اب اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر نیویارک سے کسی دوسری غیر جانبدار جگہ پر منتقل کر دیا جائے کیونکہ امریکہ مسلسل اس سے نا جائز فائدہ اٹھائے جارہا ہے۔ دبی دبی زبان سے کہے گئے یہ الفاظ اس وقت تو توجہ حاصل نہ کر سکے لیکن پچاس سال بعد یہ آواز ہر جگہ سنی جا رہی ہے اور جو آواز کل تک بہت کمزور تھی‘ جس کی جانب کوئی دھیان ہی نہیں دیتا تھا‘ اب طاقت پکڑتی جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کی نیویارک سے کسی دوسری منا سب جگہ پر منتقلی ضروری ہو گئی ہے‘ وہاں اب یہ بھی ضروری ہو چکا ہے کہ اقوام متحدہ فوری طور پر سکیورٹی کونسل کی اجا رہ داری ختم کرے‘ اور فی الحال اگر وہ سمجھتی ہے کہ ایسا کرنا ابھی ممکن نہیں تو پانچ ممالک پر مشتمل سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان سے ویٹو کی طاقت ہر حال میں واپس لے اور اس کے تمام اختیارات جنرل اسمبلی کے سپرد کر دیے۔
اقوام متحدہ ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے جس سے چند قبضہ گروپ اپنی مرضی کے فیصلے کراتے ہیں۔ اگر کسی کو ذرا سا بھی شک ہے تو اقوام متحدہ میں امریکہ کی طرف سے تباہ کن اسلحہ کی موجو دگی کی جھوٹی داستان سناتے ہوئے عراق پر حملے کی قرار داد کی منظوری سب کے سامنے ہے اور پھر افغانستان پر یو این او کی اجا زت سے کیا جانے والا امریکی فوجی قبضہ سے کون واقف نہیں۔ ان تمام ممالک پر امریکی فوجی جارحیت کی اجا زت تو اقوام متحدہ نے دی ہے لیکن کیا وہ ان قرارد ادوں کو منظور کرنے کے نتیجے میں ان ممالک میں ہونے والی لاکھوں انسانی جانوں کی ہلاکت اور وہاں کے شہریوں کے کھربوں ڈالرکے نقصانات کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار ہے؟
یو این او کے سائے میں دنیا بھر کے کمزور ممالک کو اپنی حکم عدولی کی سزا دینا امریکہ کا معمول بنتا جا رہا ہے اور اسے کوئی احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس کے نتیجے میں نوع انسانی پر کیا کیا قیامتیں گزرجا تی ہیں۔جب عراق بارے یو این او کی قرار داد کی مکمل نفی ہو گئی تو امریکہ کی جانب سے اعتراف کیا گیا کہ عراق میں '' ماس ڈسٹرکشن‘‘ کے ہتھیاروں کے بارے میں مبالغہ آمیز رپورٹ پیش گئی تھی لیکن عراق میں اس کے نتیجے میں جو اب تک قتل و غارت ہو رہی ہے اس پر اب تک اقوام متحدہ نے امریکہ کے خلاف کیا ایکشن لیا ہے؟
اگر اقوام متحدہ کا ریکارڈ دیکھیں تو امریکہ نے اس کے ذریعے دنیا کے ہر خطے میں اپنی فوجی مداخلت کو جائز ثابت کرنے کیلئے اسی طرح کے ڈرامے کیے اور اس کا آغاز اس نے ویت نام پر حملہ کرنے سے کیا۔ اب وہ شام پر قبضہ کرنے کیلئے ایسی ہی ایک قرار داد اقوام متحدہ سے منظور کرانے کی کوشش کر رہا ہے‘ کیونکہ امریکہ کا ''عرب سپرنگ‘‘ کا منصوبہ ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘ اس لیے اب وہاں داعش کے ذریعے جنگی کیفیت برپا کرنے کی کوشش شروع ہو گئی ہے۔
امریکہ نے آکٹو پس کی طرح اپنے آپ کو اس طرح پھیلایا ہوا ہے کہ کوئی بھی اس کے شکنجے سے باہر نہ جا سکے۔ کسی کو اس نے اقوام متحدہ کے ذریعے تو کسی کو دولت مشترکہ ا ور یورپی یونین کے ذریعے قابو کرتا ہے۔ امریکہ کی کوتوالی سے تنگ آ کر اپنے ملک کو تباہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاتا ہوا دیکھ کر امریکی منشا کے بغیر کوئی ملک اپنی بہتری کا قدم اٹھاتا ہے تو آمریت کا نام دے کر انسانی حقوق اور جمہوریت کی نفی کرنے کی پاداش میں اس پر عرصۂ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا جاتاہے۔ اس نے سمجھ رکھا ہے کہ جس طرح کسی ملک پر یلغار کرنے کے لیے یو این او کی قرار داد منظور کرانی ضروری ہے اسی طرح اپنی ڈھب کی حکومت اور حکمران لانے کیلئے جمہوریت کی پابندیاں ضروری ہیں۔ اگر جمہوریت کی بجائے کوئی نادار ملک اپنی مرضی کا طریقۂ حکومت اپنا لے تو اقوام عالم کے ادارے میں ان کی وضع کردہ جمہوریت نہ اپنانے کا عمل غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔ اور پھراس کا ٹینٹوا دبانے کیلئے دولت مشترکہ کے ذریعے ایسے ملک کی رکنیت معطل کردی جاتی ہے یا یورپی یونین کے آہنی مکوں سے ناکوں چنے چبوائے جاتے ہیں اور بے سروپا قسم کی معاشی اور تجارتی پابندیاں لگناشروع ہو جاتی ہیں۔ نادار ممالک کہہ لیں یا تیسری دنیا کا نام دے لیں‘ اگر دنیا کی ان چند بڑی طاقتوں کی مرضی ہی وہاں چلنی ہے تو پھر اس ادارے کو اقوام متحدہ کا نام کیوں دیاجاتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ایسے نادار ممالک کے عوام سوچنا شروع ہو گئے ہیں جنہیں بڑی طاقتوں کے کاغذات میںتھوڑی سی عزت دیتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کا نام دیا جاتا ہے۔
دنیا کے صرف پانچ ممالک امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور فرانس، جو لا محدود ایٹمی قوت اور سرمائے کے مالک ہیں، کو یہ اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ دنیا کی ساری قوموں کی تقدیر اپنی مرضی سے لکھیں؟ کشمیر کا مسئلہ کب کا پُرامن طور پر حل ہو چکا ہوتا اگر روس با ر بار ویٹو پاور استعمال نہ کرتا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد بننے والی لیگ آف نیشنز کے بعد دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اقوام متحدہ کی طرف دیکھیں تو ابتدا میں اس کے ارکان کی اکثریت ان ممالک پر مشتمل تھی جنہوں نے اس عالمی جنگ میں براہ راست کردار ادا کیا‘ اس سے متا ثر ہوئے یاوہ اس جنگ کے محور بنے رہے۔ اس لئے ابتدا میں جونہی کہیں جنگی جنون یا دو ممالک کے درمیان سرحدی یا کسی بھی قسم کی کوئی چپقلش شروع ہونے لگتی‘ یہ ممالک فوراََ مداخلت کرتے ہوئے اسے وہیں ختم کرا دیتے لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کا کردار مدھم اور جانبدارانہ ہوتا گیا اور آج کی اقوام متحدہ امریکہ جیسی بڑی طاقت کے مہرے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔بلکہ اگر لوگوں کو یاد رہ گیا ہے تو1959ء میں ہی''John Birch Society'' نے ایک تحریک شروع کی تھی اور نعرہ لگایا تھا کہ ''اقوام متحدہ کو امریکہ کی پہنچ سے دور رکھو‘‘۔ آج سے55 برس قبل ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ہاتھوں میں اقوام متحدہ کی لگام دے کراسے واحد سپر طاقت بنایا جا رہا ہے‘ بہرحال اب وقت کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کو امریکی سکیورٹی اور غلبے سے دور رکھا جائے۔
2004ء میں اقوام متحدہ میں سابق سفیرDORE GOLD نے''Tower Of Babble'' کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس میں اس نے بتایا تھا کہ کس طرح اقوام متحدہ نے دنیا کے مختلف ملکوں میں نفرت‘ ابتری اور بغاوت کے جراثیم بوتے ہوئے وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کرایا۔ گولڈ کی کتاب میں اس عالمی ادارے کے کردار کے بارے میں اس قدر شرمناک واقعات بیان کیے گئے ہیں کہ پڑھنے والا یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ اقوام عالم میں امن اور بھائی چارے کے نام سے کام کرنے والا ادارہ ہے یا بے گناہوں کو دہکتی آگ کی دوزخ میں جھونکنے والا داروغہ؟اس کا کام ملکوں کو جوڑناہے کہ ان کے درمیان پائی جانے والی کدورتوں کو مزید بھڑکانا؟ ڈور گولڈ کی کتاب کا لب لباب یہ ہے کہ ابتدا کے سنہری اور قابل قدر اقدامات کی وجہ سے چہرے پر پھوٹنے والی روشنی کو آج کی اقوام متحدہ نے سیا ہی میں لتھڑا ہوا چہرہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
ڈور گولڈ نے اپنی کتاب میں بالکل صحیح لکھا ہے کہ آج کی اقوام متحدہ کا نیا نام اس پر قابض پانچ ایٹمی طاقتوں کی منا سبت سے ''ایٹمی کلب‘‘ ہونا چاہیے نہ کہ سکیورٹی کونسل...؟