تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-11-2014

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹا

بیوروکریسی حکومت کے غیر قانونی احکامات
ماننے سے انکار کردے... صدر ممنون 
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''بیوروکریسی حکومت کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کر دے‘‘ اور تبادلوں اور تنزلیوں کے لیے تیار رہے کیونکہ زندگی میں ہر طرح کا مزہ چکھنا چاہیے جبکہ جو لوگ معطلی یا تنزلی کا شکار ہو جاتے ہیں‘ بہت مختصر عرصے میں بحال بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ ہر افسر کا بہرصورت کوئی نہ کوئی پاوا بھی ہوتا ہے، چاہے وہ پٹواری ہی کیوں نہ ہو‘ بلکہ پٹواری ہی سب سے زیادہ پاووں سے مستفید ہو رہے ہیں اور حکومت بھی انہی پاووں یعنی ارکانِ اسمبلی ہی کے سہارے کھڑی ہے جن کی خوشنودیٔ طبع کی خاطر بلدیاتی انتخابات کو بھی کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود حیلوں بہانوں سے کام لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''طے شدہ راستے سے ہٹنے کی وجہ سے ملک میں لاقانونیت اور کرپشن کو فروغ ملا‘‘ اور اب اسی راستے کو طے شدہ کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے اور چاروں طرف ہن برستا نظر آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں 101 نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے۔ 
درس گاہوں میں جمہوریت کے اسباق 
پڑھائے جائیں... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''درس گاہوں میں جمہوریت کے اسباق پڑھائے جائیں‘‘ جبکہ ہم درسگاہوں کے باہر اس کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں کہ کمائی کس طرح سے کی جاتی ہے اور پھر سارا منافع دوسرے ملکوں میں کیونکر بھیجا جاتا ہے اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے جس پر ہم سیاستدان دل و جان سے صدقے واری ہوئے جاتے ہیں‘ اول تو یہ مضمون درسگاہوں میں پڑھانے کی ضرورت ہی نہیں اور اہلِ جمہوریت کو دیکھ دیکھ کر ہی اہلِ ملک اس فن میں طاق ہوتے جائیں گے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''وزراء کے غیر ضروری بیرون ملکی دوروں پر پابندی عائد کردی گئی ہے‘‘ کیونکہ ملک اس لحاظ سے پہلے ہی خودکفیل ہے اور خاکسار کے تابڑ توڑ غیر ملکی دورے اس کا واضح ثبوت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وزراء اپنے وزارتی امور پر توجہ دیں اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں‘‘ اور یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ مصیبت ہمیں عمران خان کے دھرنوں نے ڈالی ہے ورنہ مزے مزے سے سارا کام اپنے آپ ہی ہو رہا تھا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس کی صدارت اور ایک غیر ملکی کمپنی کے چیئرمین سے ملاقات کر رہے تھے۔ 
قوم ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں
کو معاف نہیں کرے گی... شہباز شریف 
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''قوم ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو معاف نہیں کرے گی‘‘ کیونکہ وہ زیادہ سے زیادہ ترقی کے جھوٹے دعوے کرنے والوں ہی کو معاف کر سکتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ ان کے صبر کا زیادہ امتحان نہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنوں سے ملک میں سرمایہ کاری روکنے کی کوشش کی گئی‘‘ کیونکہ دھرنوں اور تقریروں سے گمراہ ہو کر سرمایہ کار ہم سے مطالبہ کرنے لگ گئے تھے کہ ہم اپنا سرمایہ کیوں واپس نہیں لا رہے حالانکہ محض وضعداری کے طور پر ہی ایسا کیا گیا ہے تاکہ وہ ملک ناراض نہ ہو جائیں‘ اور ملک بین الاقوامی برادری میں اکیلا نہ رہ جائے؛ چنانچہ سوئٹزر لینڈ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک ہماری وضعداری کا دم بھرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ایک سازش کے تحت ملکی معیشت کو ناقابلِ معافی نقصان پہنچایا گیا۔ ‘‘حالانکہ سازش کرنے کی بجائے یہ کام ہمارے ساتھ مل کر بھی کیا جا سکتا تھا کیونکہ ویسے بھی یہ اکیلے آدمی کا کام نہیں ہے اور محب وطن افراد کو کھل کر حکومت کا اس معاملے میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔ آپ اگلے روز لندن میں سرمایہ کاروں سے خطاب کر رہے تھے۔ 
چیف الیکشن کمشنر کے معاملے میں حکومت نے سپریم کورٹ میں ساتھ نہیں دیا... خورشید شاہ 
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''چیف الیکشن کمشنر کے معاملے میں حکومت نے سپریم کورٹ میں ساتھ نہیں دیا‘‘ ورنہ حالیہ انتخابات کے لیے مُک مُکا کے پیش نظر یہاں بھی کسی مفید مفاہمت سے کام لیا جا سکتا تھا کیونکہ اگر بدنام ہوئی ہیں تو دونوں پارٹیاں ہوئی ہیں‘ حکومت اکیلی کیوں اس سے اتنا اثر لے رہی ہے؛ چنانچہ بہت جلد مجبوراً ہمیں اپوزیشن کے اپنے اصل رنگ میں آنا پڑے گا کیونکہ دونوں کا بھانڈہ بُری طرح پھوٹ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے کوئی بحران نہیں‘‘ کیونکہ اگر مقررہ مدت تک اس کا فیصلہ نہ ہو سکا تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ عدالت موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو واپس بلا لے گی اور جس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اگر بے شمار دیگر محکمے اور ادارے اپنے سربراہ کے بغیر تسلی بخش طور پر کام کر رہے ہیں تو یہ بھی کر سکتا ہے‘ نیز عدالتوں میں کام کی زیادتی کی وجہ سے بھی عدلیہ کو اپنا جج پہلی فرصت میں واپس بلا لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
گلو بٹ کو سزا 
گلو بٹ کو عدالت نے 11 سال اور تین ماہ کی سزا سنائی ہے‘ ایک لاکھ جرمانے سمیت۔ اپیل میں یہ سزا منسوخ یا کم ہونے کے امکانات کچھ زیادہ نہیں ہیں کیونکہ جرم کے ساتھ اگر دیدہ دلیری بھی شامل ہو جائے تو یہ اُسے دوآتشہ کر دیتی ہے‘ نیز اس کے اس وحشیانہ عمل سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی بھی ہوئی؛ تاہم یہ چونکہ پولیس کا بے حد لاڈلا ٹائوٹ ہے، اس لیے پولیس اور متعلقہ اداروں کی طرف سے اس سزا کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے کیونکہ جیل حکام اور پولیس سگی بہنیں ہی شمار کی جاتی ہیں؛ چنانچہ جیل میں اسے موبائل فون اور گھر سے کھانے کے علاوہ بھی بہت سی سہولیات فراہم کیے جانے کا بندوبست کیا جانا کچھ زیادہ مشکل نظر نہیں آتا۔ ماضی میں بھی مختلف سیاسی رہنمائوں کو جیل یا حوالات میں اس قدر سہولیات بہم پہنچائی گئیں کہ انہیں گھر کا آرام بھول گیا۔ پھر‘ لطف یہ ہے کہ دورانِ واردات جو پولیس افسران اس کے ساتھ مصافحہ کرنے اور اسے گلے لگانے کے علاوہ اسے کولڈڈرنکس وغیرہ بھی بہم پہنچاتے رہے‘ وہ بدستور اپنی کرسیوں پر براجمان ہیں اور ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کے منہ میں کتنے دانت ہیں؟ 
آج کا مقطع
دور تک سایۂ شہرت ہے‘ ظفرؔ
کاٹ کر یہ بھی شجر دیکھنا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved