موسموں سے کون جنگ آزما ہو سکتا ہے؟ تقدیر سے کون لڑ سکتا ہے؟ نپولین کو روس کے برف زاروں نے ادھ موا کر دیا تھا۔ تحریکِ انصاف کے جوانمردوں کا قافلہ کیا مارگلہ کی برفانی ہوائوں کی تاب لا سکے گا؟ شاید شاید! کون کہہ سکتا ہے کہ آنے والا کل‘ کس کے لیے کیا لائے گا۔
عمران خاں نے اچھا کیا کہ پرویز رشید کے جملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ شریف خاندان کا کمال یہ ہے کہ اہم ترین وزارتوں میں سے ایک اسے سونپ رکھی ہے۔ ان کے ذوق کا اندازہ اس سے ہوتا ہے۔ "A man is known by the company he keeps" ایک طرف شعیب بن عزیز‘ دوسری طرف پرویز رشید... کہاں بانگِ درا‘ کہاں بانگِ دہل۔
برسبیلِ تذکرہ، وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر نے رابطہ کیا اور بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ ہرگز اس شخص کو وزارت سے الگ کرنے کے حامی نہیں۔ میری اطلاع غلط نکلی۔ اس پر میں معذرت خواہ ہوں۔ یوں بھی اس کاروبار میں دخل دینے والے ہم کون ہیں۔ ایک پرویز رشید ہی کیا، کئی دوسرے وزراء ہیں، حکومت کی مدد کرنے کی بجائے جو اس کے لیے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ بتایا یہ گیا کہ وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ جو ناقص اور ناکردہ کار ہیں، ان سے نجات حاصل کی جائے گی۔ برادرم ارشاد عارف کا خیال ہے کہ پرنالہ وہیں پر رہے گا۔ سینیٹ کے الیکشن سر پہ کھڑے ہیں اور وزیرِ اعظم کسی ایک رکن کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ مجبور لوگ‘ جو اپنے ہاتھ خود باندھ لیتے ہیں‘ بروقت اور موزوں فیصلے کرنے کی آزادی کھو دیتے ہیں۔ پھر وقت اپنے فیصلے ان پر نافذ کرتا ہے۔ میاں نواز شریف کو ان کی ٹیم مبارک۔ دوسروں کے ساتھ ہم بھی منظر ہیں ؎
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
سراج الحق اور عمران خان کی دیروزہ ملاقات میں بھی سینیٹ کا ذکر آیا۔ امیر جماعتِ اسلامی نے ان سے کہا کہ ایوانِ بالا کے الیکشن اب کچھ زیادہ دور نہیں۔ پختون خوا اسمبلی تحلیل کرنے کا خیال انہیں دل سے نکال دینا چاہیے۔ عمران خان کی آنکھوں میں اس پر چمک پیدا ہوئی۔ سرحد اسمبلی کا تحلیل ہونا یوں بھی مشکل ہے۔ صرف جماعتِ اسلامی ہی نہیں، ان کے اپنے ساتھی بھی حائل ہیں۔ اقتدار کا نشہ دنیا کا بدترین نشہ ہے۔ آسانی کے ساتھ کوئی شخص اس سے نجات نہیں پایا کرتا۔ جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ پشاور حکومت بنی گالہ سے چلائی جاتی ہے، وہ مغالطے کا شکار ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ جہاں کہیں کپتان کا بس چلتا ہے، وہ ترجیحات طے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی مدد سے؛ اگرچہ ان کی اپنی ذاتی ترجیحات بھی ہیں۔ جہانگیر خان پرویز خٹک کے پُشت پناہ ہیں۔ انہی کی مدد سے وہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے اور وزارتِ اعلیٰ کی راہ ان کے لیے ہموار ہوئی‘ وگرنہ وہ پارٹی میں نئے تھے۔ اختلافات کبھی گہرے بھی ہو جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل پختون خوا میں تحریکِ انصا ف کے کرتا دھرتا پارٹی کے مرکزی دفتر پر قبضہ جمانے کے خواب بھی دیکھتے رہے۔ عمران خان کے ہوتے ہوئے اگرچہ یہ خواب کبھی متشکّل نہیں ہو سکتا۔ بدعنوانی کا کوئی الزام ابھی تک پرویز خٹک پر نہیں مگر کم کوش ہیں، ناکردہ کار۔ روایتی سیاست کے آدمی ہیں۔ کسی نظریے کی پاسبانی کر سکتے ہیں اور نہ کسی انقلا بی گروہ کی قیادت۔ نعرے بازی کی بات دوسری ہے وگرنہ ع
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کے درمیان ''سب اچھا‘‘ نہیں۔ مگر اس نکتے کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاست میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ جیسا کہ نپولین نے کہا تھا: حلیف ہوتے ہیں یا دشمن۔ بار بار سراج الحق یہ بات واضح کر چکے کہ دونوں پارٹیوں کا اتحاد ایک صوبے تک محدود ہے۔ ان کی نظریاتی ترجیحات بہت سے میدانوں میں مختلف ہو سکتی ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا تھا، حالیہ بحران ایک انگریزی اخبار میں امیر جماعتِ اسلامی سے منسوب ایک جملے کی اشاعت سے شروع ہوا ''تحریکِ انصاف اور نون لیگ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں‘‘۔ عرض کیا تھا کہ اگر یہ بات سراج الحق نے کہی ہوتی تو دوسرے اخبار بھی اسے شائع کرتے اور نمایاں طور پر۔ اب تو اخبار نے بھی وضاحت کر دی ہے‘ معذرت کر لی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اخبار کے نامہ نگار نے یہ جملہ خود تراشا‘ یا کسی کے ایما پر شرارت کی۔
جناب سراج الحق کا خیال بہرحال یہی ہے کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان کچھ لوگ اختلاف پیدا کرنے پر تُلے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ اگرچہ جماعتِ اسلامی دھرنے میں شریک نہیں مگر سراج الحق تحریکِ انصاف کی طرف مائل ہیں۔ مصالحتی جرگے کے سربراہ وہ ضرور ہیں‘ مگر ان کی اپنی الگ پارٹی ہے اور اپنا الگ مستقبل۔
عمران خان کے اس بیان پر کہ جماعتِ اسلامی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے سے گریز کرے، سراج الحق بہت آزردہ تھے۔ شاہ محمود نے منصورہ پہنچ کر وضاحت کی مگر وہ مطمئن نہ ہوئے۔ ان سے کہا گیا کہ اسلام آباد میں عمران خان کے ساتھ علیحدگی میں ان کی ملاقات ہونی چاہیے۔ شائستہ لہجے میں سراج الحق نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی صورتِ حال میں ان کا خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہونا ممکن نہیں؛ البتہ وہ تشریف لانا پسند کریں تو ان کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ بدھ کی ملاقات اسی پسِ منظر میں ہوئی۔
عمران خان اپنے ساتھ اخباری خبروں کا ایک پلندہ لائے تھے۔ اس میں غالباً لیاقت بلوچ کا یہ بیان بھی شامل تھا کہ انقلاب گانے بجانے سے نہیں آیا کرتا۔ مولانا فضل الرحمن کی بات دوسری ہے‘ عمران خان سے جنہیں خدا واسطے کا بیر ہے اور جو حسد میں مرے جاتے ہیں۔ یہ مگر آشکار ہے کہ جماعتِ اسلامی اس ماحول کی داد نہیں دے سکتی، جو تحریکِ انصاف کے اجتماعات میں رنگ جماتا ہے۔ معلوم نہیں، لیاقت بلوچ نے ٹھیک وہی الفاظ کہے یا نہیں، جو ان سے منسوب کیے گئے۔ پارٹی کے ایک ممتاز رہنما نے ابھی ابھی مجھ سے یہ کہا کہ ستر برس سے ہم اسلامی نظام کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ تین نسلوں کی اس نقطہ نظر سے تربیت کرنے کی ہم نے کوشش کی ہے۔ پھر اقبال کا شعر پڑھا ؎
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طائوس و رباب آخر
سراج الحق نے کہا: مخصوص مفادات کے لوگ ڈس انفرمیشن کا اہتمام بھی کرتے ہیں (خفیہ ایجنسیاں اور میڈیا پر ربع صدی تک سرمایہ کاری کرنے والا شریف خاندان؟) انہوں نے کہا، جب وہ دونوں براہِ راست بات کر سکتے ہیں‘ ان کے درمیان تحفظات کی کوئی دیوار نہیں تو اس کھکھیڑ کی ضرورت کیا ہے؟ عمران خان ان کی طرف جھکے اور موزوں الفاظ میں معذرت کی۔ ''معافی‘‘ کا لفظ انہوں نے استعمال نہ کیا۔ مقصود وضاحت اور دل جوئی تھی۔ جماعت اسلامی والوں کا کہنا یہ ہے کہ اب کوئی رنجش باقی نہیں۔
دھاندلی پر سپریم کورٹ میں فیصلہ صادر کرنے کی تجویز عمران خاں نے تنہائی میں سنجیدگی سے پیش کی اور پریس کانفرنس میں اسے دُہرایا۔ ہرچند اعلان کیا کہ دھرنا جاری رہے گا مگر گمان اس سے یہ ہوتا ہے کہ وہ تھک چکے اور نجات کی کسی آبرومندانہ راہ کے متلاشی ہیں۔ ان کی تمام امیدیں اب 30 نومبر کے ''سونامی‘‘ سے وابستہ ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک بڑا ہجوم‘ شاید خیرہ کن وہ جمع کرنے میں کامیاب رہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عوامی جلسوں کا سلسلہ بھی اسی شدومد سے جاری رہے مگر وہ لپک کر آتا ہوا موسمِ سرما، جو اب کی بار میدانوں پر تسلط جمانے کو بے تاب ہے۔
موسموں سے کون جنگ آزما ہو سکتا ہے؟ تقدیر سے کون لڑ سکتا ہے؟ نپولین کو روس کے برف زاروں نے ادھ موا کر دیا تھا۔ تحریکِ انصاف کے جوانمردوں کا قافلہ کیا مارگلہ کی برفانی ہوائوں کی تاب لا سکے گا؟ شاید شاید! کون کہہ سکتا ہے کہ آنے والا کل‘ کس کے لیے کیا لائے گا۔