تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     09-11-2014

پاک بھارت بات چیت کب شروع ہو گی؟

نریندر مودی نے جس دن وزیر اعظم کا حلف اٹھایا‘ اس روز ایسا لگ رہا تھا کہ جنوبی ایشیا میں ایک نیا آفتاب طلوع ہو رہا ہے اور 67 سال سے اس خطے کے پاؤں میں پڑی بیڑیاں اب ٹوٹنے ہی والی ہیں۔ جنوبی ایشیا کی خوش حالی کے راستے میں سب سے بڑا روڑا ہے پاک بھارت تعلقات۔ یوں تو دوسرے پڑوسی ملکوں کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات نرم گرم ہوتے رہتے ہیں‘ لیکن ان کے ساتھ دشمنی یا جنگ کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ اس بار تمام تر مخالفت کے باوجود پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا ہمارے وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شامل ہونا‘ اس بات کا ثبوت تھا کہ پاک بھارت تعلقات کے اچھے دنوں کا آغاز ہو گیا ہے۔
لیکن پچھلے چار پانچ مہینوں سے ایسا ماحول بن گیا کہ خدشہ ہے‘ کہیں اس کا کالا سایہ اگلے پانچ برسوں تک نہ پھیل جائے۔ ہمارے وزیر دفاع ارون جیٹلی نے اپنی تقریر میں ابھی ابھی ایک لکشمن ریکھا کھینچ دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حریت کے لوگوں سے بات کرنا‘ لکشمن حد کی خلاف ورزی ہے‘ ان سے نہ بھارت بات کرے‘ نہ پاکستان۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے حریت رہنمائوں سے ملاقات کر لی‘ تو ہم نے اپنے خارجہ سیکرٹری کا اسلام آباد کا دورہ منسوخ کر دیا۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے اس بگڑی بات کو بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی میں کبھی فل اسٹاپ نہیں آتا ‘چھوٹے اسٹاپ آتے ہیں‘ چلے جاتے ہیں۔ لیکن وزیر دفاع پھر کود پڑے۔ انہوں نے دوبارہ فل اسٹاپ کر دیا۔ بھارتی وزیر دفاع کے خارجہ پالیسی بیان کا پاکستانی ترجمان نے منہ توڑ جواب نہیں دیا‘ لیکن انہوں نے جو جواب دیا‘ اسے منہ توڑ ضرور مانا جا سکتا ہے۔ پاکستانی ترجمان نے پوچھا ہے کہ جب ایک ملک دوسرے ملک سے کسی معاملے پر بات کرتا ہے‘ توکیا وہ اس پر مہربانی کرتا ہے؟
مہربانی کا یہ طریقہ ہی بھارت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پڑوسی ملکوں کی بہتری کے لئے بھارت کیا کیا قربانیاں نہیں دیتا، لیکن کچھ بھارتی لیڈروں اور سفیروں نے جانے انجانے پڑوسی ملک میں غلط فہمی پیدا کر دی ہے۔ اگر ارون جیٹلی اپنی پالیسی کا اظہار نہ کرتے تو مجھے پورا یقین ہے کہ پاک بھارت مذاکرات پھر شروع ہو سکتے تھے۔ اس مہینے کھٹمنڈو میں ہونے والی سارک کانفرنس میں دونوں ملکوں کے سربراہ ملتے اور خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت کا ٹُوٹا تار جڑ جاتا۔ اگر اب بات چیت شروع ہوتی تو کیا پاکستانی ہائی کمشنر دوبارہ حریت کانفرنس کے رہنمائوں سے ملتے؟ اگر اگست میں ہونے والی یہ بات چیت جاری رہتی تو کیا ستمبر اور اکتوبر میں ہونے والی گولا باری اتنی لمبی چلتی؟ دونوں طرف کے درجنوں لوگ مارے گئے‘ سرحد کے قریبی گائوں خالی ہو گئے اور دونوں ملکوں کے لیڈر زبانی جمع خرچ کرتے رہے۔ اگر دونوں ملکوں کے بیچ 'ان بولا‘ نہ ہوتا تو دونوں وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ کو آپس میں بات کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی‘ ان کے مقامی فوجی افسر ہی سارے معاملے کو سلجھا لیتے۔
سرحدی جھڑپوں نے دونوں ملکوں کے عوام کے دل کھٹے کر دیے۔ اسی ماحول میں دونوں ملکوں کے لیڈر اقوام متحدہ بھی گئے۔ وہ سنہری موقع بھی کھو دیا گیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا۔ مودی نے ردعمل ظاہر نہیں کیا‘ لیکن مہاراشٹر کے چنائو میں دشمن کو سبق سکھانے کی بات کی۔ اگر سرحد پر جھڑپیں نہ ہوتیں اور آپسی بات چیت چلتی رہتی توکیا دونوں ملکوں کے لیڈر یو این میں نہ ملتے؟
جون میں جب میں پاکستان میں وزیر اعظم نواز شریف‘ مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز اور خارجہ سیکرٹری چودھری اعجاز احمد سے ملا‘ تو تینوں نے مجھ سے کہا کہ نریندر مودی اگر ستمبر یا اکتوبر میں کسی وقت پاکستان کا دورہ کر سکیں تو بہت اچھا ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ کھٹمنڈو میں سارک کانفرنس سے پہلے ہی دونوں ملکوں کے بیچ تنازع سلجھ جائے‘ پاکستانی پنجاب کو بھارت بجلی سپلائی کر دے اور بھارتی مال کی مغربی ایشیا اور یورپ تک زمینی راستے سے رسائی ہو سکے۔ ان تینوں کے علاوہ پاکستان کے جتنے بھی لیڈروں‘ فوجی حکام اور ماہرین سے میں ملا‘ ان سے کہا کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد اس ملک میں پاک بھارت تعاون کا کوئی نقشہ تیار کریں۔
کیا ہم نے سوچا کہ اگر پاک بھارت بات چیت بہانے سے منسوخ نہ ہوتی‘ تو پچھلے پانچ مہینوں میں دونوں ملک شاید اتنا سفر طے کر لیتے‘ جتنا پچھلے پچاس سال میں بھی نہیں ہوا تھا۔ نریندر مودی کی جانب پاکستان کا بدلا ہوا رخ دیکھ کر مجھے پُرمسرت حیرت ہو رہی تھی۔ اپنی درجنوں ملاقاتوں‘ تقاریر اور ٹی وی مباحثوں میں مَیں نے مودی کے لیے کافی نرمی دیکھی تھی‘ جو ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ اس وقت پاکستان میں کسی کی ہمت نہ تھی کہ مودی اور بھارت کو لے کر کوئی ایسی بات کہے‘ جیسی جماعت الاحرار کے لیڈر احسان اللہ احسان نے ابھی واہگہ حملے کے بعد کہی ہے۔ احسان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت مودی سے گجرات اور کشمیر کے مسلمانوں کے قتل کا بدلہ ضرور لے گی۔ اگر دونوں سرکاروں میں ان بن نہ ہوتی‘ تو دونوں مل کر ایسی دھمکیوں کے خلاف متحد ہو کر مشن چلاتے۔ جماعت الاحرار کے دہشت گردوں کو یہ اندازہ نہیں کہ اگر مودی کا کسی نے بال بھی اکھاڑا تو آسمان کیسے پھٹے گا، زمیں کیسے اندر دھنس جائے گی۔ مذہب کے نام پر ایسی حرکتیں کرنے والے لوگ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ثابت ہوں گے۔ اپنے آپ کو طالبان کہنے والے ان دہشت گردوں کی غیر اسلامی کارروائی کا نقصان اور کسی کو نہیں، بے قصور مسلمانوں کو ہی ہو گا۔ گودھرا سانحہ جنہوں نے کیا انہیں آج تک سزا نہیں ہوئی، لیکن لاکھوں بے قصور گجراتی مسلمانوں کو اس کا نقصان ہوا۔ ایسے باتیں نہیں کی جانی چاہئیں‘ جو تنازعات کو ہوا دینے کا باعث بنیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت پاک بات چیت جاری رہے۔
اب بھارت اور مودی کی باری 
طالبان نے واہگہ پربم بلاسٹ کیا‘ کئی لوگ مارے گئے‘ کئی زخمی ہوئے۔ مجھے افسوس ہوا لیکن حیرت بالکل نہیں‘ کیونکہ پاکستان میں اس سے بھی زیادہ خطرناک واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ واہگہ پر خود کش بمبار لانے والے اُس طرف کی بجائے اِس طرف بھیج دیتے‘ لیکن جو بات سب سے زیادہ فکر کی ہے‘ وہ یہ ہے کہ واہگہ کے بم بلاسٹ کی ذمہ داری قبول کرنے والے دہشت گرد گروہ نے دھمکی دی ہے کہ ابھی تو اس نے واہگہ کو نشانہ بنایا ہے لیکن وہ جلد ہی بھارت پر اپنا قہر ڈھائے گا اور 'مسلمانوں کے دشمن‘ نریندر مودی کو سبق سکھائے گا۔
ظاہر ہے کہ میاں نواز سرکار اس بیان کی سختی سے مذمت کرے گی‘ کیونکہ یہ لوگ جتنے برے نریندر مودی کے لئے ہیں‘ اس سے زیادہ نواز شریف کے لئے ہیں۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی سرکار اور فوج نے ان دہشت گردوں کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ رکھی ہے جس میں سینکڑوں دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔ اس کے بیان سے بھارت سرکار زیادہ ہوشیار ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ اگر دہشت گرد اپنے غلط منصوبے میں کامیاب ہو گئے تو آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ اگر مودی کو کچھ ہو گیا تو ان طالبان کی وجہ سے دنیا کے تمام مسلمانوں کو اتنا نقصان اٹھانا پڑے گا جتنا انہوں نے صدیوں میں نہیں اٹھایا ہو گا۔ اسلام تو امن کا مذہب ہے۔ اس کے نام پر قتل و غارت گری کرنا کیا کافرانہ حرکت نہیں؟ بہتر یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی سرکاریں‘ فوجیں‘ جاسوس ایجنسیاں آپس میں مل بیٹھیں اور دہشت گردوں کے خاتمے کا مضبوط حل ڈھونڈیں۔ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے کچھ سمجھدار لوگ طالبان کے ساتھ رابطہ قائم کریں‘ خطرہ مول لیں اور پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں‘ ٹھیک نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved