ریڈیو پاکستان ایک ایسا باوقار ادارہ رہا ہے کہ اس کو ہماری قومی زندگی کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود کہ اس پر ہمیشہ ہی سے حکومت کا مکمل کنٹرول رہا ہے‘ اس ادارے کی ثقافتی‘ سماجی اور تمدنی سطح پر بے پایاں اہمیت رہی ہے۔
ریڈیو پاکستان کا مقررہ وقت پر نشریات کا آغاز کرنا اور پھر اپنے شیڈول کے مطابق پروگرام نشر کرنا ایک ایسی بات تھی جو سب کو معلوم تھی۔ پندرہ دنوں کے پروگرام پہلے سے اس ادارے کے رسالے ''آہنگ‘‘ میں چھپ جاتے تھے اور بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ اس میں کوئی تبدیلی ہو؛ تاہم اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کبھی کبھار کوئی تبدیلی کرنی بھی پڑ جاتی تو باقاعدہ معذرت نشر کی جاتی تھی اور پھر انائونسر کی آواز آتی تھی کہ معزز سامعین !آپ چھپے ہوئے پروگرام کی جگہ اب یہ پروگرام سنیے۔ اس طرح متبادل پروگرام کا اعلان کیا جاتا تھا۔
پروگراموں کی کوالٹی پر تو توجہ رہتی ہی تھی‘ ریڈیو پر نشر ہونے والی زبان میں صحتِ لفظی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ ریڈیو پر جس لفظ کا جو تلفظ نشر ہوتا تھا اس کو سند باور کیا جاتا تھا۔ ریڈیو پاکستان کے لاہور اور کراچی جیسے بڑے بڑے سٹیشنوں پر صاحبِ علم لوگ محض تلفظ درست کرنے کے کام پر ملازم ہوتے تھے۔ اتنے اہتمام کے بعد ریڈیو نے جن اوقات میں پروگرام نشر کرنے ہوتے تھے ۔کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان اوقات میں ریڈیو پروگرام نشر نہ ہوں گے۔ اگر کسی ناگزیر فنی خرابی کی وجہ سے نشریات میں چند سیکنڈ کا وقفہ بھی آ جاتا تو انائونسر نشریات بحال ہونے کے ساتھ ہی پہلے معذرت نشر کرتا تھا۔
اس درخشاں ماضی کے ساتھ آج ریڈیو پاکستان کی حالت یہ ہے کہ گھنٹوں اس کی نشریات بند رہتی ہیں اور سامعین اپنے ریڈیو سیٹ کی سوئیاں گھماتے رہتے ہیں مگر خاموشی کے علاوہ انہیں کچھ سنائی نہیں دیتا۔ وجہ اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ جنریٹرز میں ڈیزل ڈالنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جب لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ،ٹرانسمیٹرز کی بجلی بھی بند ہو جاتی ہے۔ نشریات کو بحال رکھنے کے لیے انتظام ہوتا ہے کہ ٹرانسمیٹرز پر جنریٹرز کو چلا دیا جاتا ہے اور جب تک بجلی غائب رہتی ہے ۔جنریٹرز کی بجلی سے نشریات جاری رکھی جاتی ہیں۔
آج کل اس ادارے کے پاس مالی وسائل کی اس قدر کمی ہے کہ نشریات کو تسلسل کے ساتھ چلانے کے اپنے بنیادی فرض کو پورا کرنے کے لیے بھی فنڈز نہیں ہیں۔ لہٰذا ڈیزل فراہم نہیں ہو رہا اور گھنٹوں نشریات بند رہتی ہیں۔ ہم شہری لوگ چونکہ ریڈیو پاکستان کی نشریات کم ہی سنتے ہیں اس لیے یہ بظاہر ہمارا مسئلہ نہیں معلوم ہوتا۔ اسی لیے آپ کو اس سلسلے میں کوئی صدائے احتجاج بھی سنائی نہیں دیتی۔ جو لوگ نشریات کے اس قتل عمدسے متاثر ہوتے ہیں وہ ہمارے دیہات کے رہنے والے لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جن تک ایف ایم اور کیبل ٹی وی نشریات کی رسائی انتہائی محدود ہے اور وہ لوگ قومی زندگی کے ساتھ محض ریڈیو پاکستان یا کسی حد پاکستان ٹیلی وژن کے ہوم سٹیشنوں کے ذریعے منسلک رہتے ہیں۔
پاکستان کی اس آبادی میں اگر سروے کرایا جائے تو وہ غالباً طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنوں سے بھی زیادہ واقفیت نہ رکھتے ہوں گے کیونکہ پی ٹی وی ہوم اور ریڈیو پاکستان دونوں پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہے اور ان پر حکومت مخالف ان دھرنوں کا ذکر اگر ہوتا بھی رہا ہے تو زیادہ تر اِن دھرنوں کی مذمت ہی کی جاتی رہی ہے۔
عمران خان اگر اس بارے میں ریسرچ کرائیں کہ اگست کے وسط میں ان کے دھرنے میں افراد کی تعداد اُن کی توقعات سے اتنی کم کیوں رہی تو ممکن ہے ایک نتیجہ یہ بھی نکلے کہ ملک کی کثیر دیہی آبادی تک تو اُن کا پیغام تک نہیں پہنچا اور دھرنے کے دوران جو خان صاحب نے سینکڑوں تقریریں کی ہیں وہ بھی زیادہ تر شہری آبادی تک ہی پہنچ پائی تھیں۔
بہرحال بات ہو رہی تھی ریڈیو پاکستان کی ناگفتہ بہ صورتحال کی۔ ہمارے حکمران جس طرح ملک کے دیگر مسائل سے بوجوہ
غافل رہے ہیں ،اسی طرح ریڈیو پاکستان کی تباہ ہوتی ہوئی صورتحال پر بھی ان حکمرانوں کی بظاہر کوئی توجہ نہیں ہے۔ بھلا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنا بڑا ایک قومی ادارہ ہے جو غالباً سالانہ تین سو کروڑ سے زیادہ کا بجٹ رکھتا ہے مگر اس کے پاس جنریٹرز کے ڈیزل کے لیے پیسے نہیں ہیں؟ نتیجہ یہ ہے کہ قوم کے پورے تین سو کروڑ ہی ضائع ہو رہے ہیں۔ یعنی اگر آپ کی نشریات گھنٹوں بند رہتی ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیزل فراہم نہ کرنے کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کے اوقات میں جو ٹرانسمیٹرز بند رہتے ہیں تو پندرہ سے بیس فیصد تک پروگرام سامعین تک نہیں پہنچتے۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر چلتے چلتے آپ کا پروگرام درمیان میں بند ہو جائے گا اور پھر گھنٹے دو گھنٹے تک بند ہی رہے گاتو پھر سامعین کہاں رہیں گے۔ ریڈیو سننے والے کسی کے ملازم تو نہیں ہیں کہ وہ گھنٹوں کے وقفے کے بعد پھر وہیں بیٹھے ریڈیو سن رہے ہوں گے۔ یہ ایسی شرمناک صورتحال ہے جس کا حکمرانوں کو ادراک ہونا چاہیے۔
ویسے تو ہم نے اپنی قومی زندگی کے اکثر شعبوں میں دیہی آبادیوں کو نظرانداز کر رکھا ہے لیکن ان تک نشریات فراہم کرنے کے اس غریب پرور وسیلے یعنی ریڈیو نشریات کو نظرانداز کرنا تو اس بات کے مترادف ہوگا کہ ہم ان غریبوں کو پرکاہ کے برابر اہمیت بھی نہیں دیتے۔
ریڈیو پاکستان کے مسائل بہت ہیں۔ اس ادارے میں ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی پر ہی سالانہ بجٹ کا بیشتر حصہ خرچ ہو جاتا ہے ۔اس کے بعد بجلی کے بل جو کافی بھاری ہوتے ہیں وہ ادا کرنے ہوتے ہیں‘ ٹرانسپورٹ اور سٹاف کو طبی سہولتیں دینے کے اخراجات ہوتے ہیں۔ ان سب کے بعد پروگراموں کی فیس کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے حالانکہ بنیادی کام تو ریڈیو کا پروگرام نشر کرنا ہے مگر پروگراموں کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان مصائب کے ہوتے ہوئے اب لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جنریٹرز میں ڈیزل کا مسئلہ آیا ہے تو ریڈیو کے ارباب بست و کشاد اس قدر بے بس دکھائی دیتے ہیں کہ ریڈیو کی بنیاد ہی ختم کر رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ کیا وہ اس قومی ادارے کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ ریڈیو پاکستان کی نشریات کو گھنٹوں بند رکھنا اس ادارے کا گلہ گھونٹنے کے مترادف ہے۔
ہمارے وزیر اطلاعات و نشریات محترم پرویز رشید صاحب ایک زمانے میں ریڈیو اور ٹی وی کارپوریشنوں کے براہ راست چیئرمین بھی رہے ہیں۔ وہ ان اداروں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ اگر یہ بات ان کے علم میں ہے کہ ریڈیو کی نشریات ڈیزل کی عدم فراہمی کے سبب گھنٹوں بند رہتی ہیں اور ریڈیو کے سامعین حیران و پریشان ہونے کے ساتھ دل برداشتہ بھی ہیں‘ تو یہ انتہائی افسوسناک بات ہوگی۔ لیکن اگر اس بات کا اُن کو بوجوہ علم نہیں ہے ہماری معروضات اگر ان تک پہنچ سکیںتوان کو فوراً کوئی عملی قدم اٹھانا چاہیے۔