تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-11-2014

طاہرالقادری کے لیے ایک اور میدان

کل کچھ زیادہ محنت کرنی پڑی مگر شکر ہے میرے مالک کا کہ اس نے محنت قبول کی۔ ایک دو دن سے ملتان سے اور پاکستان سے کچھ دوستوں نے ایک تحریر کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ اطلاعات دیں بلکہ ایک دو نے تو میل میں بھجوا بھی دی۔ بے سروپا بہتان پر دل میں ملال آیا۔ خاص طور پر یوں کہ یہ دوستوں کا کیا دھرا تھا۔ پہلے تو یوں ہوا کہ چند برس پہلے والا خالد مسعود خان جاگ پڑا۔ مغضوب الغضب‘ جنگجو اور جلالی۔ مگر کرم ہے میرے مولا کا کہ اس نے ارادوں میں استقامت بخشی۔ صبح سے شام تک کثرت سے یا تواب‘ یا عفو کا ورد کیا اور شمار کے بغیر کیا۔ شام تک دل سے سارا غبار اور کدورت رخصت ہو گئی۔ بہتان طرازوں کو دل سے معاف کیا۔ اپنے ماضی پر نظر دوڑائوں تو یہ عجب سی بات لگتی ہے مگر وہ ہر شے پر قادر ہے۔ کبھی انسان کے ارادوں کو توڑ کر اپنی کبریائی کا ثبوت دیتا ہے اور کبھی ارادوں میں استقامت بخش کر۔ کرم ہے اس کی ذات کا کہ اس نے اپنے در کے فقیر کی دستگیری فرمائی۔ رات بڑے دنوں کے بعد ایسی پُرسکون نیند نصیب ہوئی۔ 
گزشتہ اکیس دن سے مسلسل سفر میں ہوں۔ ان اکیس دنوں میں تیرہ شہر اور تیرہ ریاستوں میں گھوما ہوں۔ اگر شفیق اور برادر بزرگ کے ساتھ گزارے آٹھ دن اور دو شہر نکال دوں تو تیرہ دن میں گیارہ شہر بنتے ہیں۔ ہوسٹن اتر کر ہوٹل کی طرف جا رہا تھا کہ شیخ عمر کا فون آ گیا۔ پوچھنے لگا‘ کہاں ہو؟ میں نے بتایا کہ ہوسٹن میں ہوں۔ کہنے لگا‘ پھر کہاں کے ارادے ہیں؟ میں نے بتایا کہ یہاں سے فارغ ہو کر گرینڈ ریپڈز جائوں گا۔ بیٹی کے پاس۔ شیخ عمر نے پوچھا‘ واپسی کب ہے؟ میں نے بتایا کہ پندرہ نومبر کو۔ تو کیا اتنے دن بیٹی کے ہاں گزارنے ہیں؟ میں نے ہنس کر کہا کہ کیا میں اتنے دن ایک جگہ گزار سکتا ہوں؟ پوچھنے لگا تو پھر کیا ارادے ہیں؟ میں نے کہا‘ دو چار روز کے بعد بیگ اٹھائوں گا اور ڈاکٹر بلال پراچہ کے پاس اوکلاہاماسٹی چلا جائوں گا۔ وہاں سے اگلے روز تلسا‘ وہاں سے فلاڈلفیا پھر میری لینڈ اور بالآخر نیویارک۔ شوکت فہمی کے پاس۔ شیخ عمر کہنے لگا‘ اس دوران کتنا سفر کیا ہوگا؟ میں نے کہا‘ مسافر کو سفر کی طوالت سے غرض نہیں ہوتی۔ فاصلوں کا شمار ارادوں میں کمزوری پیدا کرتا ہے۔ شیخ عمر ہنسا اور کہنے لگا۔ مسافر اپنی مسافت کی طوالت نہ ناپے مگر ہم تو حساب کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا‘ بصد شوق۔ شیخ کہنے لگا‘ میں نے کاغذ اٹھا لیا ہے‘ اب تم اپنے سارے سفر کی تفصیل بتائو‘ میں انٹرنیٹ سے سارا فاصلہ معلوم کرلوں گا۔ میں نے کہا‘ لکھو۔ پندرہ کو نیویارک آمد۔ پندرہ کی شام ہی واشنگٹن روانگی۔ سولہ کو پھر نیویارک۔ اٹھارہ کو ڈیٹرائٹ۔ انیس کو فلاڈلفیا۔ بیس کو لاس اینجلس۔ چوبیس کو میامی۔ پچیس کو اٹلانٹا۔ چھبیس کو پھر لاس اینجلس۔ ستائیس کو ایک بار پھر اٹلانٹا برادر بزرگ کے پاس۔ اکتیس کو بوسٹن۔ آج یکم نومبر کو ہوسٹن۔ شیخ کہنے لگا اور آگے کا پروگرام کیا ہے؟ میں نے کہا‘ یہاں سے گریناڈ ریپڈز‘ وہاں سے اوکلاہاماسٹی‘ پھر تلسا‘ فلاڈلفیا‘ خالد منیر کے پاس۔ وہاں سے میری لینڈ پھر واپس فلاڈلفیا اور پھر آخرکار نیویارک۔ اور پھر پاکستان۔ شیخ عمر کہنے لگا۔ اتنا امریکہ تو میں نے گزشتہ اڑھائی سال میں نہیں دیکھا‘ جتنا تم نے صرف اس ایک دورے میں دیکھ لیا ہے۔ میں ہنسا اور کہا‘ شیخ دیکھا کب ہے؟ بس بھگتایا ہے۔ اور سچ بھی یہی ہے۔ 
کل امریکہ میں کانگریس اور سینیٹ کے الیکشن تھے۔ کانگریس کے الیکشن ہر دو سال بعد ہوتے ہیں اور سینیٹ کی پچاس فیصد سیٹوں پر ہر دو سال بعد الیکشن ہوتے ہیں۔ صدر چار سال کے لیے منتخب ہوتا ہے۔ اس وقت اوباما مقبولیت کے اعتبار سے بڑی خراب صورت حال کا شکار ہے۔ اس کی پاپولیرٹی محض تیس فیصد رہ گئی ہے۔ میں چار دن شفیق کے پاس لاس اینجلس رہا تو وہاں تقریباً نوے فیصد سیاست کے موضوع پر ہی گفتگو ہوتی تھی؛ تاہم یہ سیاسی موضوع صرف پاکستان کی سیاست سے ہی متعلق نہیں تھا‘ امریکی سیاست بھی ہماری باہمی گفتگو کا موضوع رہی تھی بلکہ مناسب الفاظ میں شفیق اس موضوع پر مسلسل بولتا رہتا تھا کہ وہ سارا دن یہی کام کرتا ہے۔ پاکستانی ٹیلی ویژن چینلز دیکھتا ہے یا امریکی سیاست پر ہونے والے مذاکرے اور ٹاک شوز دیکھتا ہے۔ اس کے بقول امریکی سیاست بھی اتنی ہی خراب اور آلودہ ہے جتنی پاکستان میں۔ بلکہ اس کے خیال میں امریکی سیاست بعض معاملات میں پاکستان سے بھی کہیں زیادہ خراب حالت میں ہے۔ اس کے پاس اپنی بات کی سچائی کے ثبوت کے لیے بے شمار مثالیں بھی ہیں جو وہ اعدادو شمار کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ وہ امریکہ میں میرا خیال ہے سوائے سیاست پر نظر رکھنے کے اور کچھ بھی نہیں کرتا۔ حالانکہ اس کے سیاست پر نظر رکھنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے کہ اس سے حاصل وصول کچھ نہیں ہو رہا مگر اس کا کہنا ہے کہ سیاست میں گوڈے گوڈے دھنسے رہنا ہم پاکستانیوں کا محبوب مشغلہ ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں جتنے ٹاک شوز ہوتے ہیں‘ دنیا بھر میں کہیں نہیں ہوتے۔ جتنے پاکستان میں نیوز چینل ہیں‘ امریکہ میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ سی این این اور فاکس نیوز‘ یہ دو خبروں کے بنیادی چینل ہیں اور ایک این بی سی۔ ان تین نیوز چینلز کے علاوہ اے ٹی سی‘ سی بی ایس اور اسی قبیل کے آٹھ دس جزوی نیوز چینل ہیں جو دن میں دو گھنٹے نیوز دیتے ہیں۔ اسی طرح ٹاک شوز صرف سی این این‘ فاکس نیوز اور این بی سی پر صرف اتوار کی صبح دو گھنٹے کے لیے آن ایئر ہوتے ہیں۔ امریکہ میں یہ کل نیوز ڈرامہ ہے۔ 
کل امریکہ میں سینیٹ کی چھتیس اور کانگریس کی چار سو پینتس نشستوں پر انتخاب تھا۔ کہیں کوئی ہنگامہ آرائی نہیں تھی۔ کہیں پوسٹر نہیں لگے ہوئے تھے۔ کوئی جلسہ تھا‘ نہ جلوس۔ کہیں کنویسنگ نظر آ رہی تھی اور نہ رینجرز کے دستے گشت کر رہے تھے۔ کہیں کہیں تیر کے نشان پولنگ سٹیشنوں کی نشاندہی کر رہے تھے اور بس۔ ہاں البتہ ٹیلی ویژن چینلز پر بڑی گرما گرمی اور بحث مباحثہ چل رہا تھا۔ وہاں کے اینکرز دیکھ کر کئی پاکستانی اینکرز یاد آ رہے تھے۔ پارٹی باز یا بہتان طراز‘ افواہ ساز اور کذب بیانی کے ماہر۔ توازن اور غیرجانبداری کا دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آ رہا تھا۔ اپنی اپنی پارٹی اور اپنی اپنی فنڈنگ کرنے والوں کے لیے تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے ان تبصرہ نگاروں‘ تجزیہ کاروں اور ''غیر جانبدار‘‘ مبصروں کی کارکردگی دیکھ کر پاکستان بڑا یاد آیا۔ 
کل کے امریکی انتخابات میں اوباما کی پارٹی کا خاصا دھڑن تختہ ہوا ہے لیکن یہ کوئی خلاف امید والا معاملہ نہیں تھا۔ امریکی سیاست اور رائے عامہ پر نظر رکھنے والوں کا جو اندازہ تھا‘ درست ثابت ہوا اور ڈیموکریٹس کو یعنی صدر اوباما کی پارٹی کو اس الیکشن میں مزید دھچکا لگا ہے۔ گو کہ اوباما کی حالت کانگریس میں پہلے بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی مگر سینیٹ میں انہیں صحیح طور پر مشکل وقت آن پڑا ہے۔ کل سے پیشتر ڈیموکریٹس کو سینیٹ میں برتری حاصل تھی‘ جو اب الٹ گئی ہے۔ سو ممبروں پر مشتمل امریکی سینیٹ میں فی الوقت دو آزاد ممبر ہیں اور وہ ڈیموکریٹس کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ چار نومبر کے الیکشن سے پہلے سینیٹ میں ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد تریپن تھی اور دو آزاد ارکان ملا کر پچپن ارکان کی حمایت حاصل تھی جبکہ ریپبلکن پارٹی کے پینتالیس ارکان سینیٹ میں تھے لیکن کل کے الیکشن کے بعد ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد پینتالیس جمع دو آزاد ارکان سینتالیس رہ گئی ہے جبکہ ریپبلکن ارکان کی تعداد بڑھ کر تریپن ہو گئی ہے اور اب ڈیموکریٹس کو سینیٹ میں بھی اقلیتی صورتحال کا سامنا ہے۔ اسی طرح کانگریس میں اس الیکشن سے قبل صورتحال یہ تھی کہ ڈیموکریٹس کے پاس دو سو ایک سیٹیں تھیں اور ریپبلکنز کے پاس دو سو چونتیس سیٹیں یعنی ارکان تھے۔ لیکن کل کے الیکشن کے بعد ریپبلکنز کی برتری میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اب ڈیموکریٹس ارکان کی تعداد مزید کم ہو کر ایک سو ستاسی رہ گئی ہے اور ریپبلکنز کی تعداد مزید بڑھ کر دو سو اڑتالیس ہو گئی ہے۔ بقول شفیق کے اوباما کے پاس اب حکومت کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہا۔ اس کی عوامی مقبولیت اس وقت محض تیس فیصد ہے۔ سینیٹ میں اس کے پاس پینتالیس فیصد اور کانگریس میں محض تینتالیس فیصد نمائندگی رہ گئی ہے۔ اس کی صورتحال میاں نوازشریف سے ہزار گنا زیادہ خراب ہے‘ اسے مستعفی ہو جانا چاہیے مگر بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہاں دھرنے کا کوئی تصور نہیں۔ شفیق کا خیال ہے کہ یہاں کسی عمران خان کی ضرورت ہے جو کرسی پر بیٹھے ہوئے عوامی حمایت سے عاری اوباما کی چھٹی کروا سکے۔ 
شفیق کا خیال ہے کہ علامہ طاہرالقادری جو اگلے ہفتے امریکہ آ رہے ہیں اور پاکستان میں دھرنے پر ہونے والے خرچے کا نقصان پورا کرنے کے لیے یہاں سے دوبارہ چندہ وغیرہ اکٹھا کرنے پر کمربستہ ہیں‘ انہیں چاہیے کہ وہ واشنگٹن میں ایک دھرنا دیں تاکہ ان کی بطور ایک انٹرنیشنل انقلابی قائد کی حیثیت پکی ہو جائے۔ یہاں کافی بے گھر (Homeless) افراد بالکل تھوڑی سی دیہاڑی پر دھرنا دینے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ قادری صاحب کو یہاں یہ تجربہ کرنا چاہیے۔ ویسے بھی بطور کینیڈین شہری پہلا حق ہمسایوں کا ہوتا ہے اور امریکہ کینیڈا کا سب سے قریبی بلکہ اکلوتا ہمسایہ ہے۔ قادری صاحب کو اس آپشن پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ویسے بھی ٹرائی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved