالک کے مابین موجود ہے۔
گزشتہ صدی کے شروع میں اشتراکی سوچ کے تحت دنیا بھر میں جو تبدیلیاں آئی تھیں ،وہ اسی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوئی تھیں کہ ان
میں امیر اور غریب کے فرق کو طاقت کے ذریعے مٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب اگر مسلمانوں کے درمیان ایک گروہ طاقت اور دہشت کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ہے تو اس کا انجام بھی ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طویل المیعاد حکمت عملی یہی ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بانٹ کر رکھا جائے تاکہ یہ ماضی کی طرح پھر دنیا پر غالب نہ آ جائیں۔ مغرب کی اس حکمت عملی کا جواب یہ تو ہرگز نہیں ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے ذریعے ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ مسلمانوں میں مزید تفرقہ پیدا ہو۔ اس سے تو الٹا مغربی دنیا کے ہمارے خلاف طرزعمل کو تقویت ملتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کا میڈیا القاعدہ قسم کی تنظیموں کی سوچ کو اسلام کی نمائندہ سوچ قرار دے کر پوری دنیا کے مسلمانوں کو دہشت گردی کا طعنہ دیتا رہتا ہے۔ بعض لوگ یہ تک کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کے پیچھے بھی مغربی ممالک کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ بات درست بھی ہو تو قصور تو ہمارا ہی ہے۔ ہمارے اندر کے لوگ ہی تو آلہ کار بنتے ہیں۔ ہم اور ہماری حکومتیں ہی ایسے حالات پیدا کرتی ہیں کہ جذباتی قسم کے ہمارے نوجوان انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں زیادہ قصور ہمارا اپنا ہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تاحال مسلمان ان حالات سے باہر نکلنے کی کوئی حکمت عملی نہیں بنا سکے۔