واہگہ پر ہونے والے بم دھماکے کے بارے میں بھارتی پہلے سے ہوشیار ہو گئے تھے۔ ان کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ نے 15 اکتوبر کو وارننگ جاری کر دی تھی کہ واہگہ پوسٹ پر کسی بھی وقت بم دھماکہ ہو سکتا ہے۔یہ انتباہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس نے نشاندہی کی تھی کہ دوسری طرف پاکستانی فورسز‘ نئے بریکر بنا رہی ہیں‘ جو سرحد کی جانب آنے والے وہیکلزکے لئے رکاوٹ کا کام دیں۔ اس خبر کا ''را‘‘ نے تجزیہ کیا کہ امکانی طور پر یہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کا انتظام ایسی گاڑیوں کو روکنے کے لئے کیا جا رہا ہے‘ جو بارودی مواد لے کر زیروپوائنٹ کی جانب بڑھ رہی ہوں۔ یہ واضح نہیں کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے یہ اطلاع شیئر کی یا نہیں؟ دہشت گردی پر نظر رکھنے والے عالمی تجزیاتی اداروں کا کہنا ہے کہ واہگہ میں پاکستان اور بھارت کی سرحد پر جہادیوں کا نیا حملہ ‘خصوصی مطالعے کا موضوع ہے۔ ان کے اندازے کے مطابق یہ نیا دھماکہ فی الحال دونوں ملکوں کے لئے کسی خطرے کا باعث نہیں۔ یہ دھماکہ پاک ایران سرحد پر ہونے والے حملوںکے بعد ہوا‘ جو بلوچستان کی دہشت گرد تنظیم کے تعاقب میں ‘آنے والے ایرانی سرحدی محافظوں نے کئے۔ پاکستان کو مغربی سرحدوں پر حملے کرنے والے‘ جہادیوں کے خلاف پہلے ہی کارروائیاں کرنا پڑتی ہیں‘ جن میں افغانستان کی سرحدوں پر ہونے والے واقعات کی طرف پاکستان خصوصی توجہ دینے پر مجبورہے۔ اب اسلام آباد کو جہادیوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کا دائرہ ملک کے مرکزی حصوں تک پھیلانا پڑے گا۔ خصوصاً ان علاقوں‘ پنجاب اور سندھ میں‘ جو بھارتی سرحدوں سے ملے ہوئے ہیں۔اب پاک ایران سرحدوں پر بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔ ایران کی طرف سے کسی زمانے میں جو کامل اطمینان ہوا کرتا تھا‘ وہ اب باقی نہیں رہ گیا۔ آئندہ امن کے باوجود بھی تشویش اور احتیاط کو سامنے رکھنا پڑے گا۔
واہگہ دھماکے کی ذمہ داری تین دہشت گرد گروپوں نے قبول کی۔ ان میں سرفہرست جماعت احرار ہے جبکہ دوسری دعویدار تنظیمیں القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان ہیں۔ احرار اور ٹی ٹی پی‘ دونوں کا تعلق بھی القاعدہ کے ساتھ ہے۔ واہگہ کا واقعہ جس ماحول میں ہوا‘ وہ 2008ء کے آخری حصے سے مختلف ہے‘ جب پاکستان اور بھارت دونوں ممبئی کے واقعات کے نتیجے میں جنگ کے قریب آ گئے تھے۔ اپریل 2009ء سے پاکستان‘ خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائیاںکر رہاہے۔ خصوصاً ان علاقوں میں جو افغانستان سے ملحق ہیں۔ کچھ دنوں پہلے پاکستان نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے آخری مرکز کے خلاف بری اور فضائی فوجوں سے آپریشن شروع کیا۔اس وقت امریکہ کی ایک انٹیلی جنس ایجنسی نے لکھا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی باہمی محاذآرائی‘ حصول مقصد کی خاطر جہادیوں کے لئے بہت سازگار ہے۔جہادیوں کے خلاف پاک فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اپنی سرزمین پر حملے‘ جہادیوں اور خصوصاً ان کے بین الریاستی اتحادیوں کے لئے‘ تکلیف دہ ہیں۔وہ کافی عرصہ پہلے سے منصوبے بنا رہے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان محاذ آرائی میں شدت پیدا کی جائے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی ریاست کمزور پڑے گی اور وہ یہاں جنوبی ایشیا میں اپنی پہلی امارت یا خلافت قائم کریں گے۔ القاعدہ کے اتحادی دہشت گردوں کے خلاف ‘پاکستانی کارروائیوں اور ڈرون حملوں نے انہیں بہت نقصان پہنچایا۔ 4ستمبر کو ایمن الظواہری نے جنوبی ایشیا میں القاعدہ کی شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بھارت اسی وقت ہو شیار ہو گیا تھا اور اس کی تیاریاں دیکھ کر‘ القاعدہ کے ترجمان نے وضاحت کی تھی کہ القاعدہ‘ برصغیر میں اپنی کارروائیوں کے لئے‘ پاکستان کو ترجیح دے گی۔ انہی دنوں القاعدہ کے مرکزی لیڈر‘ امریکی نژاد ترجمان آدم گادھانے 21اکتوبر کو ایک ویڈیو ریلیز کی تھی‘ جس میں پاکستانیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے کئی گنا زیادہ کوشش کریں۔ ایمن الظواہری نے اپنی تنظیم کے لیڈروں سے کہا تھا کہ وہ برصغیرپاک و ہند میں مختلف جہادی تنظیموں کو 2سال کے اندر اندر متحد اور منظم کر لیں۔ القاعدہ کو اپنی حریف جہادی تنظیموں کے ساتھ مقابلے میں ہزیمت اٹھانا پڑ رہی تھی۔ خصوصاً عراق اور شام کے علاقوں پر مشتمل‘ داعش کی اسلامی ریاست میں۔ دوسری طرف پاکستان میں اس کا سب سے بڑا اتحادی گروپ‘ تحریک طالبان پاکستان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا تھا‘ اس کی کچھ وجوہ داخلی لڑائیاں تھیںاور سب سے بڑی وجہ شمالی وزیرستان پر پاکستان کا فوجی حملہ تھا۔ جس میں القاعدہ کو اپنے کئی بڑے لیڈروں سے محروم ہونا پڑا۔ جواب میں القاعدہ نے برصغیر میں‘ اپنی تنظیم کو زیادہ مضبوط اور متحرک بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ القاعدہ کا نیا گروہ‘ حسب توقع کارکردگی نہیں دکھا سکا تھا۔ ستمبر میں کراچی ڈاکیارڈ پر گروپ نے‘ پاکستان کے دو جنگی جہازوں پر قبضہ کرنے کے لئے جو آپریشن کیا تھا‘ وہ بری طرح سے ناکام ہوا۔ القاعدہ کا منصوبہ تھا کہ ان جنگی جہازوں سے وہ امریکہ اور بھارت کے نیول ٹارگٹس پر حملے کریں گے۔ یہ منصوبہ بری طرح فیل ہوا۔ برصغیرپاک و ہند میں‘ القاعدہ کی تنظیم نو کی وجہ سے پاکستانی جہادیوں کی باہمی رقابتیں ختم نہ ہو سکیں اور نہ القاعدہ کا گروہ‘ پاکستانی جہادیوں کے ان نقصانات کی تلافی کر سکا‘ جو آپریشن ضرب عضب میں پاک فوج نے انہیں پہنچایا تھا۔ ٹی ٹی پی نے کوشش کی تھی کہ بلوچستان کے دو مختلف ہوائی اڈوں پر حملے کئے جائیں‘ لیکن یہ بری طرح سے ناکام ہوئے۔ پاکستانی طالبان نے اپنا آخری حملہ‘ جون میں کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کیا تھا۔ اس وقت شمالی وزیرستان پر حملہ شروع ہو چکا تھا۔ واہگہ سرحد پر کیا گیا حملہ‘ ضرب عضب شروع ہونے کے بعد پہلی بڑی کارروائی تھی۔ جہادیوں نے اپنی کمزوری چھپانے کے لئے‘ اس دھماکے کا علیحدہ علیحدہ کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ واہگہ کا حملہ‘ جیش العدل کے خلاف کئے گئے ایرانیوں کے حملے کے 2ہفتے بعد کیا گیا۔ جیش العدل ‘ بلوچستان میں سنی بلوچوں کا دہشت گرد گروپ ہے‘ جو ایران کے سکیورٹی گارڈز پر حملے کرتا ہے۔ ایران میں دہشت گردی کرنے والے گروپوں کی طرح‘ افغان طالبان ‘ مزید شمال میں‘ پاکستان کی مغربی سرحدوں کے اندر آ کر پناہ لیتے ہیں‘ جس کی وجہ سے پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان کافی دنوں سے کشیدگی کی صورتحال ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستانیوں نے اپنے ملک کے طالبان کے خلاف موثر کارروائیاں کی ہیں‘ جن کے نتیجے میں پاکستانی طالبان سرحد کے دوسری طرف‘ افغانستان کے اندر پناہ لینے لگے ہیں‘ جہاں سے وہ سرحد پار حملے کر رہے ہیں۔ مجموعی طور سے پاکستان کی تمام سرحدوں کا جائزہ لیا جائے‘ تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب ہماری کوئی بھی سرحد‘ دہشت گردوںسے محفوظ نہیں۔ جیسے میں نے کل کے کالم میں عرض کیا تھا کہ واہگہ پر دھماکہ کر کے‘ دہشت گردوں نے پاکستان اور بھارت دونوں کے دروازے پر دستک دے دی۔ سٹریٹجک اعتبار سے آج پاکستان کی تمام سرحدیں گرم ہو چکی ہیں۔ صرف پاک چین سرحد محفوظ ہے‘ جو انتہائی بلند پہاڑی مقامات پر واقع ہے۔ پاک چین سرحدیں بے شک محفوظ ہیں‘ لیکن بیجنگ مخالف یغور جہادی‘ ہمارے ملک میں بھی پناہ گزیں رہے ہیں۔ ہمارے درمیان یغوروں کا مسئلہ اب سلجھنے لگا ہے۔
مختلف سرحدوں پر ‘ جہادی گروپوں کی کارروائیاں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں۔ ایران پر حملہ کرنے والوں کی اپنی منطق اور ٹائمنگ ہے اور اس کا تعلق ایران کی داخلی صورتحال کے ساتھ ہے۔ دوسری طرف پاکستانی جہادیوں کے خلاف ‘ ہماری فوج کے حملوں کی وجہ سے‘ وہ بے گھر ہو کر پورے ملک میں بکھر گئے ہیں۔ پاکستان کو ابھی بہت طویل جنگ لڑنا ہو گی۔ پاک فوج کی کور نمبر12 کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل خالد ربانی نے‘ شمالی وزیرستان آپریشن پر‘ ایک بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہمیں ایجنسیوں کی اطلاعات پر مبنی آپریشن پورے ملک میں کرنا پڑیں گے۔ خصوصاً جنوبی پنجاب اور سندھ میں۔‘‘ یاد رہے‘ ان دونوں صوبوں کی سرحدیں‘ بھارت سے ملتی ہیں۔ اگر ہم نے کچھ سیکھا ہو‘ تو تجربے کی رہنمائی یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ جنگ‘ سرحدوں کے اندر نہیں رہتی۔ہم نے اسے افغانستان کے اندر شروع کیا تھا‘ آج یہ پورے پاکستان میں پھیل چکی ہے۔ ایران کے اندر‘ پاکستانی دہشت گردوں کی کارروائیاں‘ کسی بھی وقت دونوں ملکوں کو آمنے سامنے لا سکتی ہیں اور بھارت جو کہ ہمارا خطرناک دشمن ہے‘ اس کی سرحدوں کے نزدیک‘ دہشت گردوں کے ساتھ ہونے والی لڑائیاں ‘کئی مسائل پیدا کریں گی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ القاعدہ پورے برصغیر پر قبضہ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ وہ اپنی پہلی خلافت‘ پاکستان کے اندر قائم کرنے کی کوشش کرے گی‘ جہاں سے بھارت کے خلاف دہشت گرد ‘حملے کر کے‘ اپنے مقبوضہ علاقے میں اضافے کیا جائے۔ کچھ عرصہ پہلے اگر داعش ‘کا تصور پیش کیا جاتا‘ تو اسے دیوانے کا خواب کہہ کر لوگ مذاق اڑاتے۔ مگر آج وہ ایک خوفناک حقیقت ہے۔ معلوم نہیں‘ پاکستان میں کہاں پر دہشت گرد اپنی دولت یا خلافت قائم کریں؟ یاد رکھیے! القاعدہ اور داعش دونوں کی بنیاد رکھنے والا امریکہ ہے۔ داعش‘ آج اس کے اتحادی ترکی کے لئے بھی خطرہ بن رہی ہے۔ ہم بھی امریکہ کے اتحادی تھے۔ القاعدہ ہم پر حملہ آور ہے اور ایک بات آپ کو بتاتا چلوں کہ بھارت امریکہ تعلقات کا ہنی مون اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ اس کی تفصیل اور کسی دن لکھوں گا۔فی الحال آپ ان خطروں کے اندر جھانکیے‘ جن سے برصغیر دوچار ہونے جا رہا ہے۔جغرافیہ ان دونوں ملکوں کو تصادم کی بجائے‘ تعاون پر مجبور کرتا ہے۔ اگر ہم نے تصادم جاری رکھا‘ تو آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔
نوٹ:- اس کالم کے لئے امریکہ کی پرائیویٹ انٹیلی جنس ایجنسی کی تازہ رپورٹ سے مدد لی گئی۔