حال ہی میں اختتام پذیر صوبائی اسمبلی انتخابات میں مغربی صوبہ مہاراشٹرمیں حیدر آباد کی مجلس اتحاد المسلمین نے دو نشستیں کیا جیتیں، ملک میں ایک طوفان سا آ گیا ۔ سیکولرکانگریس سے شیو سینا تک مجلس اور اس کے لیڈروں خاص طور پر ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی اور ان کے برادر اکبر الدین کے خلاف کمر بستہ ہوگئے ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ کسی جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے اسے اتنی بار دہرایا جائے کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں چاہے وہ کتنا ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو۔ ملک میں فرقہ پرست طاقتیں اس حربے کو مسلمانوں، مسلم جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کے خلاف بڑی دیدہ دلیری سے استعمال کر رہی ہیں لیکن ان کی گرفت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
یہی اویسی جب پچھلے دس برسوں سے مرکز میں کانگریس کی حکومت کی حمایت کر رہے تھے توسیکولر تھے مگر جب کانگریس سے مایوس مسلمانوں نے مہاراشٹر میں ان کا ہاتھ تھاما تو وہ فرقہ پرست ہوگئے اورکانگریسی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی اور شیو سینا بھی ان کے خلاف لام بند ہوگئی ہے۔
ایسی ایک مذموم مہم فرقہ پرستوں نے مغربی بنگال میں مدارس اسلامیہ کے علاوہ ترنمول کانگریس سے تعلق رکھنے والے مسلم رہنمائوں کے خلاف چھیڑ رکھی ہے۔ مسلم رہنمائوں میں بطور خاص بنگلہ زبان کے مشہور صحافی، دانشور، سماجی کارکن اور کثیر الاشاعت بنگلہ روزنامہ ' قلم ‘ کے ایگزیکٹو ایڈیٹراور ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ احمد حسن عمران کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ان کے خلاف شر انگیزی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ انہیں 'پاکستانی شہری‘ تک کہہ دیا گیا ہے ۔ ان پر یہ شر انگیز الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے شاردا چٹ فنڈکا پیسہ بنگلہ دیش میں دہشت گرد تنظیموں کو بھیجا جس کی نہ صرف بنگلہ دیش حکومت نے بلکہ اب مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی نے بھی تردید کردی ہے۔ ہندو فرقہ پرستوں کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ لیڈر بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہیں ہیں۔
بھارت میں تجزیہ کاروںکا ابھی تک یہ خیال تھا کہ فرقہ پرستی کا زہر صرف جنوبی بھارت اور اس کے بحیرہ عرب کے ساتھ لگی مغربی ساحلی صوبوں تک ہی محدود ہے اور خلیج بنگال سے متصل مشرقی ساحلی صوبے بڑی حد تک سیکولر ہیں ، مگر اب لگ رہا ہے کہ مغربی بنگال اب فرقہ پرستوں کے خصوصی نشانہ پر ہے۔ 2016ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لئے فرقہ پرست عناصر یہاں مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کیونکہ ریاست میں30 فیصد سے زائد مسلمان ہیں جن کی اکثریت موجودہ حکومت کے ساتھ ہے۔ اس ریاست میں فرقہ پرست طاقتیں کتنی طاقتور ہوگئی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی حمایت میں فرقہ پرستوں نے ریاستی دارالحکومت کولکتہ میں ایک بڑا جلوس نکالا تھا جس میں اسرائیل کی حمایت میں نعرے بلند کئے گئے تھے۔
احمد حسن عمران کے خلاف یہ شر انگیز مہم اس وقت شروع ہوئی جب ریاست کی حکمران جماعت ترنمول کانگریس نے مارچ میں انہیں ایوان بالا (راجیہ سبھا) کے انتخاب کے لئے امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا۔ بس کیا تھا، فرقہ پرستوں اور ترنمول کانگریس کے مخالف میڈیا نے احمد حسن عمران کے خلاف محاذ کھول دیا اور اس کا سلسلہ اب تک جاری ہے کیونکہ ان کا اخبار ریاست کے کمزور اور اقلیتی طبقات کی ایک موثر آواز ہے، بالخصوص یہ بنگالی مسلمانوں میں کافی مقبول ہے۔کمیونسٹ لیڈر اورسابق ریاستی وزیر گوتم دیب نے الزام لگایاکہ وہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے '' فرنٹ مین ہیں۔ یہی الزام ' بشیر ہاٹ ‘ اسمبلی نشست سے نو منتخب بی جے پی رکن اسمبلی شمیک بھٹاچاریہ نے بھی دہرایا۔ عمران نے ان الزامات پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ وہ 35 سال سے عوامی زندگی میں ہیں ، اس دوران30 سال تک کمیونسٹ ریاست میں بر سر اقتدار رہے تو اس وقت دیب نے ان کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟ احمد حسن عمران پر جو بیہودہ اور مضحکہ خیز الزامات عائد کئے جارہے ہیں ان میںکہا گیا کہ ''وہ پاکستانی شہری ہیں جو ہندوستان میں براستہ آسام 1971-72ء میں داخل ہوئے‘‘۔ ان کا تعلق جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے ہے، وہ بنگلہ دیش میں نام نہاد دہشت گرد تنظیموں کو پیسہ فراہم کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مغربی بنگال کے ضلع جلپائی گوڑی کے Malnady Tea Estateمیں پیدا ہوئے ۔ سن پیدائش 14فروری 1953ء ہے ۔ ان کے والد محمد اسماعیل ٹی اسٹیٹ کے منیجر تھے ۔ احمد حسن عمران پردوسرا سب سے سنگین الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کی ایما پر شاردا چٹ فنڈ کمپنی کا پیسہ بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی تک پہنچایا۔ یہ الزام کس قدر بے بنیاد ہے کہ اس کی تردید خود ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین ، بنگلہ دیش کے وزیرمملکت ، داخلہ سیکرٹری اور دیگر وزرا نے کی ہے کہ شاردا کا پیسہ بنگلہ دیش کو روانہ نہیں کیاگیا۔احمد
حسن عمران پر یہ الزام عائدکیا جارہاہے کہ ان کا تعلق جماعت اسلامی ہند یا جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے ہے۔ مزیدبراں جب نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بعض اخبارات نے یہ افواہیں اڑائیں کہ بنگلہ دیش کی و زیر اعظم حسینہ واجد اور وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران بھارتی حکام نے انہیں احمد حسن عمران کے بارے میں دستاویز پیش کیے ہیں ، لیکن جب بعض صحافیوں نے اس بارے میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم سے سوال کیا تو انہوں نے صاف طور پر کہا کہ نہ اس بارے میں ان کی بھارتی حکام سے کوئی بات ہوئی نہ انہیں کوئی دستاویز دی گئی۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو اپنے عتاب کا نشانہ بنا رکھا ہے لیکن یہ دونوں جماعتیں وہاں ممنوع قرار نہیں دی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں چند ماہ قبل ہوئے ضلع پریشدوں اور بلدیاتی انتخابات میں یہ دونوں جماعتیں شاندارکامیابی حاصل کر چکی ہیں۔
احمد حسن عمران کی کردارکشی کے لئے فساد کے ایک واقعہ کو بھی استعمال کیا جارہا ہے ۔گزشتہ سال چوبیس پرگنہ ضلع کے نیاکھالی مقام پر ایک امام کو قتل کئے جانے کے نتیجے میں فساد پھوٹ پڑا تھا۔ وہاں مسلمانوں نے طیش میں آکر بعض ہندوئوں کے جھونپڑے جلادیے تھے ۔ اس فساد کے حوالے سے ایک بنگالی اخبار نے حال ہی میں یہ خبر شائع کی کہ احمد حسن عمران نے فساد کے لئے لوگوں کو اکسایا تھا اور انہیں ہتھیار مہیا کئے تھے۔ اس سلسلے میں ڈ سٹرکٹ انفورسمنٹ برانچ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیاگیا ہے۔ اسی طرح انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے یہ بے بنیاد خبریں پھیلائی گئیں کہ ممتا بینرجی کی ایما پر وہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد حکومت کو گرا نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ انہوں نے راقم سے کہا کہ ممتا ایسا کیوں کرنا چاہیں گی؟ جن کے بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت سے اچھے روابط ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک انٹیلی جنس کی طرف سے ایسی کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔
خیال رہے کہ ٹائمز آف انڈیا نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ احمد حسن عمران پارلیمان کے تمام ارکان میں سب سے غریب رکن ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس اپنا ذاتی مکان بھی نہیں ہے ۔ وہ آج بھی کلکتہ شہر میں ایک کرایہ کے فلیٹ میں رہتے ہیں۔ نہ ان کے پاس ذاتی کار ہے نہ کوئی زرعی اراضی ۔ علاوہ ازیں ملک کی کسی عدالت یا پولیس تھانہ میں ان کے خلاف کوئی مقدمہ یا ایف آئی آر درج نہیں ہے۔ اپنے صحافتی سفر کے بارے میں احمد حسن عمران نے بتایا کہ ' قلم‘ نکالنے کے علاوہ انہوں نے ایک بنگلہ دیشی اخبار ' نیا دیگانتا‘ کے لئے کلکتہ سے بطور نامہ نگار کام کیا اور ریڈیو تہران کی بنگالی سروس سے بھی وابستہ رہے ۔ انہوں نے سیاست میںاسی سال قدم رکھا جب انہوں نے جنوری 2014ء میں ٹی ایم سی کی رکنیت حاصل کی، اس سے قبل وہ 2008ء سے اسکے حامی رہے ۔
احمد حسن عمران کے خلاف جاری اس مہم پر بنگال کے مسلمانوں کے تمام طبقات میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ تمام مسلم لیڈروں اور تنظیموںنے میڈیا اور فرقہ پرستوںکی اس مہم کو بے بنیاد اور اس کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے۔ در اصل میڈیا اس مہم کے ذریعہ مسلم لیڈورں بالخصوص احمد حسن عمران اور مدارس اسلامیہ کی آڑ میں ترنمول کانگریس اور وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کو نشانہ بنارہا ہے تاکہ ان کی ساکھ غیر مسلموںمیں مشکوک بن جائے۔ اس کے علاوہ اگر وہ اپنے پارٹی کے مسلم رہنمائوں کا دفاع کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو اس کا غلط تاثر مسلمانوں میں جائے گا ۔