تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     08-11-2014

ٹیپو سلطان کی وارث

یہ تو مجھے معلوم تھا کہ والیِ میسور(کرناٹک) ٹیپو سلطان نے اپنی سلطنت اور اکثریتی رجواڑوں کا‘ انگریزکے نو آبادیاتی نظام سے دفاع کرتے ہوئے جان دی۔ برٹش انڈیا کے دو جانشینوں بھارت اور پاکستان نے آزادی کے اس ہیرو کی توقیر کی‘ سنجے خان نے بھارتی ٹیلی وژن کے لئے ایک سلسلہ وار ڈرامہ بنا کراور پاک بحریہ نے اپنے ایک جہاز کا نام پی این ایس ٹیپو رکھ کر‘ مگر نیو یارک کے ڈاکٹر اعجاز قریشی نے یہ بتا کر میری معلومات میں اضافہ کیا کہ بادشاہ کی ایک وارث نور النساعنایت خان (1914-1944ء) دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی شہری تھی۔ تحریک مزاحمت کی مدد کے لئے مقبوضہ فرانس میں داخل ہوئی۔ نازی جرمنی کے احکامات ماننے سے انکار کی بنا پرDachau جیل بھیجی گئی اور وہاں تیس سال کی عمر میں موت سے ہم کنار ہوگئی۔ اعجاز نے بتایا کہ ایک امریکی فلم ڈائریکٹر نے نور کی زندگی پر ایک ڈاکو منٹری بنائی ہے‘ جسے امریکن مسلم ویمن ایسوسی ایشن کی فرمائش پر سکا رز ڈیل لائبریری میں نمائش کے لئے پیش کیا گیا۔ وہ ڈاکو ڈراما دیکھنے اورپروڈیوسر ڈائریکٹر راب گارڈن سے ملنے کے بعد گھر لوٹے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ صاحب‘ جو تین ایم ای جیت چکے ہیں اور آسکر کے لئے نامزد ہوئے ہیں‘ میری لینڈ میں رہتے ہیں اور ان کا گھر تمہارے گھر سے زیادہ دور نہ ہو گا ۔فلم ایک بین المذاہب تقریب میں پیش کی گئی اور اسے ایک مسلمان عورت کی کہانی کہا گیا ''جس نے دوسری عالمی لڑائی کے پیرس میں نازیوں کی حکم عدولی کی‘‘۔ یہ میرے علم میں ہے کہ اعجاز کی رفیقہ حیات فوزیہ اس انجمن کے رفاہی کاموں میں سر گرمی سے حصہ لیتی ہیں ۔
کتابوں میں آیا ہے کہ میسور کی چوتھی لڑائی میں جب سلطان کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے لشکرکے ہاتھوں شکست ہونے لگی تو ان کے فرانسیسی مشیروں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ خفیہ راستوں سے نکل کر اپنی جان بچائیں اور اپنی تحریک جاری رکھیں مگر حیدر علی کے فرزند نے انکار کر دیا اور اس وقت اپنا تاریخی جملہ کہا: ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہترہے‘‘۔ ٹیپو سلطان کا لقب ''شیرببر‘‘ تھا؛ تاہم فلم میں زیادہ توجہ ان کی وارث پر دی گئی ہے ۔Enemy Of The Reich: The Noor Inayat Khan Story تخلیق ہے‘ واشنگٹن میں یونیٹی پروڈکشنز فائونڈیشن کی‘ جو ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے اور اس سے پہلے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں کوئی ایک درجن فلمیں بنا چکا ہے۔ ان میں ''محمدﷺ‘ ایک پیغمبر کا ورثہ‘‘ ''اندرون اسلام‘ ایک ارب مسلمان کیا سوچتے ہیں‘‘ ''نا دیدہ دنیا‘ تاج محل کا طرز تعمیر‘‘ ''اللہ نے مجھے ظریف بنایا‘‘ وغیرہ ۔ ایک گھنٹہ طویل فلم ''دشمن‘‘ کا اولین شو گزشتہ فروری میں یہاں واشنگٹن میں ہوا تھا پھر پبلک براڈکاسٹنگ سروس PBS نے قومی سطح پر اسے ٹیلی کاسٹ کیا اور اس کے بعد چھوٹے بڑے گروپ اس فلم اور اس کے خالق کو اپنے ہاں مدعو کرنے لگے ۔
فائونڈیشن کی فیضا الحبری کہتی ہیں ''یہ فلم نور کی اس سوانح عمری پر مبنی نہیں ہے جو 2006ء میں اینگلو انڈین مصنفہ شربنی باسو نے لکھی تھی اور نام اس کا Spy Princess رکھا تھا ۔ٹائٹل رول گریس سری نواسن نے ادا کیا ہے ۔نور کے والد عنایت خان کی صرف تصویریں دکھائی گئی ہیں ۔ یہ پروڈیوسر ڈائریکٹر کی آزادانہ تحقیق کا ثمر ہے‘‘۔ نور ماسکو میں پیدا ہوئی تھی ۔وہ عنایت خان کے چار بچوں میں سب سے بڑی تھی ۔اس کے باقی بھائی بہنوں کے نام تھے : ولایت خان‘ ہدایت خان اور خیر النسا۔ نور نے بوقت ضرورت نورا بیکر‘ میڈلین اور ژاں مری رینیر کے نام بھی استعما ل کئے۔ جب جنرل کارنوالس نے ہوس ملک گیری کی لڑائی میں ٹیپو سلطان کو شہید کر دیا تو اپنی روایت کے مطابق‘ جو پنجاب کے مہاراجہ دلیپ سنگھ اور ہندوستان کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی جلا و طنی میں بھی نظر آتی ہے‘ ٹیپو کے خاندان کو انگلستان بھجوا دیا۔ عنایت خان نے یورپ میں ایک موسیقار اورمسلم صوفی کی حیثیت سے شہرت پائی اور وہ لوگوں کو تصوف کا درس دیتے رہے ۔ ان کی والدہ ٹیپو سلطان کے ایک چچا کی براہ راست وارث تھیں ۔ان کی قبر دہلی میں حضرت نظام الدین کے احاطے میں موجود ہے۔ نورالنسا کی میت ضائع ہو گئی یا گم کر دی گئی تھی‘ اس لئے اس کا کوئی مرقد نہیں البتہ پلیٹوں اور مجسموں کی شکل میں اس کی کئی یادگاریں لندن اور ماسکو میں پائی جاتی ہیں ۔مرنے کے بعد اسے جارج کراس سے نوازا گیا جو سلطنت برطانیہ عظمیٰ کا سب سے بڑا اعزاز ہے ۔
نور النسا کی داستان میں امریکی زاویہ موجود ہے ۔اس کی والدہ ''اورا مینا رے بیکر‘‘ ایک امریکی تھیں ۔عنایت خان امریکہ کے سفر پر تھے اور اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے ۔ البو قرقی‘ نیو میکسیکو میں مس بیکر کی ان سے ملاقات ہوئی اور دونوں نے شادی کر لی ۔امینہ بیگم خاتون کا اسلامی نام رکھا گیا۔ وہ امریکن یوگی اور سکالر پیئر برنارڈ کی بہن تھیں‘ جو اس وقت خاتون کے گارڈین تھے ۔ولایت خان‘ برنارڈ کے قائم کردہ صوفی آرڈر انٹرنیشنل کے سر براہ بنے ۔ عنایت خان کا کنبہ روس میں رہتا تھا ۔پہلی عالمی لڑائی چھڑنے سے پہلے وہ سب نقل مکانی کرکے انگلستان چلے گئے‘ جہاں نور نے لندن کے مشہور علاقے نو ٹنگ ہل میں سکول جانا شروع کیا۔ 1920ء میں یہ کنبہ فرانس منتقل ہوا جہاں عنایت خان کے ایک فرانسیسی مرید نے انہیں ایک مکان تحفے میں دیا۔ نور نے پیرس کی مشہور یونیورسٹی سوبورن میں اپنی تعلیم مکمل کی اور ساتھ ساتھ یکساں شہرت یافتہ ایک اکیڈیمی میں موسیقی کا درس لیا۔ اس نے اپنے کیریئر کا آغاز شعر کہنے اور بچوں کے لئے کتابیں لکھنے سے کیا اور فرانسیسی جریدوں اور ریڈ یو کی باقاعدہ مصنفہ بن گئیں۔ 1927ء میں عنایت خان کا انتقال ہوا تونور اپنی غمزدہ ماں اور بھائی بہنوں کی کفالت کرنے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ نو عمری میں وہ خاموش طبع‘ شرمیلی‘ حساس اور خواب دیدہ سمجھی جاتی تھی۔1939ء میں اس کی کتاب ''بیس جاتکا کہانیاں‘‘ شائع ہوئی جو بدھ مت کی روایت کے مطابق تھی۔دوسری جنگ عظیم شروع ہونے پر جب نازی جرمنی نے فرانس پر قبضہ کر لیا تو خاندان جان بچا کر سمندر کے راستے انگلستان پہنچا ۔گو نور اپنے والد کی ''آہنسا پرمو دھرما‘‘ یا امن کی تعلیمات سے متاثر تھی‘ اس لیے اس نے نازیوں کو شکست دینے میں مدد فراہم کرنے کا تہیہ کر لیا۔ برصغیر کے مسلمانوں اورغیر مسلم اکثریت نے بھی اس امید پر اتحادیوں کی حمایت کی تھی کہ فتح کی صورت میں انہیں آزادی مل جائے گی۔ نور برطانوی فوج میں بھرتی ہوئی۔ اسے ریڈیو آپریٹر کی حیثیت سے مقبوضہ فرانس بھیجا گیا۔ انگریزی اس کی مادری زبان تھی‘ روسی اس نے بچپن میں سیکھی تھی‘ فرانسیسی اس نے کالج میں پڑھی تھی اور باپ کی ابتدائی زبان ہونے کی وجہ سے وہ اردو میں بھی کچھ شد بد رکھتی تھی۔ اب وہ ایک مکمل جاسوس تھی ۔ بالآخر وہ تھرڈ رائخ کے علمبردار نازیوں کے ہتھے چڑھ گئی۔ اسے ایک ''کیمپ‘‘ میں ڈالا گیا اور سرسری کارروائی کے بعد گولی مار دی گئی ۔بیشتر معلومات انٹر نیٹ پر بکھری ہوئی ہیں اور فلم بھی دستیاب ہے ۔
یہاں وارنر تھیٹر میں ڈاکو ڈراما دیکھنے کے بعد ربی مارک شنائر نے کہا: جب میں داشو گیا تو میں نے نور اور اس جگہ تکلیف اٹھانے والے دیگر افراد کے لئے دعا کی اور اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (ISNA) کے صدر امام محمد مجید بولے: یہ اس معمے کا ایک ٹکڑا ہے‘ جسے عالمی جنگ کی بیشتر کہانیوں میں جگہ نہیں دی گئی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved