مسلم لیگ (ن)‘ آئین و قانون کی دفعات اور سیاسی اخلاقیات کی من مانی تشریح پر یقین رکھتی ہے۔ اگر اس کا کوئی ساتھی لوٹا بن جائے‘ تو آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے، لیکن جب اسے خود دوسری پارٹیوں کے لوٹوں کی ضرورت ہو‘ تو وہ جائز قرار پاتے ہیں۔ جب پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں پنجاب کی حکومت بنانے کے لئے زورآزمائی ہو رہی تھی اور اس کے بعد وفاق میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر مسلم لیگ کو ضرورت پڑی‘ تو اس وقت کیا کیا نہیں ہوا تھا؟ چھانگامانگا کا بازار لگا۔ جس میں اراکین اسمبلی کو‘ اچھے بھلے انسانوں سے لوٹوں میں بدلا گیا۔اسی طرح ایک اور موقع پر جب پنجاب میں ن لیگ کو‘ اپنے اراکین کو بچانے کی ضرورت پڑی‘ تو انہیں کھدیڑ کر اسلام آباد کے ایک فائیوسٹار ہوٹل میں بند کر دیا گیا۔ انہیں ہر طرح کی آزادی تھی۔ وہ جو چاہیں کھائیں پئیں۔ ہوٹل میں جو کچھ مہیا تھا‘ وہ ان کی خدمت میں پیش کیا گیا۔اس فائیوسٹارہوٹل میں بار بھی تھی۔ جہاں سے صرف غیرملکی مہمانوں کو سروس مہیا کی جاتی۔ یہی سروس پنجاب کے ''غیرملکی‘‘ مہمانوں کو بھی یہ سوچ کر مہیا کر دی گئی کہ وہاں پر منظوروٹو کی حکومت ہے اور اسلام آباد میں جناب نوازشریف کی۔ اس لئے پنجاب سے اسلام آباد آنے والے ''غیرملکی‘‘ ہیں۔ انہیں وہ رعایت دینا جائز ہو گا۔ معزز مہمان اراکین نے‘ اس رعایت کا فائدہ اٹھا کرحیثیت غیرملکیوں والی حاصل کر لی۔ لیکن مزے خالص پنجابیوں کی طرح لئے۔ ایک ایک مہمان ،جو کہ مسلم لیگ(ن) کے خرچ پر‘ اس ہوٹل میں قیام پذیر تھا‘ نے پنجاب کے ہر شہر سے‘ اپنے دوستوں کو ٹیلیفون کر کے بلایااور ن لیگ کے خرچ پر‘ اس کی خوب تواضع کی۔لیکن ساتھ ہی ان مہمانوں کی کڑی نگرانی کی جا رہی تھی کہ وہ ادھر ادھر کھسک کر لوٹے نہ بن جائیں۔ لوٹے بنانے کی قیمت چوہدری برادران نے چکائی۔
اس وقت یہ سب کچھ جائز تھا۔ ممبروں کو زبردستی ہوٹل میں ٹھہرا کر‘ انہیں نظربندوں کی طرح رکھنا اور ان پر اندھادھند پیسہ خرچ کرنا‘ سب کچھ جائز تھا۔ کیونکہ ن لیگ‘ اراکین صوبائی اسمبلی کو لوٹا بننے سے روک رہی تھی۔ تب یہ نیک کام تھا۔ اسی طرح جب بے نظیربھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی‘ تو مسلم لیگ کی ضرورت بدل گئی۔ سیاسی اخلاقیات کے اصول بھی بدل گئے اور قانون کی تشریح بھی بدل گئی۔ اب دونوں پارٹیوں نے مقابلے میں لوٹا سازی شروع کر دی۔ ن لیگ نے مری میں فیکٹری لگائی اور پیپلزپارٹی نے سوات میں۔ دونوں نے بڑے بڑے معززین کو لوٹا بنا کر ان کی خوب خاطرتواضع کی۔ وہ بڑے مزے کے دن تھے۔ جس پارٹی کا رکن‘ لوٹا بن کر دوسری پارٹی میں جاتا‘ اس کی بے اصولی کے خلاف بڑے بڑے مدلل بیانات جاری کرکے ن لیگ یہ ثابت کرتی کہ ''دیکھووہ بظاہر کتنا شریف بنتا تھا؟ اپنی سیاسی اصول پسندی اور وفاداری کا ڈھول بجایا کرتا تھا اور اب دیکھئے لوٹا بن کے‘ دوسری پارٹی میں بیٹھا ہوا ہے۔ اسے ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ لوٹا بننے کے بعد بھی ٹیلیوژن پر آ کر اپنی شکل دکھا رہا ہے۔‘‘ اس وقت دونوں پارٹیاں ایک ہی اصول پر عمل پیرا تھیں۔ بیک وقت وہ لوٹوں کی عزت افزائی بھی کیا کرتیں اور انہیں تبرے بھی سناتیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ جو دوسری پارٹی سے‘ لوٹے بن کر ایک پارٹی کی طرف آتے‘ انہیں نئی پارٹی میں عزت ملتی اور ان کی پرانی پارٹی ان پر تبرے بھیجتی۔ یہی انداز دوسری پارٹی کا ہوتا۔ کیامزے کے دن تھے؟ لوٹوں کی عزت بھی ہوتی اورانہیں گالیاں بھی پڑتیں۔ ریکارڈ دیکھا جائے‘ تو دوسری پارٹیوں کے اندر لوٹے پیدا کرنے کے فن کا ‘ن لیگ نے کامیابی سے مظاہرہ کیا۔ جبکہ پیپلزپارٹی لوٹے بنانے میں اناڑی ثابت ہوئی۔
آج کل ن لیگ ‘ آئین اور ضوابط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ لوٹے تیار کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ‘ عمران خان نے پنجاب اور قومی اسمبلی سے استعفے دے کر‘ اپنے اراکین اسمبلی کو باہر آنے کے لئے کہہ رکھا ہے۔ پارٹی کے فیصلے کے مطابق سب نے استعفے لکھ کرسپیکر کے حوالے کر دیئے۔ آئینی پوزیشن یہ ہے کہ سپیکر استعفیٰ دینے والے رکن سے ‘بالمشافہ گفتگومیں‘ اطمینان کرنے کا پابند نہیں کہ یہ استعفیٰ وہ کسی دبائو میں آ کر تو نہیں دے رہا؟ یہ سپیکر کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ اپنے اطمینان کے لئے جو طریقہ کار چاہے‘ اختیار کر سکتا ہے۔ گویا سپیکر پر یہ پابندی نہیں کہ اگر کسی جماعت کے ممبر اکٹھے آ کر سپیکر کو اطمینان دلانا چاہیں اور سپیکر ان پر پابندی لگائے کہ نہیں‘ وہ فراً فرداً تخلیے میں آ کر مجھے اطمینان دلائیں۔ بے شک سپیکر اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن اسے من مانی کرنے کی اجازت نہیں۔ صوابدیدی اختیار کے بارے میں عدالتی فیصلہ یہ ہے کہ بے شک صوابدیدی اختیار استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بدنیتی پر مبنی نہ ہو۔ آج بھی استعفیٰ دینے والے اراکین یا ان میں سے کوئی ایک‘ یہ معاملہ عدالت میں لے جا کر یہ موقف اختیار کر سکتا ہے کہ سپیکر اپنا صوابدیدی اختیار بدنیتی سے استعمال کر رہے ہیں اور اب تو اس کی مثالیں بھی سامنے آ چکی ہیںکہ استعفیٰ دینے والے ممبران کو حکومتی اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طرح طرح کی ترغیبات دی جا رہی ہیں کہ وہ سپیکر کے پاس جا کر‘ انکار کر دیں یا میڈیا میں بیان دے دیں کہ انہوں نے اپنی رضامندی سے استعفیٰ نہیں دیا بلکہ پارٹی کے لیڈر نے ان پر دبائو ڈال کر مجبور کیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ نجی ملاقات یا میڈیا میں بیان کے ذریعے‘ کوئی بھی ممبر انحراف کر سکتا ہے۔ یہ بات عملاً ثابت ہو چکی ہے کہ استعفے منظور کرنے سے انکار کر کے‘ سپیکروں نے حکومت کو یہ مہلت مہیا کی کہ وہ استعفیٰ دینے والے اراکین کو لالچ یا دبائو سے مجبور کریں کہ وہ اپنے استعفے سے منحرف ہو جائیں۔ دوسرے الفاظ میںلوٹا بن جائیں۔ گزشتہ چند روز میں بعض لوٹے سامنے آ چکے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ انہیںلوٹا کس نے بنایا؟ لوٹوں کی مثال دے کر‘ عدالت میں کہا جا سکتا ہے کہ سپیکر اجتماعی ملاقات پر بدنیتی کے ساتھ اصرارکر رہا ہے تاکہ حکومت کو موقع ملے کہ وہ ممبر پر دبائو ڈال کر یا اسے لالچ دے کر‘ لوٹا بننے پر مجبور کر دے۔ آج کی آزاد عدلیہ کے سامنے
یہ ثابت کر دیا جائے کہ سپیکرز‘ تحریک انصاف کے اراکین کو‘ لوٹا بنانے کے لئے انہیں فرداً فرداً ملاقات پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سپیکر خود مستعفی ممبر کو پریشان کرنے کے لئے‘ اس کا موقف پوچھنے کی بجائے‘ اسے سمجھانا شروع کر دے کہ وہ کیوں اسمبلی کی رکنیت چھوڑ کر‘ اتنی بڑی پوزیشن سے محروم ہونا چاہتا ہے؟ سپیکر صاحب جس حد تک گئے ہوئے ہیں‘ اسے دیکھ کر یہ شک کرنا بالکل بجا ہے۔ خود ن لیگ‘ مشرف کے زمانے میں اجتماعی استعفے دے چکی ہے۔ اس وقت سپیکر چوہدری امیرحسین تھے۔ یہ استعفے اجتماعی طور پر دیئے گئے اور سپیکر نے انہیں منظور کر لیا۔ اس نظیر سے ثابت ہوتا ہے کہ سپیکر ‘ استعفیٰ دینے والے رکن سے‘ تنہائی میں ملاقات کر کے اطمینان کر نے کا پابند نہیں۔ قانون یہ کہتا ہے کہ اگر ممبر اپنے دستخط کے ساتھ‘ استعفیٰ سپیکر کو پہنچا دے‘ تو اسے منظور کیا جا سکتا ہے۔ اس سے انٹرویو یا اضافی تسلی کے لئے‘ تخلیے میں ملاقات لازم نہیں۔تحریک انصاف کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کے اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرنے میں غیرمعمولی تاخیر کر کے‘ حکومت کو لوٹے بنانے کی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔ نہ تو قانون کا یہ منشا ہے اور نہ آئین کا کہ سپیکر اپنے اختیارات ‘معزز اراکین کو لوٹے بنانے کے لئے استعمال کرے۔ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کا سوال تو اپنی جگہ، سپیکر صاحب جو کھلی دھاندلی کر رہے ہیں‘ ن لیگ کے لیڈر اسے بھی مان کر نہیں دیتے۔ جب کوئی پارٹی یا آدمی ضد پر آ جائے کہ اسے حقیقت کو ماننا ہی نہیں‘ تو کوئی اسے کس طرح منوا سکتا ہے؟ ایک عادی نوسرباز‘ پولیس کے قابو آیا تو اس سے تفتیش شروع ہوئی۔ تفتیشی افسر نے دوچار سوال پوچھے۔ نوسرباز جواب میں انکار کرتا رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ تفتیشی افسر زیادہ ہی بضد ہے‘ تو اس نے کہا کہ ''آپ مہربانی کر کے مجھے پانی پلوا دیں۔‘‘ افسر نے فوری طور پر پانی منگوا کراسے دے دیا۔ نوسرباز نے پانی پی کر ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے تفتیشی افسر سے کہا''پہلے آپ مجھے سے یہ منوا لیں کہ میں نے ابھی پانی کا گلاس پیا ہے۔ باقی سوالوں کے جواب بھی اسی طرح ملیں گے۔‘‘ تحریک انصاف والے‘ سپیکر کوقانون کے تحت اپنے استعفے منظور کرنے کے لئے جتنے دلائل چاہیں دیتے رہیں اور قانون میں دستیاب اختیارات کے حق میں جو کچھ چاہیں کہتے رہیں‘ جب سپیکر صاحب تل ہی گئے ہیں کہ وہ مان کر نہیں دیں گے‘ تو انہیں کون منوائے گا؟ مسلم لیگ (ن) نے‘ تحریک انصاف کے سارے اراکین کو لوٹے بنانے کی ٹھان رکھی ہے۔ تحریک والے جو چاہیں کر لیں‘ سپیکر کا پرنالہ وہیں رہے گا،لیکن ایک بات حکومت کو سمجھنے میںمشکل پیش آ رہی ہے کہ عمران خان کی ساری پارٹی کو بھی لوٹے بنا دیا جائے‘ عمران کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئے گی، بلکہ اس کی پارٹی‘ لوٹا فیکٹری سے چھن کر‘ باہر آنے سے مزید مضبوط ہو جائے گی اور مستقبل میں لوٹا بننے والے یاد کیا کریںگے کہ لوٹا بننے والوں کا انجام کیا ہوا؟ جس لیڈر کو عوام کی پرجوش بلکہ جارحانہ حمایت حاصل ہو‘ اس کے خلاف کچھ بھی کر لیا جائے‘ اسے کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔آخرمیں عمران خان ایک پرانے فلمی گیت کو یوں بدل کرمزے لیں گے:
لوٹے بنانے والے ذرا سامنے تو آ
میںتجھ کو یہ بتائوں کہ لوٹے ترے ہیں کیا