تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     11-11-2014

اقبال ،ایک مضبوط ثقافتی پل

مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر این میری شمل نے اقبال کو مشرق اور مغرب کے درمیان پُل سے تشبیہ دی تھی۔ پروفیسر آرنلڈ اور پروفیسر نکلسن نے اقبال کے فارسی کلام کے انگریزی تراجم کیے۔دونوں اقبال کے استاد بھی تھے پروفیسر آرنلڈ نے اقبال کو گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھایا تھا اور وہی ان کی انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کے محرک بھی تھے۔ اقبال کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا موضوع فلسفہ عجم تھا ۔ اس مقالے کا ذکر 1912میں ماسکو میں لکھے گئے ایک تنقیدی مضمون میں ملتا ہے۔ 
کلچر ڈپلومیسی ہماری سفارت کاری کا ایک کمزور شعبہ رہا ہے حالانکہ ہم فخر سے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں اقبال ،فیض احمد فیض ، عبدالرحمن چغتائی،صادقین اور نصرت فتح علی خان جیسے لوگ پیدا ہوئے ہیں ہماری اس کوتاہی کی وجہ سے آج کی دنیا پاکستان کو صرف دہشت گردی کا گہوارہ سمجھتی ہے۔ میں جب دوشنبے (تاجکستان) میں سفیر تھا تو وہاں 9نومبر کو اقبال ڈے کی بہت ہی کامیاب تقریبات ہوئیں ۔آج تمام پڑھے لکھے تاجک اقبال کے عشاق ہیں۔ کلیات اقبال کو میرے دوشنبے میں قیام کے دوران ہی روسی رسم الخط میں ڈھال کر چھاپ دیا گیا تھا۔ تاجک سکالر اس کتاب کا نسخہ حاصل کرنے کے لیے سفارشیں کراتے تھے اور پھر اپنی آخری پوسٹنگ یعنی مسقط میں سلطان قابوس یونیورسٹی نے اقبال کے بارے میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا اس میں Key Note Speechمیرا خطاب تھا جو کہ عربی میں تھا ۔ اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننے کی معانی چاہتا ہوں ۔ 
اقبال نے اپنی زندگی میں تقریباً بارہ ہزار شعر لکھے اور ان میں سے سات ہزار فارسی میں ہیں؛لہٰذا ایران اور افغانستان میں اقبال کی مقبولیت سمجھ میں آتی ہے لیکن یہاں ہندوستان اور عرب ممالک کا حوالہ بھی ضروری ہے۔ اقبال نے اپنے آپ کو کئی جگہ برہمن زادہ لکھا ہے لیکن اس برہمن زادہ کو مسلمان ہونے پر بے حد فخر ہے۔ ؎ 
اگرچہ زادۂ ہندم فروغ چشم من است
زخاک پاک بخارا و کابل و تبریز
(میں اگرچہ ہندوستان میں پیدا ہوا مگر میرے افکار کو بخارا ،کابل اور تبریز کی پاک مٹی سے جلا ملی)
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا آج بھی انڈیا میں فخر سے گایا جاتا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت ہند نے 1976ء میں اقبال کی صد سالہ تقریبات منائیں جبکہ حکومت پاکستان نے 1977ء میں۔ مجھے یاد ہے دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں میں اقبال کے بارے میں تقریبات ہوئی تھیں۔ اگرچہ اقبال کے شعری اور فکری ارتقاء سے ظاہر ہے کہ شاعر کے اندر کا برہمن زادہ رفتہ رفتہ کمزور ہوتا گیا اور اقبال ایک Pan Islamicشاعر بنتے گئے۔ لیکن آج بھی یہ دانائے راز پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک پل ضرور ہے۔ خطبہ الہ آباد میں بھی ہمیں ہندوستان دشمنی کہیں نظر نہیں آتی۔
مولانا جلال الدین رومیؒ جو بلخ میں پیدائش کے حوالے سے بلخی بھی کہلاتے ہیں افغانستان میں پیدا ہوئے اور ترکی میں دفن ہیں۔مولانا اقبال کے مرشد روحی ہیں۔ اقبال بڑے فخر سے انہیں پیررومی اور اپنے آپ کو مرید ہندی کہتا ہے ۔ ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی اقبال کے فلسفہ انقلاب کے قائل تھے۔ قارئین کے لیے یہ امر دلچسپی کا حامل ہو گا کہ 1952میں طہران میں یوم اقبال منایا گیا جس میں ایرا ن کے وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق نے خطاب کیا۔ایرانی انقلاب کے رہنما آئت اللہ خمینیؒ نے اپنے خطبات میں کئی مرتبہ اقبال کے اشعار کا حوالہ دیا۔ وہ بھی اقبال کے فلسفہ انقلاب کے معتقد تھے ۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اپنے ایک خطبے میں آئت اللہ خمینی نے اقبال کا یہ شعر پڑھا ؎
خواجہ ازخون رگ مزدور سازد لعل ناب
از جفائے دہ خدایاں کشت دہقانان خراب 
انقلاب انقلاب اے انقلاب
(مالک مزدوروں کے خون پسینے کی بدولت مزے کرتا ہے اورجاگیرداروں کے ظلم سے کسان کی محنت بے ثمر ہو جاتی ہے۔اس ظلم کا حل انقلاب ہے)
یہاں اقبال کے اس شعر کا حوالہ ضروری ہے جس کے بارے میں اکثر ایرانی 1979میں یہ کہتے سنے گئے کہ اس میں آئت اللہ خمینی اور ان کے انقلاب کی پیشین گوئی تھی ؎
می رسد مردے کہ زنجیر غلاماں بشکند 
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما
یہ نظم ایرانی نوجوانوں کے نام ہے اور ترجمہ یہ ہے (ایک مرد ایسا آئے گا جو غلاموں کی زنجیریں توڑ دے گا میں نے یہ تمہاری جیل کی دیوار کے روزن سے دیکھ لیا ہے)
اور اب دوشنبے کی طرف واپس لوٹتے ہیں ۔ جہاں اقبال کے عشاق بے شمار ہیں۔1980ء کی دہائی کی بات ہے ،افغان مہاجرین پاکستان آ رہے تھے ،ان میں تاجک بھی تھے جو فارسی بولتے ہیں ۔ سول سروس کے ایک نہایت ہی قابل افسر عبداللہ صاحب افغانستان مہاجرین کے کمشنر تھے ۔عبداللہ صاحب کو ایک تاجک نے بتایا کہ صرف افغانستان کے لوگ اقبال کے کلام تک رسائی رکھتے ہیں کیونکہ وہ عربی رسم الخط پڑھ سکتے ہیں؛البتہ تاجکستان کے بیشتر لوگ کلام اقبال پڑھنے سے محروم ہیں کیونکہ وہ صرف روسی رسم الخط سے واقف ہیں۔ عبداللہ صاحب کو یہ بات بتانے والا تاجک دونوں طرح کی لکھائی جانتا تھا۔ عبداللہ صاحب کے ذہن میں نیک خیال آیا کہ علامہ کے فارسی کلام کو سیریلک (Cyrellic)یعنی روسی رسم الخط میں لکھوایا جائے اس طرح سے کلام اقبال سنٹرل ایشیا تک پہنچ جائے گا۔ چنانچہ عبداللہ صاحب کی ذاتی کاوش سے یہ کام مکمل ہوا۔ چند نسخے دوشنبے میں سفارت خانہ بھیجے گئے جنہیں دانشوروں اور ادیبوں میں تقسیم کیا گیا۔ مشہور تاجک دانشور محمد عاصمی ایک روز میرے پاس سفارت خانہ آئے۔وہ کافی غصہ کی حالت میں تھے کہنے لگے، سفیر صاحب اس کتاب کی تقسیم رکوا دیں۔ اس میں بہت غلطیاں ہیں۔چنانچہ تقسیم روک دی گئی۔ پانچ جید تاجک سکالروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے کتاب کے ایک ایک لفظ اور اس کی تحریر پر نظرثانی کی اور کتاب کو دوبارہ چھپوایا گیا۔
اقبال کی فارسی شاعری کو تاجکستان میں متعارف کرانے میں فیض صاحب کا بھی کلیدی کردار تھا۔ فیض صاحب ماسکو جاتے رہتے تھے۔ وہیں ان کی تاجک شعراء سے ملاقات ہوئی۔ اس زمانے میں پڑھے لکھے تاجک یا روسی بولتے تھے یا فارسی ۔ فیض صاحب نے ایک ذاتی محفل میں اقبال کے چند فارسی شعر سنائے۔ سب سے معروف تاجک شاعر میر سعید میر شکر نے فیض صاحب سے استفسار کیا کہ اتنے خوبصورت اشعار کس کے ہیں۔ اس طرح اقبال کے فارسی اشعار سنٹرل ایشیا کے شعرا تک گئے لیکن کلیات اقبال کو تاجک عوام تک پہنچانے کا سہرا پھر بھی عبداللہ صاحب کے سر ہی ہے۔
میرے دوشنبے میں قیام کے دوران دو مرتبہ اقبال ڈے کی تقریب ہوئی۔ ایک سال معروف فارسی سکالر ڈاکٹر صدیق خان شبلی پاکستان سے آئے ۔ان کی تقریر بہت ہی عالمانہ تھی۔ تقریب دوشنبے کے ایک بڑے ہال میں ہوئی اور وہاں تل رکھنے کی جگہ نہ تھی۔اگلے سال یعنی 1995ء میں معروف دانشور اور فارسی دان محترمہ شمیم زیدی آئیں ۔تاجک لوگ حیران تھے کہ پاکستان میں خواتین دانشور بھی ہوتی ہیں۔ سوویت زمانے میں پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پھیلایا گیا تھا کہ یہ بہت ہی پسماندہ ملک ہے جہاں خواتین گھرں میں قید رہتی ہیں۔ ڈاکٹر شمیم زیدی کے آنے سے پاکستان کا امیج بہت بہتر ہوا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ 1991ء میں اقبال کی نظم ''از خواب گراں خیز ‘‘ہر تاجک حریت پسند کی زبان پر تھی۔
عرب دنیا میں اقبال کو متعارف کرانے کا اعزاز ڈاکٹر عبدالوہاب عزام کو جاتا ہے جو 1950ء کی دہائی میں پاکستان میں مصر کے سفیر تھے۔ ڈاکٹر عزام نے اقبال کی چند نظموں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ پھر ایک اور مصری دانشور صاوی علی شعلان نے شکوہ کا عربی ترجمہ کیا اور عنوان ''حدیث الروح‘‘ یعنی دل کی بات رکھا۔ترجمہ خوبصورت تھا اور اسے گا کر ام کلثوم نے اقبال کے کلام کو گھر گھر پہنچا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال ہمارا بہت عظیم ثقافتی ورثہ ہے۔ یہ ایسا مضبوط پل ہے جو ہمیں دوسرے ممالک سے ثقافتی رشتوں میں جوڑتا ہے لیکن ہم نے بقول ضمیر جعفری مرحوم اقبال کو قوالوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
اقبال پوری دنیا سے ہم کلام ہے اور ہمیں بھی دنیا سے ہم کلام ہونا چاہیے۔ہم گلوبل ویلیج میں کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ تو آئیے اقبال کے عظیم پیغام کو اقوام عالم سے رشتے قائم کرنے کے لیے پل بنائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved