تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-11-2014

خالصہ انصاف کا جدید تصور

ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنا ختم کرنے کا اعلان اور عمران خان کے سراج الحق پر غصہ نکالنے کے واقعات اس وقت پیش آئے جب میں علی الترتیب لاس اینجلس اور اٹلانٹا میں تھا۔ صبح صبح میں اور شفیق لائونج میں بیٹھے تھے جب یہ ''بریکنگ نیوز‘‘ طاہرالقادری کے حواریوں اور مریدوں پر بجلی بن کر گری۔ تھوڑی دیر بعد اس پر مختلف ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں بحث شروع ہو گئی۔ دھرنا ختم کرنے کے حق میں ایسی ایسی تاویلات سننے کو ملیں کہ سن کر دل خوش ہو گیا۔ جہاں ڈاکٹر طاہرالقادری کی ٹیم کی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی صلاحیت پر رشک آیا‘ وہیں ان کی اپنے قائد سے بے لوث وفاداری اور اندھی تقلید پر افسوس بھی ہوا۔ صرف دو دن پہلے شفیق کہہ رہا تھا کہ اگر اس بار طاہرالقادری صاحب نے دھرنا اسی طرح ختم کردیا جس طرح پہلے اسلام آباد میں ختم کیا تھا تو ان کی گیم مکمل ختم ہو جائے گی۔ میں نے شفیق کو بتایا کہ یہ اس کی غلط فہمی ہے کہ اگر اس بار بھی ڈاکٹر طاہرالقادری مشکوک انداز میں دھرنا ختم کر کے اسلام آباد سے رخصت ہو گئے تو ان کے مرید انہیں چھوڑ دیں گے یا آئندہ ان کی کال پر نہیں آئیں گے‘ اس قبیل کے سبھی مریدین عقل و خرد سے عاری اور تقلید محض کے قائل ہوتے ہیں‘ آپ انہیں بیسیوں بار بلائیں‘ وہ بیسیوں بار چلے آئیں گے۔ شفیق میری بات سے متفق نہ تھا۔ 
وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ اب ان قبروں کا کیا بنے گا جو طاہرالقادری صاحب نے کھدوائی تھیں؟ ان کفنوں کا کیا بنے گا جو منگوائے تھے اور اس فتوے کا کیا بنے گا جو انہوں نے اسلام آباد سے بغیر انقلاب لائے رخصت ہونے والوں کے بارے میں دیا تھا؟ میں نے اسے بتایا کہ انہوں نے نہایت تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ قبریں نہیں کھدوائی تھیں‘ ایک آدھ قبر کھدوائی تھی‘ امید ہے وہ گڑھے اب تک غلاظت سے بھر چکے ہوں گے‘ بصورت دیگر سی ڈی اے والے کس مرض کی دوا ہیں؟ رہ گئے کفن! تو عزیزم اس کی سفید شلوار قمیض بن سکتی ہے۔ رہ گئی تمہاری آخری بات فتوے والی۔ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ اپنے کسی دوسرے فتوے سے پہلا فتویٰ فسخ کردیں گے۔ اللہ اللہ خیر سلا! 
اب خیر سے طاہرالقادری عازم امریکہ ہیں۔ میں نے ایک دو اخبارات میں ان کا اشتہار دیکھا ہے۔ نیویارک اور ہیوسٹن میں استقبالیہ کے لیے پورے پورے صفحے کے اشتہار چھپے ہوئے تھے۔ ابھی میں لاس اینجلس میں ہی تھا جب ڈاکٹر طاہرالقادری اپنا دھرنا لپیٹ کر ایبٹ آباد پہنچے۔ جلسے کے شرکا کی تعداد دیکھ کر میں نے شفیق سے پوچھا کہ اب اس کا کیا خیال ہے؟ شفیق کہنے لگا کہ وہ اپنے خیال کی ''خام خیالی‘‘ پر شرمندہ ہے اور میری اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے مریدین اپنی ذاتی سوچ اور اللہ کی عطا کردہ عقل کو استعمال کرنے سے مکمل پرہیز پر کاربند ہیں اور ایسے کسی بھی خیال پر چار حرف بھیجتے ہیں جس سے ان کی وفاداری اور تقلید پر حرف آنے کا اندیشہ ہو۔ 
شفیق پوچھنے لگا کہ آخر ایسا ہوا کیسے ہے؟ اچانک بیٹھے بیٹھے انسٹھویں دن طاہرالقادری صاحب کو کیا سوجھی کہ دن ڈھلے نہایت ہی غیر موزوں وقت پر دھرنے کے خاتمے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی ہدایت فرمائی کہ رات سے پہلے پہلے رخصت ہو جائو۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ آخری مرید کی روانگی تک وہاں ٹھہرنے کے بجائے وہ خود جھٹ سے رخصت ہو گئے اور گزشتہ اڑھائی ماہ سے اپنا تن من دھن نچھاور کرنے والوں کو بالکل بے یارومددگار چھوڑ گئے۔ میں نے کہا کہ میں اسے دو دن سے کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے سکرپٹ رائٹر کو اس کا اختتامیہ یعنی End بنانا نہیں آتا اور وہ آخر میں ''کھچ‘‘ مار دیتا ہے۔ گزشتہ دھرنے میں بھی یہی ہوا تھا اور اس بار بھی یہی ہوگا۔ دیکھ لو میں جو کہتا تھا وہی ہوا۔ اب آپ خود دیکھ لو۔ انسٹھ دن دھرنا دیا اور اچانک ہی بلا کسی پیشگی اطلاع کے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا‘ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے‘ اپنے پارٹی ورکروں اور اپنے پارٹی لیڈروں کو بتائے بغیر۔ ان کو اعتماد میں لیے بنا۔ 
میں اٹلانٹا میں تھا جب عمران خان نے سراج الحق پر گرمی کھائی۔ لاس اینجلس سے ہمہ وقت سیاست پر گفتگو کے شوقین شفیق کا فون آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا معاملہ ہے؟ میں نے کہا‘ برادرم جب سے لاس اینجلس سے آیا ہوں‘ ٹی وی دیکھنا موقوف کیا ہوا ہے۔ مجھے تو اس سارے واقعے کا سیاق و سباق بھی معلوم نہیں۔ شفیق نے ساری تفصیل بتائی۔ عمران خان نے غصے میں بیان دیا کہ سراج الحق پچ کے دونوں طرف نہ کھیلیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ عمران کے ساتھ کھڑے ہوں یا حکومت کے ساتھ۔ شفیق نے پوچھا کہ کیا سراج الحق تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں؟ میں نے کہا: عمران خان بادشاہ آدمی ہیں‘ خاص طور پر آج کل تو بالکل ہی شہنشاہی موڈ میں ہیں‘ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ 
برادر بزرگ پوچھنے لگے‘ سراج الحق نے کہا کیا ہے؟ میں نے کہا: ضروری نہیں کہ سراج الحق نے کچھ کہا ہو‘ خان صاحب کو کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی پر گرمی جھاڑنی ہوتی ہے‘ روزانہ کئی بار تقریر کرنا ہوتی ہے‘ کئی لوگوں کو لتاڑنا ہوتا ہے‘ کئیوں کی طبیعت صاف کرنی ہوتی ہے‘ کوئی نہ ملا تو دوستوں پر برس پڑے‘ دوستوں کو لپیٹ لیا۔ ایک سکھ ٹریفک مجسٹریٹ لگ گیا۔ اس نے شہر میں ''ات‘‘ مچا دی۔ حکم دیا کہ جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ان کے چالان کیے جائیں۔ دھڑا دھڑ چالان شروع ہو گئے۔ لوگوں نے لائسنس بنوا لیے۔ اب حکم دیا کہ گاڑیوں کے کاغذات چیک کیے جائیں۔ پھر چالان شروع ہو گئے۔ لوگوں نے کاغذات مکمل کروا لیے۔ اب مجسٹریٹ صاحب پھر فارغ ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر حکم دیا کہ گاڑیوں کی فٹنس چیک کی جائے۔ ایک بار پھر چالانوں کا دور دورہ ہو گیا۔ لوگوں نے تنگ آ کر گاڑیاں ٹھیک کروالیں۔ اب حکم جاری ہوا کہ نمبر پلیٹیں چیک کی جائیں اور جن کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں ان کا چالان کردیا جائے۔ بالآخر لوگوں نے نمبر پلیٹیں بھی ٹھیک کروالیں۔ مجسٹریٹ صاحب پھر فارغ ہو گئے۔ 
دو تین دن فارغ بیٹھے اور پھر تنگ آ کر حکم دیا کہ جو بھی پہلے دس عدد رکشے‘ ٹیکسیاں‘ کاریں‘ ٹرک یا بسیں نظر آئیں اس کا چالان کریں اور پکڑ کر عدالت میں لے آئیں۔ اہلکاروں نے بمطابق حکم پہلے دس رکشے‘ دس ٹیکسیاں‘ دس کاریں‘ ٹرک اور بسیں پکڑیں اور ڈرائیوروں کو عدالت میں پیش کردیا۔ مجسٹریٹ نے سب کو جرمانے کرنے شروع کردیے۔ ڈرائیوروں نے فریاد کی اور قصور پوچھا۔ سردار صاحب کہنے لگے: اب اگر آپ لوگ قصور کرنا چھوڑ دیں‘ تو میں انصاف کرنا بھی چھوڑ دوں؟ انصاف کا قصور کرنے سے کوئی تعلق نہیں‘ قصور کریں یا نہ کریں‘ انصاف تو ہوگا۔ 
لگتا ہے عمران خان بھی اسی قسم کا انصاف کر رہے ہیں۔ انہیں روزانہ کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ روزانہ کہیں نہ کہیں تقریر کرنی ہے۔ میاں صاحبان کی طبیعت صاف کرتے کرتے دل بھر گیا تو سراج الحق کی ٹکور کردی۔ بندہ ہر وقت صرف دشمنوں کو رگڑا لگاتے لگاتے تھک بھی تو جاتا ہے۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کسی نہ کسی کو تو چھیڑنا ہی ہوتا ہے‘ جیسے بعض اوقات ٹی وی اینکر کرتے ہیں۔ لیکن نشانہ کبھی کبھی چوک بھی جاتا ہے۔ یہی سراج الحق کے ساتھ ہوا ہے۔ عمران کو غصہ لیاقت بلوچ پر تھا اور شریف آدمی پر نکل گیا۔ بھول چوک میں کھا لینے سے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ یہ تو نسبتاً کم سختی والا معاملہ ہے۔ ویسے بھی انصاف بڑا نازک معاملہ ہے اور جاری و ساری رہنا چاہیے۔ قصور کا کیا ہے؟ ضروری نہیں کہ قصووار کو ہی انصاف سے نوازا جائے۔ انصاف کے چشمے سے ہر شخص کو فیض ملنا چاہیے۔ انصاف کا حصول ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ قصوروار یا بے قصور ہونا ثانوی معاملہ ہے۔ ویسے بھی جب خالص انصاف میسر نہ ہو تو ''خالصہ‘‘ انصاف سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved