تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-11-2014

ایک بار پھر حکیم دی ڈریم کے شہر میں

ہیوسٹن میرے دوستوں کا شہر ہے۔ ڈاکٹر آصف ریاض قدیر، عنایت اشرف عرف عیش بھائی، سرور جاوید ، طاہر جاوید ، خالد خواجہ اور اب غضنفر ہاشمی۔ امریکہ جانا اور ہیوسٹن نہ جانا ممکن ہی نہیں۔ یہ میرے دوستوں کا شہر ہے مگر میں اسے ''حکیم دی ڈریم ‘‘ کے شہر کے حوالے سے جانتا اور پہچانتا ہوں۔ بلکہ میں ہی کیا ؟ اسے امریکی بھی حکیم دی ڈریم کے شہر کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ اس کا اصل نام حکیم حبدل اولاجوان ہے مگر امریکیوں نے اسے حکیم دی ڈریم جیسا افسانوی نام دیا ہے۔ وہ ہے بھی ایسا ہی، ایک افسانوی کردار جیسا۔ حکیم اکیس جنوری1963ء کو نائیجریا میں پیدا ہوا۔ امریکہ میں این بی اے (امریکن باسکٹ ایسوسی ایشن) میں 1984ء سے 2002ء تک کھیلنے کے بعد ریٹائر ہوگیا۔ اس نے ان اٹھارہ برسوں میں جو ریکارڈ بنائے اور اعزازات حاصل کیے ایک کالم اس کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔
باسکٹ بال امریکہ کی دو تین مقبول ترین کھیلوں میں سے ایک اور این بی اے باسکٹ بال کی وہ اعلیٰ ترین سطح ہے جس پر ہر پروفیشنل کھلاڑی کھیلنے کی تمنا رکھتا ہے اور خواب دیکھتا ہے ۔ حکیم ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کی ٹیم '' ہیوسٹن راکٹس ‘‘ کی طرف سے کھیلتا رہا ہے۔ اس کی قیادت میں ہیوسٹن راکٹس نے دو مرتبہ این بی اے چیمپئن شپ کا اعزاز جیتا۔ خود حکیم نے دو مرتبہ ''این بی اے فائنلز موسٹ ویلیو ایبل پلیئر ‘‘ ہونے کا ،ہیوسٹن راکٹس نے چھ مرتبہ فرسٹ ٹیم ہونے کا ، تین مرتبہ سیکنڈ ٹیم اور تین مرتبہ تھرڈ ٹیم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ حکیم 1996ء میں اٹلانٹا اولمپکس جیتنے والی امریکی ٹیم کا حصہ تھا۔ وہ این بی اے کی تاریخ کا واحد کھلاڑی ہے جس نے صرف ایک سیزن (1993-94ء) میں '' موسٹ ویلیو ایبل پلیئر‘‘ سال کا بہترین '' دفاعی کھلاڑی‘‘ اور فائنل ایم وی پی کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ این بی اے کی تاریخ کے ان چار کھلاڑیوں میں سے ایک 
ہے جنہوں نے پانچ مرتبہ ڈبل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ این بی اے کی تاریخ میں ان پانچ میں سے ایک کھلاڑی ہے جنہوں نے ''ری بائونڈنگ اینڈ بلاکڈ شاٹس‘‘ دونوں لیگ میں سرفہرست رہنے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ حکیم این بی اے کی تاریخ کا واحد کھلاڑی ہے جو باسکٹ بال کی چاروں کیٹیگریز میں پہلے دس کھلاڑیوں میں شامل ہے۔ وہ این بی اے میں لگاتار گیارہ سال (1985-96ء) آل ٹائم لیڈر رہا۔ وہ آج تک باسکٹ بال کھیلنے والے پچاس بہترین کھلاڑیوں میں تیرہویں نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس اتنے اعزازات ہیں ، باسکٹ بال کی ان مختلف کیٹیگریز سے متعلق جن کے متعلق عام آدمی اور میں خود بھی نہیں جانتا۔
حکیم جیسے کھلاڑی معدودے چند ہوں گے مگر سات فٹ طویل حکیم کو امریکیوں نے حکیم دی ڈریم کا نام محض اس کے کھیل کی وجہ سے ہی نہیں دیا، اس کی وجہ عزت اس کا وہ رویہ اور طرز عمل تھا جو وہ دوران کھیل میدان میں اور کھیل کے بعد اپنی عام زندگی میں روا رکھتا تھا۔ امریکی بطور انسان اس کے شاندار کردار کی وجہ سے اسے حکیم دی ڈریم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جب اس نے باسکٹ بال شروع کی تو وہ زیادہ باعمل مسلمان نہیں تھا مگر جوں جوں اسے عزت ، دولت اور شہرت ملتی گئی وہ اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہوتا گیا۔ وہ کہتا ہے میں ہر روز قرآن پڑھتا ہوں۔ گھر میں ، مسجد میں ، میں اسے جہاز میں پڑھتا ہوں ، کھیل شروع ہونے سے قبل اور کھیل کے بعد بھی۔ میں ہر بار نئے مفہوم اور مطلب سے آشنا ہوتا ہوں۔ میں ہر صفحہ پلٹنے کے ساتھ ایمان کی مضبوطی حاصل کرتا ہوں۔ وہ آج بھی بطور سینئر باسکٹ بال کا سب سے بہترین کھلاڑی تصور ہوتا ہے۔ جس سال ہیوسٹن راکٹس نے اس کی سربراہی میں دوسری مرتبہ این بی اے چیمپئن شپ جیتی ،اس سال (1995ء) میں رمضان کا مہینہ یکم فروری کوشروع ہوا۔ یہ ساری چیمپئن شپ دوران رمضان کھیلی گئی۔ حکیم نے اس دوران تمام میچ روزے سے کھیلے اور اس کی کارکردگی میں کبھی کسی کو کمی نظر نہ آئی۔
حکیم نے اپنے اٹھارہ سالہ پیشہ ورانہ کیریئر میں دس کروڑ ڈالر کمائے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ باسکٹ بال میں بہت زیادہ پیسہ 2000ء کے بعد آیا۔ اس سے قبل بڑے سے بڑا کھلاڑی بھی سال میں تیس پینتیس لاکھ ڈالر سے زیادہ نہیں کماتا تھا۔ حکیم اولاجوان کی زیر قیادت ہیوسٹن راکٹس نے اپنے شہر میں پہلی بار کسی کھیل کی قومی چیمپئن شپ جیتی تو ہیوسٹن راکٹس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہیوسٹن کے شہریوں نے ایک تاریخی پریڈ کا اہتمام کیا۔ یہ پریڈ جمعہ کے دن تھی۔ دوپہر کو جب پریڈ اپنے پورے عروج پر تھی اسے روک دیاگیا۔ سب حیران تھے کہ کیا معاملہ ہے۔ تب ہیوسٹن کے میئر نے اعلان کیا کہ حکیم نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد جاچکا ہے ،اس کی واپسی تک پریڈ معطل رہے گی۔ حکیم کی واپسی کے بعد پریڈ وہیں سے شروع ہوئی جہاں روکی گئی تھی۔
ہیوسٹن شہر کے قلب میں ٹیکساس کے سابق گورنر اور ہیوسٹن نیشنل بینک کے صدر راس سٹرلنگ کی بنائی ہوئی عالی شان عمارت خرید کر اسے مسجد اور اسلامی سنٹر میں بدل دیا۔ آٹھ سال میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ چالیس ہزار مربع فٹ پر مشتمل اسلامی دعوت سنٹر اور مسجد ابوبکر صدیق میں پہلی نماز 29نومبر 2008ء کو رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ادا کی گئی۔ حکیم نے ریٹائرمنٹ کے بعد جائیداد کی خرید و فروخت کا کام شروع کیا اور کسی بینک سے سودی معاملات کے بغیر اس کاروبار میں اس نے مزید دس کروڑ ڈالر سے زائد کمائے۔ ایک امریکی ویب سائٹ ''Militant Islam Monitor‘‘ کے مطابق حکیم اس سنٹر اور مسجد کا تین چوتھائی خرچہ برداشت کرتا ہے اور یہ سنٹر حماس اور '' اسلامک افریقن ریلیف ایجنسی ‘‘ جیسی '' دہشت گرد‘‘ تنظیموں کو فنڈنگ کرتا ہے اور صرف سال 2000ء میں اس نے IARAکو اکسٹھ ہزار ڈالر سے زیادہ عطیہ دیا۔ ویب سائٹ کے مطابق وہ ایک ایسا بنیاد پرست ہے جس نے ہیوسٹن راکٹس کے میدان کے باہر اپنی خدمات کے اعتراف کے طور پر یادگاری مجسمہ نصب کرنے کی تجویز محض اس لیے رد کردی کہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اپنے دیگر ہم عصر امریکی کھلاڑیوں کے برعکس حکیم نے نائیکی، ایڈیڈاس اور ریبوک جیسے معروف اور مقبول جوتوں کے برانڈز کی تشہیری فلموں میں کام کرنے سے انکار کردیا۔ اس کا موقف تھا کہ ان مہنگے جوتوں کے اشتہارات غریب بچوں کو یا تو احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہیں یا پھر دکانوں اور میدانوں سے جوتے چوری کرنے پر اکساتے ہیں۔ اس نے ڈیڑھ سو ڈالر کے جوتوں کے اشتہار کے بجائے محض پینتیس ڈالر مالیت کے جوتوں کے اشتہار میں کام کیا۔ یہ صرف ایک مثال ہے جو اسے کھیل کے میدان سے باہر ایک غیر معمولی اور بڑا انسان ثابت کرتی ہے اور اس کی شخصیت کا یہی پہلو اسے '' حکیم دی ڈریم ‘‘ بناتا ہے۔
میں چار سال قبل ڈاکٹر آصف کے ہمراہ حکیم کی تعمیر کردہ مسجد میں گیا تو بیسمنٹ میں جامعہ ازہر سے آیا ہوا ایک استاد اسلامی شریعہ پر لیکچر دے رہا تھا جس کا انگریزی ترجمہ ہیڈ فونز کے ذریعے سنا جارہا تھا۔ نماز کا وقت نہیں تھا میں نے دو نفل ادا کیے اور باہر آگیا۔ ڈاکٹر آصف ریاض قدیر نے چوکیدار سے پوچھا کہ حکیم یہاں کب آتا ہے ؟ اس نے بتایا کہ اگر وہ ہیوسٹن میں ہو تو جمعہ اسی مسجد میں ادا کرتا ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں،میں نے کئی بار کوشش کی کہ کبھی جمعہ ہیوسٹن کی اس مسجد میں ادا کروں مگر ابھی تک یہ خواہش ،خواہش ہی ہے۔
حکیم کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی چونتیس نمبر کی شرٹ کو ہیوسٹن راکٹس کی ٹیم سے ہمیشہ کے لیے ریٹائر کردیا گیا۔ آئندہ ہیوسٹن راکٹس کا کوئی بھی کھلاڑی چونتیس نمبر کی بنیان نہیں پہن سکے گا۔ حکیم کے مجسمہ بنوانے سے انکار کے بعد ہیوسٹن راکٹس ایرینا کے باہر ایک چبوترے پر چونتیس نمبر کی بنیان نصب کی گئی ہے جو ہیوسٹن کی آئندہ نسلوں کو حکیم اولاجوان کی یاد دلاتی رہے گی۔ ہم انور مسعود کے ہمراہ جب اس بنیان کے پاس پہنچے تو وقاص جعفری کہنے لگا یہ انور مسعود صاحب والی بنیان ہے اور اب یہ بنیان دیکھ کر انور مسعود صاحب والی بنیان کا عقدہ بھی حل ہوگیا ہے۔
امریکی معاشرے میں ہیرو بننے کے لیے صرف کھلاڑی ہونا ہی کافی نہیں۔ وہاں چوری چھپے شادیاں کرنے والے ، شادی کے بعد دوسری خواتین سے تعلقات رکھنے والے ، ممنوعہ ادویات استعمال کرنے والے ، کلبوں میں غیر اخلاقی حرکات کرنے والے ، منشیات استعمال کرنے والے اور کھیل کے میدانوں میں نامناسب رویہ رکھنے والے کھلاڑی صرف اور صرف کھلاڑی رہتے ہیں کبھی ہیرو نہیں بنتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved