کالم‘ جنرل حمید گل صاحب کے ایک ایس ایم ایس سے شروع کر رہا ہوں۔
"Dear Naji Sb. You have overlooked Quaid's rejection of Akbar's model of tolerance during Mountbatten's address to the constituent assembly on 14th August 1947. He categorically preferred the model of Prophet Muhammad (SAW).
We need to approach the problem differently. Needs long discussion. Solution lies in the Quran. Here is an authentic quote on Sharia:
In giving an overall evaluation of what the Sharia is about, the 14th century scholar Ibn Qayyim al-Jawziyya stated that: "The essence and basis of Sharia is wisdom and benefits for people in this world and the next. It is all justice, all mercy, all benefits, and all wisdom. Every application that goes from justice to oppression, from mercy to its opposite, from benefit to harm, and from wisdom to frivolity then it is not from Sharia-- even if (someone) tries to interpret it as such" Regards. Gul
کالم اسی ماہ یکم تاریخ کو شائع ہوا تھا۔ میں اس موضوع پر اظہار خیال کر رہا تھا کہ پاکستانی تاریخ کو ہر اعتبار سے مسخ کیا گیا ہے۔ تاریخی سچائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے چند مثالیں پیش کی تھیں اور عرض کیا تھا کہ برصغیر میں‘ فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات کا پرانے زمانے میں کوئی وجود نہ تھا۔ میں نے اشوک سے لے کر اکبر تک‘ کے ادوار کا ذکر محض اس حوالے سے کیا کہ ان کے زمانے میں نہ تو مذہبی فسادات ہوا کرتے تھے اور نہ ہی فرقہ وارانہ۔ میں نے صرف اتنی بات کے لئے‘ مہاراجہ اشوک سے اکبر تک کے زمانوں‘ کا سرسری حوالہ دیا۔ میں ابھی تک سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جنرل صاحب نے اپنے پیغام میں مجھے کیا ہدایت کی ہے؟ میں قائد اعظمؒ کے تصور اور قرآن حکیم کے زیر ہدایت مسائل کو کس طرح دیکھا کروں؟ انہوں نے ابن قیّم الجوزیہ کا ایک اقتباس تحریر فرمایا۔ وہ بنیادی طور پر سنی فقہ کے مفتی تھے‘ یعنی اسلام میں بھی ایک فقہ کے سکالر۔ میں قائد اعظمؒ کے افکار کے حوالے سے‘ ایک فقہ کی تعلیمات کے آئینے میں‘ قائد اعظمؒ کے پاکستان کو کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ وہ جب بھی اسلامی نظام کا حوالہ دیتے تو ان کے پیش نظر‘ قرآن اور اللہ کے رسول محمد مصطفیﷺ کے فرمودات ہوتے۔ وہ اپنے آپ کو کسی فرقے میں شمار نہیں کرتے تھے۔ ان سے جب اس موضوع پر سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ''میں شیعہ ہوں نہ سنی‘ صرف مسلمان ہوں۔ قرآن اور اللہ کے رسول محمد مصطفیﷺ پر ایمان رکھتا ہوں‘‘۔ ایسے لیڈر کے تصورات پر بات کرتے ہوئے‘ ہم صرف ایک فقہ کے مفتیوں سے ہدایت نہیں لے سکتے۔ لیکن جنرل صاحب کا جو اقتباس میرے سامنے ہے‘ وہ آفاقی اقدار پر مبنی ہے‘ اسے کسی بھی جیورسٹ کے حوالے سے لکھا جا سکتا ہے۔ میں تو اس پر بحث ہی نہیں کرتا کہ قائد اعظمؒ کیا چاہتے تھے؟ پاکستان کے تاریخ نویسوں‘ محققوں اور قائد اعظمؒ کے نام پر داستان طرازی کرنے والوں کو پڑھ کر مزید کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہوں۔ میں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں ہندو‘ مسلم اور سکھوں کے جو باہمی فسادات کرائے گئے‘ ان کے پس منظر سے بھی اچھی طرح واقف ہوں‘ اسی لئے میں نے اشوک سے اکبر تک‘ کے زمانوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ان کے زمانوں میں مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات کا وجود نہیں ملتا۔ شاہی درباروں میں ہندو مسلم کی کوئی تمیز نہیں تھی۔ کوئی بھی شہری‘ ہر طرح کے مذہبی اور عقائد کی بنیاد پر‘ دبائو سے محفوظ تھا۔ جس کا دل جیسے چاہتا‘ وہ اپنے معبود اور اپنے انبیاء کی تعلیمات پر‘ آزادی سے عمل کرتا۔ برصغیر میں مذہبی منافرت کی ابتدا اورنگزیب نے کی اور اس کا سیاسی استعمال انگریزوں نے کیا۔ انگریز نے دو بڑی مذہبی جماعتوں یعنی ہندو اور مسلمانوں میں‘ نفرت کی دیواریں کھڑی کر کے ''تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے اصول پر‘ سامراج کی حکمرانی کو مضبوط کیا۔ میں نے پاکستان کی تاریخ کو اپنی سرزمین کی مجموعی تاریخ کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے‘ لکھا تھا کہ ہمارے اس خطے میں مذہبی منافرت‘ موجود نہیں تھی۔ مہاراجہ اشوک کا زمانہ 232 سے 269 قبل از مسیح تک کا ہے۔ گویا ظہور اسلام سے 778 سال پہلے۔ یہ میرے وطن کی تاریخ ہے۔ جب اسلام نہیں آیا تھا‘ ان گزرے زمانوں کا میں کیا کروں؟ میں نے مثال بھی دی تھی کہ خالق کائنات اللہ تعالیٰ‘ نے بھی اپنے کلام میں‘ دور نبویﷺ سے پہلے کی تاریخ کے بھی حوالے دیئے ہیں۔ جو کام اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام میں کیا ہے‘ میں اسے نظر انداز کرنے کی گستاخی کیسے کر سکتا ہوں؟ تاریخ کو اللہ کے کلام کی روشنی میں دیکھنا ہی‘ میرے لئے لازم ہے اور اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے‘ ہمیں اپنی تاریخ کا سلسلہ اس وقت سے شروع کرنا چاہئے جب سے ہمیں اس کا علم ہے۔
قرآن حکیم میں آفاقی سچائیاں بیان کی گئی ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظمؒ محمد علی جناح‘ انتہائی عالم فاضل انسان تھے۔ تاریخ اور قانون کا وسیع علم رکھتے تھے۔ انہوں نے فرقہ واریت سے ہمیشہ لاتعلقی ظاہر کی اور ان کی عملی زندگی بھی‘ غیر فرقہ وارانہ تھی۔ موجودہ پاکستان میں‘ جسے ہمارے مذہبی سیاست دانوں نے نہ صرف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے بلکہ ہمیں اپنی تاریخ سے بھی منحرف ہو جانے کی تلقین کی جاتی ہے‘ دوسرے فرقے کے‘ خدا اور رسول پر یقین رکھنے والوں کے قتل کو‘ جائز ہی نہیں‘ واجب قرار دیا جاتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ اب مسلمانوں کی دو خلافتیں بھی سامنے آ چکی ہیں۔ ایک خلیفہ تو خود جنرل حمید گل صاحب کے تیارکردہ‘ طالبان میں سے برآمد ہوئے ہیں اور حال میں بننے والے خلیفہ ابوبکر البغدادی‘ اپنی علیحدہ خلافت قائم کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ دونوں خلفاء‘ اپنے مسلمانوں بھائیوں کے ساتھ‘ جو سلوک کرتے ہیں‘ اسے دیکھ کر میں تو کبھی ان کی بیعت قبول نہیں کروں گا اور وہ بھی مجھے زندہ رہنے کا حق دینے کو تیار نہیں ہوں گے۔ وہ اسلام کی جو تشریح کرتے ہیں‘ کیا میں اسے قبول کر لوں؟ اور خدانخواستہ قبول کر لوں تو پھر میں کرتا کیا پھروں گا؟ ابوبکر البغدادی صاحب تو مقبوضہ علاقوں کی پوری آبادی کے مردوں اور بچوں کو‘ قطار میں لگا کر گولیوں سے اڑا دیتے ہیں اور عورتوں کی منڈیاں لگاتے ہیں۔ گزشتہ روز میں نے ایک ٹی وی چینل پر خلیفہ ابوبکر البغدادی کے پیروکاروں کو‘ بازارِ نسواں کے اعلانات کرتے سنا‘ وہ بتا رہے تھے کہ وہ مقبوضہ علاقوں کی کافر عورتوں کی منڈی لگائیں گے‘ خریدار حضرات بولی دینے کے لئے فلاں وقت اور فلاں مقام پر پہنچ جائیں۔ مذکورہ خلیفہ اور ہمارے‘ ان مذہبی سیاست دانوں میں فرق کیا ہے؟ جو خود قتل و غارت گری کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ جو غیر مسلم لڑکیوں کو اغوا کے بعد‘ جبراً تبدیلی مذہب پر مجبور کر کے‘ بیویاں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں اور چند روز پہلے‘ ایک عیسائی جوڑے کو اسلام کے نام پر قتل کر کے‘ دہکتے ہوئے بھٹے میں‘ پھینک کر بھون ڈالا گیا اور مقتولہ کے پیٹ میں اس چار ماہ کے بچے کو بھی جلا دیا گیا جو یقینی طور پر مقتولہ کے پیٹ میں زندہ ہو گا۔ میں ان مسلمانوں کا ساتھی کیسے بنوں؟ جو نیم غلام غیر مسلم جوڑے کو‘ ایک رسہ گیر‘ بھٹہ مالک سے واجبات مانگنے کے جرم میں‘ قتل کرنے کے نعرے لگائے کہ ''اس ان پڑھ جوڑے نے‘ قرآن مجید کے اوراق کی بے حرمتی کی ہے‘‘۔ غیر مسلموں پر جھوٹے الزامات لگا کر‘ جس طرح انہیں بنیادی انسانی حقوق سے میرے ملک میں محروم کیا گیا ہے‘ اس کا اسلامی تعلیمات سے کیا واسطہ۔
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود؟
جنرل صاحب! اس درندہ صفت اور بے رحم معاشرے کے لئے‘ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا مانگیں۔ یہ معاشرہ اس قابل نہیں کہ اس کے سامنے قائد اعظمؒ کے تصورِ پاکستان کا ذکر کیا جائے یا ان آفاقی سچائیوں کا جن کا آپ نے‘ اپنے پیغام میں حوالہ دیا ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ اور صحابہ کرام ؓ تو مقدس اور برتر ہستیاں ہیں‘ ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ علامہ اقبال‘ قائد اعظمؒ کے نام اپنی زبان پر لائیں۔