تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     04-11-2014

عصبیتِ جاہلیہ کا مُہلک مرض

عربی زبان میں ''عصب‘‘ کے معنی ہیں :''مضبوطی سے باندھنا‘‘، ''عُصبَہ اور عِصابہ‘‘ ایک مضبوط جماعت کو کہتے ہیں ، جیسا کہ برادرانِ یوسف نے کہا تھا:''یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کے نزدیک ہم سے زیادہ محبوب ہیں ، حالانکہ ہم پوری جماعت (عُصبَہ)ہیں،(یوسف:08)‘‘۔ علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:''عصبیت یہ ہے کہ ایک شخص کو اپنی قوم (یا گروہ) کی مدد کے لئے بلایا جائے تاکہ وہ ان کے ساتھ مل کر ان کے مخالفین کے مقابل صف آراہو، اس بات سے قطعِ نظر کہ مخالفین ظالم ہیں یا مظلوم؟،(لسان العرب، جلد: 10، ص: 167)‘‘۔یعنی حق اور ناحق سے آنکھیں بند کرکے اپنی قوم یا گروہ کی حمایت کے لئے بلایا جائے۔ باپ کی طرف سے اَقارب کو بھی ''عَصَبَہ‘‘ کہتے ہیں ، کیونکہ وہ مشکل میں مدد گار بنتے ہیں۔ 
رسول اللہ ﷺ کی درج ذیل احادیثِ مبارَکہ میں عصبیت کی حقیقت کو بالکل واضح کردیا گیا ہے:(1) ''جو گمراہی کے جھنڈے تلے لڑا کہ عصبیت کی طرف بلا رہا ہے یا عصبیت کی بنیاد پر غضبناک ہورہا ہے ، تو یہ جاہلیت کا لڑنا ہے،(سنن ابن ماجہ:3948)‘‘۔ (2)رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا:''یارسول اللہ! ایک شخص اپنی قوم سے محبت کرتاہے کیا یہ عصبیت ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں،بلکہ عصبیت یہ ہے کہ ایک شخص ظلم میں اپنی قوم کی مدد کرے،(سنن ابن ماجہ :3949)‘‘۔(3)واثلہ بن اسقع نے دریافت کیا:''یا رسول اللہ! عصبیت کیا ہے؟، فرمایا:عصبیت یہ ہے کہ تو ظلم میں اپنی قوم کا مدد گار بن جائے،(سنن ابوداؤد: 5048)‘‘۔(4)رسول اللہﷺ نے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا : ''تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے قبیلے کا دفاع کرے، بشرطیکہ یہ حمایت گناہ کا سبب نہ ہو،(سنن ابوداؤد:5079)‘‘۔(5)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جو شخص ناحق بات میں اپنی قوم کی مدد کرے تو اس کی مثال اُس اونٹ کی سی ہے ، جو گہرے گڑھے میں گِر چکا ہے اور اسے اُس کی دم پکڑ کا نکالا جارہاہے،(سنن ابوداؤد:5076)‘‘۔(6)رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جس نے عصبیتِ (جاہلیہ) کی طرف بلایا ، وہ ہم میں سے نہیںاور جو شخص عصبیتِ(جاہلیہ) کی خاطر لڑا وہ ہم میں سے نہیں اور جو شخص عصبیتِ (جاہلیہ) پر مرا ، وہ ہم میں سے نہیں،(سنن ابوداؤد:5080)‘‘۔
ان احادیثِ مبارَکہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ناحق اور ظلم پر اپنی قوم ، قبیلے یاگروہ کی حمایت عصبیتِ جاہلیہ ہے اور یہی وہ خصلت ہے جو انسان کو ظلم پر آمادہ کرتی ہے اور اللہ عزّوجلّ نے اپنی قوم یا گروہ کی اس حدتک بے جا حمایت سے منع فرمایا کہ جس کے نتیجے میں ظلم کو روا سمجھا جائے، قرآن مجید میں فرمایا:''اور کسی کی عداوت تمہیں ترکِ انصاف پر نہ ابھارے، (المائدہ:08)‘‘۔اور فرمایا:''اور کسی کے ساتھ عداوت تمہیں اس پر نہ اکسائے کہ (اپنے غلبے کے زمانے میں)اُنہوں نے تمہیں مسجد حرام میں آنے سے روک دیا تھا کہ (اب ان پر غلبہ پانے کے بعد) تم بھی ان کے ساتھ زیادتی کرو، تم نیکی اور تقوے پر ایک دوسرے کی مدد کرواور گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے،(المائدہ:02)‘‘۔ان آیات واحادیث مبارَکہ میں جہاں ظلم پر اپنی قوم، قبیلے یا گروہ کی حمایت کو ''عصبیتِ جاہلیہ‘‘ سے تعبیر کیا گیاہے اور اس کی مذمّت فرمائی گئی ہے۔ وہاں خیر اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد اور ظلم وعدوان کے خلاف صف آرا ہونے کی ترغیب بھی دی گئی ہے اور اس کی تحسین بھی فرمائی گئی ہے۔اسی طرح تعصُّب بلاشبہ قابلِ مذمت ہے، لیکن دین پر تصلُّب یعنی مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا ایک قابلِ تحسین وصف ہے اور دونوں میں فرق کو ہر صورت ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ یعنی ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنا درست نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے تعصب کی مذمت کو انتہاپر پہنچاتے ہوئے، قرآن مجید میں جس شجر کے قریب جانے سے حضرت آدم وحوّا علیہما السلام کو منع کیا تھا ، اسے بھی فرقہ واریت سے استعارہ قرار دے دیا، اگر چہ یہ معنی اجماعِ مفسرین کے خلاف ہے، وہ لکھتے ہیں ؎
شجر ہے فرقہ واریت، تعصّب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتاہے آدم کو
ہمارے ملک میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتاہے، تو اس کا رُخ فرقہ واریت کی طرف موڑ دیا جاتاہے اور الیکٹرانک میڈیا میں اس پر مکالمہ شروع کردیا جاتاہے ، میں ان مکالموں میں شریک ہوتارہا ہوں اور دو ٹوک شرعی موقف ہر بار بیان کیا، مگر اس کے باوجود ہر بار علماء سے رجوع کرنے کا ایک معنی یہ بھی نکلتاہے کہ فرقہ واریت کے فروغ میںشاید علماء کا حصہ ہے۔ اسی لئے میں اب اس طرح کے مکالموں اور تبصروں سے اجتناب کرتاہوں ۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ سب کا دامن پاک ہے تو پھر ذمے دارکون ہے؟۔مزید یہ کہ عصبیت کی مذمّت کا دائرہ مذہب تک محدود نہیں رکھنا چاہئے، کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی عصبیت بھی اسی درجے میں ہے؟۔ ہر جماعت ( خواہ وہ اقتدار میں ہو یا حزب اختلاف میں) کے منتخب ممبران ، اراکین عہدیداران اور ارکان کی حیثیت سیاسی مزارعین کی سی ہے ، وہ آنکھیں بند کرکے اور حق اور ناحق سے بے نیاز ہوکر اپنی قیادت کی حمایت پر کمربستہ ہوجاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حق اور ناحق اور عدل وظلم کے معیارات اور پیمانے جدا جدا ہیں، ایسے میں حق اور عدل کی حیثیت ثانوی ہوجاتی ہے ۔ سب اپنے اپنے شعبوں میں اپنی اپنی عصبیتوں ، پسند وناپسند اور ترجیحات کا شکار ہیں،فرق صرف یہ ہے کہ دوسروں کو ہدف بناناآسان ہوتاہے اور اپنے گریبان میں جھانکنا مشکل بلکہ بہت مشکل ہوتاہے۔ 
پس حق یہ ہے کہ ہر مکتبۂ فکریا گروہ کے لئے اپنے انتہاپسندوں کی تعیین کے ساتھ مذمّت انتہائی دشوار ہے، اس لئے ہمارے خطابات اور تقریریں بھی تاثیر سے عاری ہوتی ہیں اور ہماری مذمتیں بھی ہوا میںایسے تیر چلانے کے مترادف ہوتی ہیں ، جن کا ہدف متعین نہیں ہوتااور سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مِصداق سب اپنی ذمے داری سے عہدہ برا ہوجاتے ہیں ۔ اسلام آباد میں ایک این جی او نے آئینی و قانونی حکومت کے خلاف خروج یا بغاوت کے موضوع پر کئی سیمینار منعقد کئے، تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور دیگر اہلِ علم اور دانشوروں کو بلایا ، پھر سب کی منتخب نگارشات ِ قلم کو ایک کتابی شکل میں مُدوَّن کیا۔ میں نے اُن سے گزارش کی کہ یہ مجرد اور غیراِطلاقی حکم اور موقِف تو آپ نے نقل کردئیے اور بلاشبہ آپ کی یہ علمی اور فکری مساعی قابلِ تحسین ہیں۔ اب ذرا ایک نشست میں ان سب کو بلا کر ہماری یہ بھی رہنمائی فرمادیں کہ ہمارے ملک کے تناظر میں جو صورتِ حال درپیش ہے، حکومت سے متصادم یا برسرپیکار یا خروج وبغاوت پر آمادہ عناصر کاحکم کیا ہے ؟۔ صرف اسی صورت میں اس ساری علمی اور فکری کاوش کا کوئی عملی نتیجہ برآمد ہوسکتاہے، ورنہ جو کچھ اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے ، وہ ہمارے دینی اور علمی ذخیرے میں نہایت بسط وتفصیل کے ساتھ پہلے سے موجود ہے، سو خطاب وبیان اورمجرد ومطلق تحریر تو آسان ہے ، لیکن اپنے حالات پر انطباق (Application)کارِدارد ہے، یعنی ازحد دشوار ہے۔
آج بھی اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ بعض دینی ، ملّی اور ملکی امور کے بارے میں قوم یکسو ہو، ہمارے لئے مشکل یہ ہے کہ مذہبی خلافیات کو تو سب ہی کوستے رہتے ہیں اور ہدفِ ملامت بناتے ہیں ، لیکن یہی صورتِ حال ہمارے ملّی ، ملکی اور قومی مسائل کی ہے ۔ ہمارا کوئی متفقہ ترجیحی مرتب شدہ قومی ایجنڈا نہیں ہے۔ اتوار کو لاہور کے قریب واہگہ بارڈر پر المناک سانحہ رونما ہوا ، یہ امر مسلّم ہے کہ اس طرح کے سانحات کا سوفیصد سدِّباب مشکل ہے ، لیکن اس سانحے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب پوری سیاسی ودینی قیادت اور قوم کو ذہنی طور اس کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ قبائلی علاقہ جات میں برپاکئے جانے والے آپریشن ''ضربِ عَضب‘‘ کے ردِّعمل میں جوابی یا انتقامی کارروائیاں ہوسکتی ہیں ، اس لئے داخلی اختلافات کو سرِ دست کم سے کم کرکے یا پسِ پشت ڈال کر اس ممکنہ صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری قوم کو متحد اور منظم کرنا نہایت ضروری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved