تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     10-11-2014

عرصۂ اقتدار

آج سے چھ برس پہلے جب آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہوئے تو پیپلزپارٹی کے ایک ہمدرد لیکن زرداری صاحب کے نقاد صحافی کا تبصرہ تھا کہ ''جمہوریت کی بدصورتی ہے کہ اس میں کوئی بھی صدر بن سکتا ہے لیکن خوبصورتی یہ ہے کہ پانچ سال بعد اسے ایوان ِ صدر چھوڑنا ہوگا‘‘۔ زرداری صاحب کی صدارت کا پہلا سال صرف ان کی صدارت کا ہی نہیں بلکہ ان کی حکومت کا بھی پہلا سال تھا۔ لوگوںکوابتدا سے ہی ان کی حکومت پر تحفظات تو تھے لیکن اس لیے خاموش رہتے تھے کہ پہلا سال تو منصوبہ بندی میں ہی گزر جاتا ہے ، کام تو دوسرے سال میں ہوتا ہے۔ دوسرے سال کے بھی کچھ ماہ گزر گئے تو ایک روزسردار آصف احمد علی سے ملاقات ہوئی جو اس وقت پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین تھے اور ترقیاتی منصوبہ بندی کی ذمہ داری ان پر تھی۔ ان سے پوچھا کہ حکومت کب تک کوئی بڑا منصوبہ شروع کرے گی، کیونکہ وقت تو بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ فرمانے لگے : ''ہمیں تو چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک سے ہی فرصت نہیں ملی تو کام کیا کرتے، لیکن اب دیکھنا ہم کتنی تیزی سے کام کرتے ہیں‘‘۔ پھر ہم سب نے دیکھا کہ کام تو کیا رفتار پکڑتا البتہ واقعات بجلی کی سی تیزی سے رونما ہونے لگے،کبھی میمو گیٹ، کبھی افسران کی تقرریوں کا مسئلہ ، کبھی کچھ اور کبھی کچھ، ہوش آیا تو وقت گزر چکا تھا اور الیکشن سر پرپہنچا ہوا تھا۔ الیکشن سے کچھ پہلے ایک وفاقی وزیر نے بڑے بوجھل دل سے بتایا کہ ''یار یوں لگتا ہے کہ ہمارے پانچ سال تو ایک سال میں ہی گزرگئے‘‘۔ ایسا نہیں تھا کہ پیپلزپارٹی نے ملک کے لیے کچھ سوچا نہیں، مسئلہ یہ رہا کہ وہ مردانِ کار میسر نہ آسکے جو منصوبوںکوکاغذ سے زمین پر اتار سکیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے 2013ء کا الیکشن جیتا تو چند لوگوںکے سوا ملک بھر میں کوئی ایسا نہ تھا جو حالات میں بہتری کی امید نہ کررہا ہو۔ وہ گنتی کے چندہی لوگ تھے جو دبی دبی زبان سے کہہ رہے تھے کہ میاں نواز شریف ماضی سے کچھ سیکھ کر نہیں آئے بلکہ وہ لوگوں کو سبق سکھانے کے موڈ میں ہیں ، لیکن کوئی ان کی بات سننے کا تیار نہیں تھا۔ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دوران خود میاں صاحب جا بجا یہ دعویٰ کرتے کہ ان کے پاس ایک تجربہ کار ٹیم ہے جو ملک کو آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ خیر، خوابوں کا موسم شروع ہوا، مسلم لیگ ن کے وزراء عملی کام کی بجائے اپنی پیشرو جماعت کے لوگوں کی طرح سرشام ٹی وی پر نت نئے کپڑے پہن کر فلسفہ بگھارتے نظر آنے لگے۔ بجلی کے وزیر نے بتایا کہ سب کچھ برباد ہے اس لیے ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔ داخلہ کے وزیر نے فرمایا کہ آئندہ ایک سال کے اندر اندر خفیہ ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی فضا پیدا کرکے ملک کو دہشت گردوں سے محفوظ کردیا جائے گا۔ معاشی بزرجمہر نے کہا بس ایک سال میں ترقی کا رکا ہوا پہیہ چل پڑے گا۔ نظام تعلیم 
کی درستی، صحت کی فراہمی ، پولیس کی اصلاحات، نوکر شاہی کی تشکیل نواور بلدیاتی اداروں کی تعمیر چونکہ حکمرانوں کی طبع نازک پرگراں تھی اس لیے کسی نے پوچھا بھی تو ناک چڑھا کر بات بدل ڈالی۔ خبطِ عظمت کا یہ عالم رہاکہ برادرِ بزرگ قومی اسمبلی میں قدم رنجہ فرمانے سے گریزاں اور برادرِ خورد صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے نالاں ۔ جمہوریت اور اس کے ثمرات پر جتنا کچھ چاہیںسن لیں لیکن جیسے ہی کسی وزیر سے اس کے محکمے کی بات کریں گے وہ چڑ جائے گا، جس کی توجہ کارکردگی کی طرف دلائیں گے وہ دل میں گرہ ڈال لے گا۔ حالت یہ ہے کہ ایک وفاقی وزیر سے یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ تعلیم کے بارے میں کیا پروگرام ہے حکومت کا تو ایک نگاہِ غلط انداز مجھ پر ڈال کر طنزیہ قہقہہ لگاتے ہوئے سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس ملک میں سیاستدانوں نے الیکشن جیت کر حکومت نہیں بنائی بلکہ بقراطوں اور افلاطونوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ اسی بک بک میں ایک سال گزار دیا تو عمل کی زمین بنجر اور سیاست کی فضا مسموم ہو چکی تھی۔ شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں نے اس حکومت کو دن میں تارے دکھا دیے۔ پھراسے پارلیمنٹ کی یاد بھی ستائی اور خوداحتسابی کی ضرورت بھی آشکار ہوئی۔ فقرے بازوں اورکام کے آدمیوں کی پہچان بھی ہونے لگی، آشکار ہوا کہ تجربہ کار ٹیم صرف تجربے ہی کرتی رہی ہے۔ 
ملک کو ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے وزراء کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے نتائج دیکھنے کے بعد وزیراعظم بروئے کار آئے ہیں اوراسلام آباد میں لوگ ان وزیروں کے نام بھی بتانے لگے ہیں جنہیں اپنی وزارتوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ وزارتوں کو پڑے لالوں میں سے سرِفہرست مصدق ملک ہیںجو کچھ دن پہلے وزیراعظم کی ترجمانی پر لائے گئے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو کابینہ کے اجلاس کے بعد جب خصوصی طور پریہ ہدایت جاری ہوئی کہ'' میڈیا کو بریفنگ ملک صاحب کو دینے دیں، آپ ذرا میری بات سن لیں‘‘ توخود کو وزیراعظم کا نظریاتی دماغ کہنے والاہل کررہ گیا۔ پھر بہت دیر تک ایوانِ وزیراعظم میں اِدھر اُدھر بیٹھ کر انتظار کرتا رہا کہ شاید وزیراعظم ابھی طلب کر لیں۔ لیکن شام رات میں بدل گئی اور اسے کوئی پیغام نہیں آیا۔ ایک اور وزیر سے جب ان کی وزارت کے معاملات کے بارے پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ موصوف نے اپنی 
وزارت سے متعلقہ ضروری فائلیں ہی ساتھ لانا گوارا نہیں کیا۔ ایک چودھری صاحب جو بار بار کہتے ہیں ''میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا‘‘ سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے انسدادِ دہشت گردی کی اتھارٹی کے ڈھانچے پرکام مکمل کرلیا ہے تو اس پر وہ بغلیں جھانکنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم بھی ان کے اس رویے پرکچھ نہ کہہ سکے سوائے اس کے کہ ''میرا خیال ہے کہ اب ہمیں کام تیزکرنا ہوگا‘‘۔ صرف خواجہ سعد رفیق تھے جو ریلوے کے بارے کچھ بہتری کی نوید لائے تھے۔ ان کی قوت عمل کے پیش نظر اب سوچاجارہا ہے کہ ان کے سپرد وہ کام کردیا جائے جو آئندہ الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ خواجہ سعد رفیق کی طرح ماروی میمن اور رفیق رجوانہ کا نام بھی ان لوگوں کی فہرست میں ہے جن کی ذمہ داریوں اور اعزاز میں اضافے کی باتیں ہورہی ہیں۔ البتہ وہ لوگ جو خود کو وزارتوں کا اہل ثابت نہیں کرپائے، اس وقت تک اپنی کرسیوں سے چمٹے رہیں گے جب تک عمران خان اپنا دھرنا ختم کرکے گھر نہیں چلے جاتے۔ خان صاحب نے وزیراعظم کوکم ازکم اتنا مجبور توکردیا ہے کہ وہ اپنے نااہل ساتھیوں سے چاہیں بھی تو آسانی سے چھٹکارا نہیں پاسکتے ، اس لیے اب یہ راستہ نکالا جارہا ہے کہ وفاقی وزراء میں قلمدانوں میں ردوبدل کے ساتھ کچھ نئے لوگوں کو کابینہ میں شامل کر کے بے عمل فلاسفروں کے اثرات کم کیے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے پاس بھی کام کرنے والے ہیں ہی کتنے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved