اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور یہ مسلمانوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں کامل رہنمائی کرتا ہے۔ سیاسی، سماجی، تمدنی، آئینی اور معاشی مسائل اور معاملات میں جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں‘ وہاں اسلام نے کسی بھی مسلمان یا اسلامی معاشرے میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی مسلمانوں کی مکمل رہنمائی کی ہے۔
اس سلسلے میں پہلی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اسلام دعوتی اور تبلیغی مذہب ہے اور کسی بھی شخص کو جبراً دائرہ اسلام میں داخل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر256 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔ اس لیے اسلامی معاشرے میں حکمرانوں اور علما کو اقلیتوں کو جبراً مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور ان کی عبادت گاہوں، جانوں، مالوں اور عزت و ناموس کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک حکومت کی‘ لیکن اتنے طویل اقتدار کے باوجود اس خطے میں ہندوئوں کی اکثریت رہی۔ اس کے برعکس اندلس میں مسلمانوں کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ان کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی گئی اور ان کو ان کا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ عصرِ حاضر میں بھی دنیا کے کئی حصوں میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ برما میں مسلمانوں پر تاریخی ظلم ڈھائے گئے۔ مسلمان مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا۔ مساجد کو نذر آتش کیا گیا۔ ہجرت کی کوشش کرنے والے مسلمانوں کو بھی سرحدیں عبور کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ اس سارے قتل عام پر نہ تو عالمی ضمیر حرکت میں آیا اور نہ ہی انسانی حقوق کے اداروں اور انجمنوں نے ان واقعات پر خاطر خواہ احتجاج کیا۔ انگولا میں مسلمانوں کی مساجد کی تالا بندی کی جا چکی ہے اور مساجد میں جانا قانونی طور پر جرم قرار دیا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے بھی عالمی سطح پر کوئی قابل قدر سرگرمی نظر نہیں آئی۔
غزہ میں فلسطینی مسلمانوں پر جس طرح ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں‘ اس کی مثال پورے خطے میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ غیر مسلح نہتے مسلمانوں پر ٹینک چڑھائے جا رہے ہیں اور کوئی اسرائیل کو روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ کنکریوں سے اپنا دفاع کرنے والے مظلوم مسلمانوں پر دہشت گرد ی کا الزام لگا کر ان کے بنیادی انسانی حقوق بھی چھینے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں مسجد اقصیٰ میں گھس کر جس طرح یہودیوں نے مسلمانوں پر ظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑے ہیں‘ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان بھی طویل عرصے سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ وادی کشمیر کو غیر اسلامی، غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے جبراً بھارت سے منسلک رکھا جا رہا ہے۔ اہلِ کشمیر کے استصواب رائے کے جائز مطالبے کو کلی طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتیں یورپی ممالک میں اُٹھنے والی اس طرح کی تحریکوں کے جائز مطالبات پر فوری عمل کرتی اور کرواتی ہیں‘ لیکن مظلوم کشمیری مسلمانوں کی ہزاروں قربانیوں کے باوجود اس جائز مطالبے پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ اگر سکاٹ لینڈ میں استصواب رائے ہو سکتا ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں؟ عالمی طاقتوں کے ان دُہرے معیاروں کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان اضطراب اور احساس محرومی کا شکار ہیں۔
دنیائے اسلام میں اقلیتوں کے ساتھ معاملات غیر مسلم دنیا کے مقابلے میں ہر اعتبار سے بہت بہتر ہیں۔ دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں اقلیتوں کے جان، مال اور عزت کو اس درجے کے خطرات لاحق نہیں‘ جس طرح کے کئی غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو لاحق ہیں۔ پاکستان کا قیام اگرچہ ایک نظریاتی ریاست کے طور پر عمل میں لایا گیا‘ لیکن اس کے قیام کے وقت مسلمان اکثریت کو بنیادی حقوق کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ تحریک پاکستان کے تمام رہنما اس حوالے سے وسیع القلب اور اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے قائل تھے۔
پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک مسیحی برادری نے بھی مجموعی طور پر ہر موقع پر پاکستان سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا‘ اور بہ حیثیتِ مجموعی مسلمانوں نے بھی ان کے ساتھ ہمیشہ اچھائی اور حسن سلوک والا معاملہ برقرار رکھا۔ پاکستان کے طول و عرض میں مسیحیوں کے مشنری سکول بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ صرف لاہور شہر میں کئی بڑی انگریزی درس گاہیں گرجا گھروں کے ساتھ ملحق اور منسلک ہیں۔ ان میں سے کوئین میری، کیتھڈرل اور سینٹ انتھونی سکول معروف ہیں۔ ان سکولوں میں پڑھنے والے طالب علموں کی اکثریت مسلمان ہے۔ پاکستان کے طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بلاجھجک ان سکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں۔ مسیحیوں کو گرجا گھروں میں اپنی عبادات اور مذہبی رسومات بجا لانے کی مکمل آزادی ہے۔ مسلمانوں نے کبھی ان معاملات میں ان سے تعرض نہیں کیا۔ اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی اس سماجی ہم آہنگی کو ہمیشہ قائم و دائم رکھنے کے حوالے سے آئین پاکستان میں بھی مسلمانوں اور مسیحیوں کو اس امر کا پابند بنایا گیا ہے کہ دونوں مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے مذاہب کے بانیان کی عزت اور حرمت کی پاسداری کریں گے۔
مسلمان چونکہ حضرت مریم علیھاالسلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے تقدس کے قائل ہیں‘ اس لیے اس بات کے شرعاً بھی پابند ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ ؑ کی حرمت کا خیال رکھیں‘ لیکن بفرض محال اگر کوئی مسلمان کسی بھی وجہ سے حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مریم ؑ کی توہین کا مرتکب ٹھہرتا ہے‘ تو قانوناً اس کے لیے سزائے موت مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح اگرکوئی مسلمان یا غیر مسلم حضرت رسول کریمﷺ کی اہانت کرتا ہے تو اس کو بھی سزائے موت دی جا ئے گی۔ ہتک عزت اور توہین عدالت کے بین الاقوامی اور قومی قوانین اس امر کے متقاضی ہیں کہ حضرت رسول کریمﷺ اور تمام مذاہب کے بانیان کی عزت اور حرمت کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ اگر کوئی شخص ان مقدس ہستیوں کی ناموس پر حملہ کرے تو اس کا صحیح طریقے سے احتساب ہو سکے۔
قانون کی شق 295،A,B اور C کا تعلق انبیاء، مقدس صحیفوں اور رسول کریمﷺ کی حرمت کے ساتھ ہے۔ ان جائز قانونی اور اسلامی شقوں کی موجودگی میں کسی بھی توہین آمیز واقعہ پر مسلمانوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے عدالتوں اور قانو ن نافذ کرنے والے اداروں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ جو لوگ ان معاملات میں قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرنے کی بجائے قوانین کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں‘ وہ دانستہ یا نادانستہ معاشرے میں انتشار اور خلفشار پیدا کرتے ہیں۔
اگر کسی شخص یا چند اشخاص پر توہین قرآن یا توہین رسالت کی ناپاک جسارت کا الزام لگتا ہے‘ تو اس صورت میں بھی دونوں امکانات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ درست الزام کی صورت میں قانون کی طرف رجوع اور مجرم کا تعاقب ہونا چاہیے اور غلط الزام کی صورت میں ذاتی مقاصد اور مفادات کی وجہ سے الزام لگانے والے شخص کو بھی کڑی سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کسی شخص کو اس طرح کے الزامات لگانے کی جرأت نہ ہو سکے۔
بعض این جی اوز اس قسم کے حادثات اور واقعات کے بعد توہین رسالتﷺ کے قوانین کو ختم کرنے کی بات کرتی ہیں۔ ان کا استدلال ہر اعتبار سے ناپسندیدہ اور قابل مذمت ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر اس قسم کے قوانین موجود نہیں ہوں گے‘ تو توہین کے کسی بھی سچے یا جھوٹے الزام پر معاشرے میں جو اشتعال پیدا ہو گا‘ اس پر قابو پانے کی کوئی آئینی اور قانونی صورت باقی نہیں رہے گی؛ چنانچہ جہاں اقلیتوں پر ہونے والے کسی بھی ظلم اور زیادتی کی بھرپور طریقے سے مذمت ہونی چاہیے‘ وہیں توہین کے واقعات کو روکنے کے لیے آئینی اور قانونی راستے بھی برقرار رہنے چاہییں تاکہ اکثریت اور اقلیتوں کے درمیان پیدا ہونے والی ہر طرح کی کشیدگی کے اندیشوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکے۔