تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-11-2014

عوام کو جھنجھوڑا ہی کیوں؟

عمران خان نے یہ کیا کر ڈالا؟ جس چیز کی وہ آج پیش کش کر رہے ہیں‘ وہ تو حکومت کا اپنا مطالبہ تھا کہ عمران فوری استعفے کی شرط ختم کر دیں۔ باقی آپ کے جتنے بھی نکات ہیں‘ ہم ان پر سمجھوتے کے لئے تیار ہیں۔ جو کچھ خان صاحب نے آج مانا ہے‘ وہ اسی وقت مان گئے ہوتے‘ تو مزید دھرنوں کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے لئے جو 6ہفتے انہوں نے آج دیئے ہیں‘ پہلے دے دیئے ہوتے‘ تو اب تک کمیشن کی رپورٹ بھی آ چکی ہوتی‘ فیصلہ بھی ہو گیا ہوتا۔ عوام کا اور اپنا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ حکومت کی کارکردگی میں سست روی سے جو نقصان پہنچا‘ ملک اس سے بھی بچا رہتا۔ یہ تو حکمت عملی کی خرابی بلکہ تباہی تھی کہ جو کچھ ڈیڑھ پونے دو ماہ پہلے پیش کیا جا رہا تھا‘ پہلے اسے چھوڑ دیا۔ مزید پانچ چھ ہفتے دھرنے کو زبردستی طول دیا گیا۔ اب اچانک اعلان کر دیا کہ ہم وہ سب کچھ ماننے کو تیار ہیں‘ جو حکومت نے ہمیںپہلے خود پیش کیا تھا اور ہم انکار کر گئے تھے۔ یہ سیاست‘ میری سمجھ میں تو آ نہیں سکی۔ غالب امکان ہے کہ عوام کی سمجھ میں بھی نہیں آئے گی۔ خان صاحب حکومت مخالف جذبات کو اتنی انتہا پر لے جا چکے ہیں کہ اب وہ حکومت کے ساتھ انہی شرائط پر سمجھوتا کریں گے‘ جو وہ پہلے مسترد کر چکے ہیں‘ تو بہت بڑی خرابی پیدا ہو گی۔ جو نقصان ہونا ہے‘ اسے تو روکا نہیں جا سکتا۔ خان صاحب کی پیش کش سنتے ہی‘ حکومتی ترجمانوں نے اطمینان کی لمبی اور ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے‘ خان صاحب کی پیش کش فوراً ہی قبول کر لی۔ اب اصل بات حکومت کا وہ طرز عمل ہو گا‘ جو فاتحانہ غرور کے نتیجے میں جنم لے گا اور خان صاحب کا ساتھ دینے کے جرم میں بے گناہ عوام کو‘سزائیں بھگتنا پڑیں گی۔ 
یہ بالکل درست ہے کہ پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کی وجہ سے‘ نوازشریف حکومت جو عوام کے مسائل سے بری طرح لاتعلق اور بے خبر ہو چکی تھی‘ اسے اضطراری حالت میں فوری طور سے محسوس ہوا کہ اس نے تو واقعی عوام کی دگرگوں حالت کو بری طرح نظرانداز کر رکھا تھااور خان صاحب کی تقریروں کے نتیجے میں‘ عوام کے اندر جو باغیانہ جذبات پیداہو رہے تھے اور جن کے خوف سے حکومت نے عوام کو خوش کرنے کے لئے پالیسیاں بنانا شروع کر دی ہیں‘ اب انہیں برقرار رکھنا خان صاحب کے اختیار میں نہیں رہے گا۔ خان صاحب کی یہ الٹی چھلانگ‘ پاکستانی عوام کو کتنی مہنگی پڑے گی؟ اگر انہیںاور ان کے ساتھیوں کو احساس ہوتا‘ تو وہ کبھی یہ غلطی نہ ہونے دیتے۔ کہاںجذبات کی یہ انتہا کہ ہم استعفے تک دھرنا ختم نہیں کریں گے؟ اور جب تک نوازشریف کی حکومت ختم نہیں ہوتی‘ ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔خان صاحب نے پورے اعتماد اور یقین کے ساتھے جتنے دعوے کئے تھے‘ ان سے عوام شدیدمتاثر ہو رہے تھے۔ انہوں نے اپنی امیدیں خان صاحب سے وابستہ کر لی تھیں۔ ان کی باتوں پر اعتماد کر لیا تھا اور وہ فیصلہ کن جدوجہد کے لئے تیار بھی ہو رہے تھے۔ دوسروں کو مشورے بھی دینے لگے تھے کہ ایک بار نوازحکومت کو عوامی 
طاقت سے گرا لیا گیا‘ تو اس کے بعد انتخابی عمل یقینی طور پر شفاف ہو جائے گا۔دولت‘ طاقت‘ سرکاری پیسہ‘ سرکاری مشینری کا استعمال‘ پولنگ سٹیشنوں کی دھاندلی‘ سب خرابیاں ختم ہو جائیں گی۔ عوام آزادی سے اپنی رائے کا اظہارکر سکیں گے۔ ان کا ووٹ اسی امیدوار کے حق میں گنا جائے گا‘ جس کو وہ دے کر آئیں گے اور جو نئی حکومت‘ اس انقلابی تبدیلی کے بعد قائم ہو گی‘ اسے ہمہ وقت بیدار عوام کے احتساب کا سامنا کرنا ہو گا۔ عوام کی تکالیف اور مشکلات کو محسوس کرنا پڑے گا اور ایسی پالیسیاں بنانا پڑیں گی‘ جو عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں۔ عوام کو بڑے بڑے خواب دکھانا بہت آسان ہے۔ ایسا کرکے مقبولیت بھی ملتی ہے۔ نئی نئی امیدیں بھی جنم لیتی ہیں۔ خواہشیں بھی زور پکڑ لیتی ہیں اور عام انسان‘ تبدیلی کے امکانات کو دیکھتے ہوئے‘ زیادہ پرجوش ہو جاتا ہے اور یہ چاہنے لگتا ہے کہ جلد ازجلد اس کی زندگی میں بدلائو آئے اور وہ رشوت‘ بدعنوانی اور حکمرانوں کے مظالم سے محفوظ ہو جائے۔ لیکن جب یہ خواب ٹوٹتا ہے‘ تو پھر عوام میں جو مایوسی‘ بے یقینی اور احساس شکست پیدا ہوتا ہے‘ اس کا فائدہ حکمران طبقے ضرورت سے بڑھ کر اٹھاتے ہیں۔ اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ اتنی خوفناک باغیانہ تحریک کو زور پکڑتے دیکھ کر جتنا گھبراتے ہیں‘ اس کے کمزور پڑنے اور منتشر ہو جانے سے‘ ان کے حوصلے اسی قدر بڑھ جاتے ہیں اور پھر انہیں پروا نہیں رہتی کہ عوام کا کیا حال ہو رہا ہے؟ ان پر کیا بیت رہی ہے؟ حکمران طبقوں کے طرزعمل میں محض غصہ ہی نہیں‘ غیرمحسوس طریقے سے انتقامی جذبہ بھی آ جاتا ہے کہ یہی لوگ تھے‘ جنہوں نے اسلام آباد میں زندگی منجمد کر دی تھی۔ سرکاری مشینری کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ افسروں کے لئے دفتروں میں آمدورفت مشکل کر دی تھی۔ بچوں کے سکول بند ہو گئے تھے۔ شہریوں کو آنے جانے کے راستے بدلنا پڑے تھے۔ پورے ملک کی انتظامیہ کو ہمہ وقت ہوشیار اور مستعد رہنا پڑا تھا اور وہ ہزاروں پولیس والے‘ جنہیں پورے صوبہ پنجاب سے اسلام آبادلا کر‘ تین ماہ تک اذیت ناک زندگی سے گزرنا پڑا‘ ان کی حالت ناقابل بیان ہے۔ نہ انہیں آرام کا وقت ملتا۔ نہ ان کی نیند پوری ہوتی اور نہ انہیں وقت پر کھانے پینے کی سہولت میسر آتی۔ حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لئے‘ انہیں جن تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا‘ وہ ان کی زندگی کا تلخ ترین تجربہ تھا۔ کسی بھی لیڈر کو ‘ عوام کو منظم اور متحرک کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ عوام کی امیدوں کو کس حد تک آگے بڑھا رہا ہے؟ ان کی توقعات میں کتنا اضافہ کر رہا ہے؟ اجتماعی امیدوں میں کس قدر اضافہ کر رہا ہے؟ 
خان صاحب کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ عوام کی توقعات کس حد تک بڑھا چکے ہیں؟ انہیں اپنے حالات بدلنے کے لئے کتنے جوش اور ولولوں میں مبتلا کر چکے ہیں؟ خان صاحب کے جلسوں کا رش اور ان میں شریک ہونے والوںکے اندر کچھ کر گزرنے کے لئے کتنی بے تابیاں پیدا ہو رہی تھیں؟خان صاحب کو اس کا اندازہ ہونا چاہیے تھا۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ عوام کے جذبہ وعمل کو اس حد تک لا کر‘ اچانک چھوڑ بھاگنا ‘ کس قدر تباہ کن ہوتا ہے؟ یہ بالکل ایسا ہے‘ جیسے کسی پیاسے کو پانی کا گلاس دکھا کر‘ اسے بہا دیا جائے۔ بھوکے کے سامنے کھانا رکھ کر‘ اسے اٹھا کر کہہ دیا جائے کہ اب تم اپنے گھر چلے جائو۔بدنصیب ہوتے ہیں وہ عوام‘ جن کے لیڈر‘ انہیں ایک منزل دکھا کر‘ اس کی طرف بڑھنے کے لئے تیار کر لیتے ہیں اور پھر اچانک انہیں چھوڑ کر‘ لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ عوام کو اس حرکت پر جو صدمہ پہنچتا ہے‘ اس کا آسانی سے اندازہ نہیںلگایا جا سکتا۔ ان کے حوصلے پہلے سے بھی زیادہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ ناامیدی ان پر مسلط ہو جاتی ہے۔ مایوسی ‘ ان کی زندگی سے امیدیں کیا؟ خواب تک چھین لیتی ہے اور آنے والے کئی برسوں تک عوام کا لیڈروں پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ وہ کسی پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیںہوتے۔ وہی عوام جو لٹیروں‘ دھاندلی سے جیتنے والوں اور حکومتی طاقت کے بل بوتے پر‘ عوام کی زندگی اجیرن کرنے والوں سے‘ بیزار ہو چکے ہوتے ہیں‘ انہیں پھر سے فتح کے نشے میں سرشار‘ عوام دشمنوںکے سامنے جب سرجھکا کر زندگی گزارنا پڑتی ہے‘ تو ان کے دلوں پر کیا گزرے گی؟ وہ لیڈر‘ جس نے انہیں گھروں سے نکال کر فاتحانہ جدوجہد کے لئے تیار کیا ہو اور معرکہ آرائی شروع کرنے سے پہلے ہی انہیں چھوڑ جائے‘ تو انہیں دوبارہ نارمل ہونے کے لئے کتنا وقت لگے گا؟ جب کروڑوں عوام کے ساتھ ایسا ہوتا ہے‘ توان کے حوصلوں اور جذبوں کی بحالی کے لئے وقت بھی اسی تناسب سے لگتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تبدیلی کے جس سفر کا آغاز کیا تھا‘ اسے درمیان میں ہی ختم کرنے کا کام انہیں پھانسی لگا کر کیا گیا۔ 1970ء والا وہ جوش و جذبہ پھر دیکھنے میں نہیں آیا۔ اب امیدوں نے پنپنا اور حوصلوں نے بڑھنا شروع کیا تھا کہ پھل دینے سے پہلے ہی فصل کی نشوونما کو روک دیا گیا ہے۔ خان صاحب پتہ نہیں کیا سمجھ کر یہ پیش کش کر بیٹھے؟ اب ان کے اور ان کے حامیوں کے ساتھ کیا ہو گا؟ مجھے اس کا اندازہ کر کے‘ دکھ ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں اب کوئی ایسا لیڈر کب اٹھے گا؟ جو عوام کو اپنے پیچھے لگانے کے بعد انہیں منزل تک پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہو؟ اب بھی وقت ہے خان صاحب ‘مذاکرات کے جال میں پھنسنے کی بجائے‘ میدان میںفیصلہ کریں۔ عوام آج بھی ان کے ساتھ ہیں۔ وقت آج بھی ان کے ساتھ ہے۔ اگر وہ ان دونوں کو چھوڑ گئے‘ تو اپنے پیچھے دکھ بھری یادوں کے سوا اور کیا چھوڑیں گے؟رحیم یار خان میں اپنے موقف سے پسپائی کا عندیہ دے کر‘ خان صاحب عوام کی طرف ‘جس المیے کا رخ موڑیں گے‘ عشروں تک ان پر مسلط رہے گا۔یونہی کرنا تھا‘ تو اپنی بے بسی سے نڈھال عوام کو جھنجھوڑ کر کیوں اٹھایا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved