تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     03-11-2014

سوالیہ نشان کب مٹے گا؟

برطانیہ میں کیے جانے والے ایک حالیہ سروے میں سوال پوچھا گیا،'آبادی میں مسلمانوں کا تناسب کیا ہے؟‘ تو ملنے والے جوابات کا اوسط تھا کہ برطانوی معاشرے میں مسلمانوں کی تعداد اکیس فیصد ہے۔ جبکہ اصل تعداد صرف پانچ فیصد ہے۔ امریکہ میں یہ لاعلمی اس سے بھی شدید ہے۔ وہاں لوگوںکے خیال میں امریکہ میں مسلمان آباد ی کا پندرہ فیصد ہیں جبکہ اصل تعداد صرف ایک فیصد ہے۔ فرانسیسی افراد نے تو حد ہی کردی۔ وہ سوچتے ہیں کہ فرانس میں مسلمان آبادی کا اکتیس فیصد ہیں جبکہ وہاںمسلمان آبادی کا صرف آٹھ فیصد ہیں۔ 
مغربی معاشروں میں رہنے والے لوگ مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں مبالغے کا شکار کیوں ہیں؟جب انہی افراد سے دیگر سوالات کیے جاتے ہیں ، جیسا کہ ان کے معاشرے میں تارکین، وطن کی اوسط، تو اُن کا جواب حقیقی اعداد و شمار سے زیادہ مختلف نہیں ہوتا لیکن مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ لگانے میں وہ اتنی غلطی کیوں کرگئے؟اس کا مطلب ہے کہ کسی شخص کے ذہن میں مسلمانوں کی تعداد کا تاثر جتنا زیادہ ہوگا، وہ اتنا ہی ان کی موجودگی سے خائف رہے گا۔ گزشتہ کئی برسوں سے بہت سے عوامل نے مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثرات اور تعصبات کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ پہلی بات یہ ہے کہ مغرب میں مسلمان آبادی خود کو بہت نمایاں کرکے رکھتی ہے۔ ان کی خواتین روایتی لباس پہنتی ہیں جبکہ اُن میں سے بہت سوںنے حجاب یا کم از کم سرپر دوپٹہ لیا ہوتا ہے۔ آدمیوں میں سے اکثر کی داڑھی ہوتی ہے۔ اس طرح وہ معاشر ے میں دوسرے مذاہب یا عقائد سے تعلق رکھنے والو ں میں سب سے نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر اقوام اپنی مذہبی شناخت کو نمایاں کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتیں۔
لباس کے علاوہ مسلمان آبادی عام طور پرمغرب کی سماجی اور ثقافتی زندگی سے دور رہتی ہے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کلبوں اور باررومز میں نہیں جاتے اور حلال گوشت کے لیے اصرار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا میں مسلمان خاندانوں میں زبردستی کی شادی یا عزت کے نام پر قتل کیے جانے کے واقعات گردش میں رہتے ہیں۔کم سنی کی شادی کے واقعات بھی عام ملتے ہیں۔ سلمان رشدی کے خلاف دیے جانے والے قتل کے مشہور فتوے اور ڈنمارک کے ایک اخبار کی طرف سے توہین آمیز کارٹون شائع کیے جانے پر دنیا بھر میں کیے جانے والے پرتشدد مظاہروں جیسے واقعات کے نتیجے میں مسلمانوں کو سخت گیر اور تشدد پسند افراد سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک میں بعض قوانین کے تحت غیر مسلموں کو دی جانے والے سزائوں کی وجہ سے بھی مسلمانوں کو عدم برداشت کی حامل قوم سمجھا جاتا ہے۔ 
برطانوی شہری اُس وقت سخت صدمے سے دوچار ہوئے جب ایک 70 سالہ برطانوی شہری ، محمد اصغر، جو دماغی امراض میں مبتلا تھا، کو توہین کے کیس میں سزائے موت سنادی گئی۔ ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کی بیٹی نے شدید غم وغصے کے عالم میں بتایا کہ اُس کے باپ کو جیل میں ، جبکہ وہ قید میں تھے، گولی مار دی گئی۔ برطانیہ میں مسلمانوںکے امیج کو اُس بھی شدید دھچکا لگا جب یہ خبر سامنے آئی کہ مسلمان نوجوانوں کا ایک گروہ، جن میںسے زیادہ ترکا تعلق پاکستان سے تھا، کئی برس کم عمر بے سہارا سفید فام لڑکیوں کو بظاہر ہمدردی کی آڑ میں درندگی کا نشانہ بنارہا تھا۔اگرچہ یہاں نافذ سخت قوانین اور سیاسی اقدارکی وجہ سے ان افراد کے مسلمان یا پاکستانی ہونے کو نہیں اچھالا گیالیکن روتھر ہام (Rotherham) اورراک ڈیل(Rochdale )میں پیش آنے والے واقعات میں یہی لوگ ملوث تھے۔ روتھرہام کی یونائیٹڈ کلچرل سنٹر کی ڈائریکٹر پروین قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح مسلمان آبادی سے تعلق رکھنے والے افراد ان نوجوانوں کے گھنائونے افعال کے بارے میں جاننے کے باوجود پولیس کے پاس نہیں گئے اور اپنی زبان بند رکھی۔ اس اسکینڈل نے برطانیہ کو ہلا کررکھ دیا۔ شہری اُس وقت سخت صدے میں غصے میںتھے جب پتہ چلا کہ گزشتہ سولہ سال کے دوران 1,400 سفید فام کم سن لڑکیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ 
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن ِ پارلیمنٹ، این کفی(Ann Coffey)، جو کہ ایک سماجی کارکن بھی ہیں، نے 
ایک رپورٹ تیار کرتے ہوئے گریٹر مانچسٹر میںپیش آنے والے واقعات کو ''سماجی معمول ‘‘ کا نام دیا۔ اس رپورٹ میں پولیس، والدین اور سماجی کارکنوںسے انٹرویو لیا گیا۔ اس انکشاف پر کہ یہ ایک ملک گیر مسئلہ ہے، اب پولیس نے گرفتاریاں کرنا شروع کی ہیں۔ اس سے پہلے پولیس ان الزامات کو سنجیدگی سے لینے سے قاصر رہی کیونکہ بہت سے کیسز میں یہ سوچا گیا کہ اس میں لڑکیوں کی مرضی بھی شامل ہوسکتی ہے۔۔۔ جیسا کہ ان کے لباس اور رویے کا حوالہ دیا گیا تھا۔ شکار ہونے والی اکثر لڑکیاںپناہ میں تھیں لیکن اُن کو پناہ دینے والے ان کی ابتلا سے بے خبر رہے۔ کچھ لڑکیوں، جن میں سے اکثر کی عمر بمشکل بارہ سال بھی نہیں تھی، کو تحفے تحائف دے کر ورغلایا گیا۔ بے شک بہت سے غیر مسلم بھی ایسے ہی گھنائونے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ مسلمان، خاص طور پر پاکستانی نوجوان، ہیںجو چھوٹی عمر کی لڑکیوں کاہمدردی کی آڑ میں شکار کرتے ہیں۔ 
اس کے علاوہ برطانوی معاشرے میں دہشت گردی کا خطرہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ شاید ہی کوئی مہینہ گزرتا ہو جب دہشت گردی کی کوئی سازش نہ پکڑی جاتی ہو۔اس وقت یہاںسب سے بڑی تشویش کا باعث وہ لڑکے ہیں جو مذہبی انتہاپسند گروہوں کے ہتھے چڑھ کر شام میں داعش کی صفوں میں شامل ہوکر جہاد کررہے ہیں۔ اگروہ جہاد آزما لڑکے زندہ بچ کر واپس برطانیہ آگئے تو کیا ہوگا؟ یہ سوچ یہاں راتوں کی نیند اُڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ 
مشرق ِوسطیٰ میں ہونے والے واقعات بھی اس طرح کا فوبیا بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جب داعش نے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے دو فلاحی کارکنوں کے سرقلم کرکے ان کی ویڈیوز جاری کیں تو سارے برطانیہ میںشدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ اگرچہ بہت سے مسلمان علما نے ان واقعات کی مذمت کی لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ سینکڑوں مسلمان نوجوان انہی جہادیوں کی صفوں میں شامل ہوکر دیگر معاشروںکے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ اس سے مغربی معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف تعصب پیدا ہونے پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ 
یہ تمام واقعات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف ، غصے، نفرت اور تعصب کے ملے جلے جذبات نے برطانیہ میں مسلمانوں کا ایک منفی تاثر ابھارا ہے۔ فرانس اور ہالینڈ میں معاملات اس سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ وہاں مسلمان کے لباس کے خلاف قانون سازی دیکھنے میں آئی ۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں یہ رجحان بڑھے گا۔ آہستہ آہستہ اسلام مخالف ویڈیوز کو مقامی معاشروں میں حمایت ملنا شروع ہوگئی ہے۔ Bat Ye'Or کا Eurabia کا تصور دائیں بازوکے حلقوں میںمقبول ہوتا جارہا ہے۔ ڈچ سیاست دان گریٹ وائلڈرز کی اسلام مخالف تنقیدسننے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، اگرچہ برطانیہ میں لبرل اوربرداشت کی سوچ رکھنے والی اکثریت نے فرانس کی طرح کے اسلام فوبیا کو پھیلنے سے روک لیا ہے لیکن کب تک؟مسلمان آبادی پر لگا ہوا سوالیہ نشان کب اور کیسے مٹے گا یا یہ مزید گہرا ہوتا جائے گا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved