اگست کے حبس آلود مہینے میں تبدیلی اور انقلاب کے خوش کن نعرے کا غلغلہ اٹھا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ پاکستان میں انقلاب آ کر رہے گا۔ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر نگاہ ڈالنے سے لگتا تھا کہ خلق خدا‘ جو مسائل کے انبار تلے بمشکل سانس لے رہی ہے‘ سچ مچ‘ نئے پاکستان کے خواب کی دہلیز پر آن بیٹھی ہے۔ اب یہاں سے تعبیر لے کر ہی اٹھے گی۔ پھر ستمبر آیا‘ گرمی اور حبس میں قدرے کمی آئی۔ دوسری طرف تبدیلی اور انقلاب کے ولولے کی تپش بھی قدرے کم ہوئی۔ پھر اکتوبر کے دھیمے دھیمے موسم میں‘ نئے پاکستان کی تلاش میں نکلے کاروان شوق کا لہجہ بھی دھیما ہونے لگا۔ سیاسی منظر نامے کے ذائقے میں انقلاب کی ترشی بتدریج کم ہونے لگی۔ مقصد کے حصول تک ڈٹے رہنے ‘ جان دینے کا عزم کرنے اور کفن پہننے والوں پر اس وقت قیامت ٹوٹی جب قادری صاحب نے اکتوبر کی ایک خوبصورت شام دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ خود تو جناب سمندر پار سدھار گئے ہیں مگر انقلاب آفریں صبح کے لیے‘ خیمہ بستی میں مشکل شب و روز گزارنے والے عقیدت مندوں کو حیرت میں ڈال گئے۔ دھچکا تو عمران خان کو بھی لگا جن کے پارٹ ٹائم دھرنے کو قادری صاحب کے مستقل مزاج انقلابیوں کی سپورٹ حاصل تھی۔ جنہوں نے شب و روز‘ موسمی اور حکومتی سختیاں برداشت کرتے ہوئے‘ مستقل دھرنا دیے رکھا۔اوریوں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں طویل ترین دھرنے کی مثال قائم کر دی۔ ادھر چوہدری برادران اپنے اتحادی لیڈر‘ طاہر القادری کے یوں اچانک دھرنا چھوڑ کر بیرون ملک چلے جانے پر کسی صدمے کی سی کیفیت
میں ہیں۔اپنی سیاسی تنہائی کے خزاں رسیدہ موسم میں انہیں قادری صاحب کی بدولت عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خطاب کرنے کی پُر بہار گھڑیاں میسر آتی رہیں۔ کیف آور لمحات نے ق لیگ کے تن مردہ میں جان ڈال دی تھی۔ اس دھرنے کے نتیجے میں اگر نواز حکومت لپیٹ دی جاتی تو چوہدری برادران کے انقلابی عزائم کو چین مل جاتا۔ مگر نجانے قادری صاحب کو کیا ہوا کہ اچانک بھریا میلہ چھوڑ کر رخصت ہو لیے۔ چوہدری برادران تو بس پُرملال لہجے میں یہی کہہ سکے۔''یہ کس مقام پہ سوجھی تمیں بچھڑنے کی کہ اب تو جا کے کہیں دن بدلنے والے تھے‘‘۔
قادری صاحب کی ہیجان انگیز تقریروں سے سرکار کی نیندیں اڑ چکی تھیں اور دو چار سخت مقام تو ایسے بھی آئے کہ سامان باندھنے کی تیاریاں ہونے لگیں۔تجزیہ نگار صبح شام یہی کہہ رہے تھے''جی کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ صبح گیا کہ شام گیا۔ ‘‘ایسی بے یقینی کی صورتحال کے بعد قادری صاحب کا دھرنا ختم کر دینا حکومت کے لیے ایسے ہی ہے جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے۔ جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے۔ رہی بات عمران خان کی تو اپنے احتجاج کو غیر ضروری طوالت دے کر انہوں نے احتجاج کے کلائمکس پر پہنچی ہوئی صورت حال کو خود اینٹی کلائمکس میں بدل دیا ہے۔ گزشتہ تقریباً تین ماہ سے مسلسل احتجاجی جلسوں اور پارٹ ٹائم دھرنوں سے تحریک انصاف کے ورکروں میں تھکن اور بیزاری آ چکی ہے ۔ استعفوں کے معاملے پر اختلاف تو پہلے ہی موجود تھا مگر اب سامنے آنا شروع ہو چکا ہے۔ کپتان کے فیصلوں کے خلاف پارٹی میں بغاوت کے عناصر دکھائی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے تین اور ارکان قومی اسمبلی نے استعفے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اب بھی وقت ہے عمران خان حقیقت پسندانہ فیصلے کر کے پارٹی میں ہونے والی پت جھڑ کو روک لیں ۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اگر مطالبات مان لیے جاتے ہیں، دھاندلی کی تحقیقات کا آغاز ہو جاتا ہے تو وہ اسے اپنی احتجاجی تحریک کی کامیابی سمجھیں۔ پارلیمنٹ میں بیٹھیں ۔ حکومت کی نااہلیوں پر آواز اٹھاتے ہوئے خالص اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔باقی جہاں تک ان کی یہ تشنہ خواہش ہے کہ نواز حکومت کا
خاتمہ ہو تو اس پر خاطر جمع رکھیں کیونکہ اس کے لیے حکومت کی نااہلیاں خود ہی کافی ہیں۔ بقول جاوید ہاشمی ''حکومت اپنے گرنے کے لیے خود ہی گڑھا کھودے گی‘‘ آج ڈیڑھ سال کے بعد وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ عوام کو ریلیف دیئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ انہیں اب جا کر وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا خیال آیا ہے، جبکہ انہوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد اعلان کیا تھا کہ ہر تین ماہ بعد وزرا کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ دوسرے تمام دعووں کی طرح ایسے سارے دعوے اور سارے وعدے بھی ہوا ہو گئے اور عوام بے چارے بس یہی کہتے رہ گئے ؎
مری یادوں کے افق پر آپ کے وعدوں کے چاند
اس قدر چمکے نہیں ہیں‘ جس قدر گہنائے ہیں
تحریک انصاف مذاکرات کی میز پر دوبارہ آنے والی ہے۔ اب یقینا معاملات طے پا جائیں گے۔ تقریباً تین ماہ سے دھرنوں نے میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے رکھی اور حکومت کی بہت ساری نااہلیوں ‘ پر پردہ پڑا رہا۔ حکومتی وزراء بھی چھینک آنے سے لے کر مہنگائی بڑھنے تک ہر مسئلے کو دھرنے سے جوڑ کر خود بری الذمہ ہو جاتے، مگر اب جب حالات بظاہر نارمل ہو جائیں گے تو پھر وہ کون سی جادو کی چھڑی گھمائیں گے جس سے عوام کو بجلی کی اووربلنگ سے نجات ملے گی‘ ان پر مہنگائی کے خودکش حملے رک سکیںگے ‘پولیو کے ہر روز بڑھتے ہوئے کیسز کو نکیل ڈال سکیں گے‘ قبائلی علاقوں سے شہروں کی جانب منتقل ہوتی ہوئی دہشت گردی پر قابو پا لیں گے۔ اب ذوالفقار کھوسہ کی بغاوت کی صورت میں ن لیگ کو ایک اور بپھرے دریا کا سامنا ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما ذوالفقار کھوسہ مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ رہے۔ ان کے تحفظات اور شکووں کی کہانی اخبارات میں اور چینلز پر آ چکی ہے۔ بغاوت کا یہ علم انہوں نے تنہا بلند نہیں کیا۔ بلکہ خبروں کے مطابق پارٹی کے کئی ارکان صوبائی و قومی اسمبلی ان کے ساتھ ہیں۔ سرگرم کارکنوں کو بھی پارٹی قیادت کے سرد مہر رویے سے شکایات ہیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر نواز شریف صرف مذمتی بیا ن دے کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے ورنہ تو بڑے سے بڑا سانحہ ہو جائے‘ ہمارے ہاں چند مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں اور معاملہ داخل دفتر ہو جاتا ہے۔
آنے والے دنوں میں وزیر اعظم‘ خزاں کے پتوں کی طرح جھڑتے ہوئے مسلم لیگیوں کو سنبھالنے کی تگ و دو میں مصروف ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے انہیں عوامی مسائل کے حل کے لیے وقت نہ مل سکے اوروہ دل ہی دل میں پھر سے ایک نئے دھرنے کی خواہش کرنے لگیں، کیونکہ حکومت کو دھرنوں کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ ملک کے حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور وزراء بھی دہشت گردی سے لے کر مہنگائی تک‘ ہر مسئلے کی ذمہ داری دھرنے کے سر ڈال کر خود بس اتنا کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ ''دھرنوں والے حکومت کو کام نہیں کرنے دیتے‘‘۔ لیکن اب پھر ایک نئے دھرنے کی آمد آمد ہے۔ ہیجان و جذبات کا طوفان اٹھایا جا رہا ہے۔ استقامت اور ولولوں کا اظہار ہو رہا ہے۔ دیکھیے! اب پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے!