تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     11-11-2014

چند دلچسپ خبریں

پہلے امریکہ سے آئی ہوئی دو خبریں پڑھ لیں۔ امریکی حکومت نے دُوسرے کاموں کے ساتھ ساتھ قتل عام کا بھی ٹھیکہ دے رکھا ہے اور ٹھیکے دارکا نام ہے بلیک واٹر (ریمنڈ ڈیوس کا تعلق بھی بلیک واٹر سے جوڑا جاتا تھا۔) واشنگٹن کی ایک عدالت نے 22 اکتوبرکو ایک ایسا فیصلہ سنایا جو یورپ کے تمام اخباروں میں نمایاں طور پر شائع ہوا۔ اس فیصلے کے مطابق بلیک واٹر کے چار سکیورٹی گارڈزکو عراق کے 17 بے گناہ اور غیر مسلح افراد کو قتل کرنے کے جرم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔ مقتولوں کا واحد قصور یہ تھا کہ وہ بغداد کے ایسے چوک سے گزر رہے تھے جہاں بلیک واٹر کے مسلح چوکیدار متعین تھے اور یہ گارڈز ہر ایسے شخص یا افراد کے گروپ پرگولیاں برسانے کے لئے تیار تھے جن کو وہ اپنے لئے خطرہ سمجھتے ۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران ملزموں کے وکیل یہ معمہ حل نہ کر سکے کہ آخر 17 راہ گزاروں کو کس جرم کی پاداش میں مارا اور 20 کو شدید زخمی کیا۔ ابھی زخمیوں کوانصاف ملنے کی باری نہیں آئی۔ امریکی فوج یا اُس کے مقرر کردہ دہشت گرد مسلح جتھوں نے عراق میں جو قیامت ڈھائی مذکورہ جرائم اُس کا عشر عشیربھی نہیں۔ ایک انگریزی محاورے کے مطابق یہ تو صرف Tip of the Iceberg ہے۔۔۔۔۔ اُردو میں ریت کے بڑے تودے کی چوٹی پر پڑے چند ذرّات ! 
دُوسری خبر پہلے کی طرح انسانی خون سے شرابور تو نہیں مگر اتنی حیرت انگیز ہے کہ یقین نہیں آتا سچ ہوگی۔ 32 برسوں سے امریکہ کے طول و عرض میں اکتوبرکے آخری ہفتے میں ممنوع کتابوںکو ضبط کرنے کا ہفتہ بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ دُوسری طرف امریکی لائبریریوںکی ذہنی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیم پوری دُنیا کو اس شرمناک کارروائی کے حقائق سے باخبر کرتی ہے ورنہ اٹلانٹک کے اس پار رہنے والوں کا تو ذکر کیا ، خود اہل امریکہ کو بھی خبر نہ ہوتی کہ اُن کے ملک میں کون سی کتابیں اُن کی حکومت کی نظر میں قابل مطالعہ ہونے کے معیار پر پورا نہیں اُترتیں۔ یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ حکومت کی عقابی نظر میں اُن کتابوں کی فروخت اور تقسیم پر 
پابندی لگنی چاہیئے جو فحش یا مخرب الاخلاق رویوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں یا جرائم پر اُکساتی، کسی مذہب کے پیرو کاروں کے احساسات کو مجروح کرتی ، سرکاری رازوں کو افشا کرتی، صریحاًعوامی مفاد کے خلاف یا امن عامہ کو درہم برہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ آپ کتابوںکو سفید اور سیاہ ڈبوں میں بند نہیں کر سکتے۔ کتابوں کے بارے میں دو افراد کی رائے بھی ضروری نہیں کہ ایک دُوسرے سے ملتی ہو۔ اچھے اور برُے ہونے کے معیار بھی وقت گزرنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ہم فی الحال ان سب باتوں کو ایک طرف رکھ کر آگے بڑھتے ہیں تاکہ وہ خبر بیان کر سکیں جو کسی کی رائے پر نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔ خبر یہ ہے کہ امریکہ میں غربت ، سماجی ناہمواری اور طبقاتی کشمکش پر لکھی گئی ہرکتاب بھی ممنوع اور ناقابل تقسیم قرار دی جاتی ہے۔ آپ دوکتابوں کے نام پڑھ لیں توآپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ حکومت کی نظر میں کیوں خطرناک اور عوامی مطالعے کے لئے غیر موزوں سمجھی جاتی ہیں۔ David K. Shipler کی کتابThe Working Poor : Invisible in America اور عوام دوست دانشور خاتون Barbara Ehrenreichکی فکر انگیز کتاب :Nickel and Dimed: Not getting by America 
میرے قارئین کی ایک بڑی تعداد جانتی ہوگی کہ اس سال کے شروع میں امریکہ کی ریاست Colorado میں Denver University کے سینکڑوں طلباء اور طالبات نے لیکچر سننے سے انکار کرتے ہوئے ہڑتال کر دی تھی۔ وہ احتجاج کر رہے تھے کہ اُنہیں معاشیات کے مضمون میں یہ کیوں پڑھایا جاتا ہے کہ دُنیا بھرکے انسانوں کے لئے سرمایہ دارانہ نظام ہی بہترین ہے اور اس کا کوئی قابل عمل نعم البدل نہیں۔ قابل صد تعریف ہیں وہ روشن دماغ اور بہادر لوگ جو امریکہ میں جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں عوام دوستی کی مشعل جلاتے ہیں اور بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ روزن برگ جوڑے نے اپنی جان کی قربان دے دی۔ فیض صاحب نے اُن کا مرثیہ لکھاتھا جس کا عنوان تھا :
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
ابھی ان خبروں کی سیاہی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ 24 اکتوبر کی صبح یہ خبر ہر اچھے برطانوی اخبار کے سرورق کی زینت بنی کہ دُوسری جنگ عظیم کے دوران اوربعد میںبرطانیہ کا خفیہ جاسوسی کا ادارہ MI-5 اے جے پی ٹیلر، ایرک ہابس بام، کرسٹوفر ہل اور میری وارنوس سمیت بائیں بازو کے سب تاریخ دانوںکی کڑی نگرانی کرتا تھا۔ اُن کے فون سنے جاتے اور خط و کتابت پڑھی جاتی تھی۔ انسانی فکر و دانش رہتی دُنیا تک ان چار عظیم مورخوں کی احسان مند رہے گی جن کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی کہ جس دن اُن کا سارا وقت انسانی تاریخ کے مختلف پہلوئوں کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہوئے اور تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے گزرا، اُن کے گھر کے باہرکسی جھاڑی میں چھپا ہوا سرکاری جاسوس اُن کے گھر آنے والے مہمانوں کی فہرست مرتب کر رہا ہے یا پڑوسیوں سے ٹوہ لگانے میں مصروف ہے کہ میاں بیوی میں لڑائی ہوتی ہے یا نہیں اور اگر جواب ہاں میں ہے تو کس بات پر ہوتی ہے؟ آپ ان جاسوسوں کی مایوسی کا اندازہ لگائیں کہ جب اُنہیں پتا چلا کہ چاروں مورخ اتنے تنہائی پسند اور اپنے تحقیقی کام میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ نہ اُنہیںگھر مہمان بلانے کی فرصت ملتی تھی اور نہ بیوی سے لڑنے جھگڑنے کی۔
اِن دنوں لندن کے میئر بورس جانسن نے جو اپنے دفتر سائیکل پرجاتے ہیں اور اپنی سنہری زلفوں کی وجہ سے خواتین میں مقبول ہیں اور فخریہ کہتے ہیں کہ ان کے دادا اورنانا دونوں ترک تھے، برطانوی تاریخ کے سب سے بڑے ہیرو و نسٹن چرچل پر کتاب لکھی ہے۔ کتاب کا علمی معیار اتنا پست ہے کہ اس کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہے اور اب ''فاضل‘‘ مصنف اپنی کتاب ہر ملنے والے کو بطور تحفہ دینے پر مجبور ہیں۔ اس سوانح عمری میں بورس جانسن نے صرف ایک دلچسپ بات لکھی ہے۔۔۔۔ بلاشبہ چرچل نے کئی خوبصورت خواتین میں برائے نام دلچسپی تو ضرور لی مگر اپنی بے پناہ سرکاری مصروفیات کی وجہ سے کسی خاتون سے عشق کی پینگیں نہ بڑھا سکے۔ چرچل جب رات کو زیادہ شراب پی لیتے تواپنی وفا شعار اور بے حد حوصلہ مند اور سمجھ دار بیوی کو اپنا راز دان بنا کر اُسے اپنے رومانوی اوردلچسپیوں سے پوری طرح باخبر کر دیتے تھے۔ وہ عفیفہ بڑے صبر سے اپنے خاوندکے قصے سن لیتی ، اُسے پورا یقین تھا کہ وہ بے وفائی کا مرحلہ کبھی طے نہ کریں گے۔ 
روزنامہ گارڈین نے حال ہی میں دُنیا کے امیر ترین افراد پر ایک دلچسپ اور معلوماتی مضمون شائع کیا ہے ۔ یہ مضمون کلائیو کے ذکر سے شروع ہوتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے اس نے بنگال فتح کر کے ہندوستان میں برطانوی راج کی بنیاد رکھی۔ پلاسی کی جنگ میں کامیابی کے بعد لارڈ کلائیو نے بنگال کو اس طرح دونوں ہاتوں سے لوٹا کہ وہ اپنے وطن واپس آیا تو اُس کا شمار برطانیہ کے امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ برطانوی حکومت تک اس سکینڈل کی خبر پہنچی تو اس نے کلائیو کو حکم دیا کہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر یہ وضاحت پیش کرے کہ اُس نے اتنی دولت کس طرح اورکہاں سے حاصل کی۔ ارکان پارلیمنٹ کے تند و تیز سوالوں کا کلائیو نے صرف جو جواب دیا وہ آپ بھی پڑھ لیں: '' فتح بنگال کے بعد جب میں نے بنگال کے خزانے دیکھے تو وہاں سونے چاندی کے اتنے بڑے انبار تھے کہ میں نے جس قدر ضبط کامظاہرہ کیا اُس کا اندازہ لگانا آپ کے لئے ممکن نہ ہوگا۔ شاید ہی کوئی انسان اپنے آپ کو اتنی دولت لوٹنے اور سمیٹنے سے اس طرح روک سکتا جس طرح میں نے کیا۔ اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرے لئے اتنی زیادہ دولت کو برطانیہ واپس لانا عملی طور پر مشکل تھا۔ آپ کو میرے اعتدال اور میانہ روی کی تعریف کرنی چاہئے‘‘۔ لوٹ مار پر کوئی قدغن نہ ہونے کے باوجود فتح بنگال کے بعد غربت میں ڈوبے ہوئے برطانیہ کے نصیب جاگ اُٹھے اور بنگال کے کروڑوں عوام غربت کے سمندر میں اس طرح ڈوبے کہ دو صدیوں کے بعد بھی نہیں نکلے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved