فضا اعظمی کا شمار ہمارے سینئر نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔'' سخن کے پانچ رنگ ‘‘کے عنوان سے ان کا یہ مجموعہ کلام ادارہ رنگ ادب کراچی نے شائع کیا ہے اور زائداز 800صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 1000روپے رکھی گئی ہے جو شاعر کی پانچ طویل نظموں سے مزین ہے۔ اندرونی سرورق پر معتبر نقادان فن کی آرا اس طرح درج ہیں:
مرثیہ مرگِ ضمیر ایک احتجاج ہے۔ ایک شکوہ ہے۔ ایک شکایت ہے۔ کرب و اندوہ کی ایک مہذب چیخ بھی ہے۔ اگر یہاں شکوہ ہے تو جواب بھی ہے۔ شکایت ہے تو مداوا بھی ہے اور چیخ ہے تو تسلی کا راستہ بھی (ڈاکٹر منظور احمد)
آواز شکستگی: اس کتاب میں میری دلچسپی اتنی گہری ہے کہ میں نے پوری کتاب ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی (آغا مسعود حسین)
مجموعی شاعری: فضا اعظمی کی نظمیں اپنی ہیئت ، موضوعات اور زوایۂ فکر کے لحاظ سے ایک نئے دور کی نشاندہی کرتی ہیں اور ایک بالکل جدید طرز کی شاعری کا نمونہ پیش کرتی ہیں (عشرت رومانی)
عذابِ ہمسائیگی : اس میں رجزیہ آہنگ بھی ہے اورعنتری ، مرحبی لہجہ بھی، بانگ درا بھی ہے اور ضرب کلیم بھی (حقانی القاسمی)
عذابِ ہمسائیگی: فضا اعظمی کی نظم نے جہاں تک میں اس نظم کا مطالعہ کرسکا ہوں ، پرامن بقائے باہمی کے اعلیٰ تر مقصد کی بڑی خوبصورت ترجمانی کرتی ہے اور وہ لائق مبارکباد ہیں کہ انہوں نے برصغیر کی سیاست کے اس پُر آشوب دور میں امن اور سلامتی کے چراغ جلائے ہیں(ڈاکٹر محمد علی صدیقی)۔
آواز شکستگی : اس نظم کے مطالعے سے مجھ پر ایک عجیب عالم گزر گیا( ڈاکٹر اسلم فرخی)
ان کے علاوہ تحسین انجم ، پروفیسر سید وقار احمد رضوی، ڈاکٹر فاروق احمد ، پروفیسر ڈاکٹر فاروق احمد ، اظہر جاوید ، ڈاکٹر انورسدید، پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی توصیفی آراء شامل ہیں۔
'' بحر 100-1غزلیں ‘‘ معروف شاعر، شاعر علی شاعر کا مجموعہ غزل ہے جس کا امتیاز یہ ہے کہ یہ ایک ہی بحر میں کہی گئی ہیں۔ اس کا دیباچہ سرور جاوید نے لکھا ہے جبکہ اندرونی فلیپ فراست رضوی اور پس سرورق تحریر اعجاز رحمانی کے قلم سے ہے۔ فراست رضوی کے بقول شاعر ایک مشاّق قلم کار ہیں، وہ ایک تسلسل کے ساتھ تخلیق کے راستوں پر گامزن رہتے ہیں۔ افسانہ نگاری ہو، تنقید ہو یا ادب کی مختلف اصناف ، ان کا قلم کبھی واماندگی کا شکار نہیں ہوتا۔ ان کے ادبی مزاج کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کسی نئے پن کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اعجاز رحمانی کے بقول بحر 100-1غزلیں شاعر علی شاعر کا منفرد تخلیقی کارنامہ ہے۔ غزلیں تو سبھی شاعر کہتے ہیں مگر نادر خیال اور اس اہتمام کے ساتھ کہ بحر ایک ہی رہے اور 100غزلیں مختلف ، ردیف و قوافی میں لکھی جائیں ‘یہ کار ہنر ہر کسی کو نہیں آتا۔ اس قسم کا کار ادب وہی تخلیق کار انجام دے سکتا ہے جو زودگو ، کہنہ مشق ، علم و فن کا جاننے والا، فن شاعری پر قدرت اور الفاظ و خیال کو سجاکر پیش کرنے پر مہارت رکھنے والا ہو۔ ظفر اکیڈمی کراچی کی شائع کردہ اس کتاب کی قیمت 300روپے رکھی گئی ہے۔
'' پروائیاں‘‘ بیکل اتساہی کا مجموعہ غزل ہے جو رنگ ادب نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت 300روپے رکھی گئی ہے۔ کتاب کا انتساب سینئر شاعر سعید الظفر صدیقی کے نام ہے جن کی رنگین تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔ اس کا پس سرورق خود ناشر شاعر علی شاعر نے قلمبند کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی نے ان ہندوستانی شعرائے کرام کے مجموعہ ہائے کلام کو شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ، جن کا کلام پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔ جناب بیکل اتساہی کا مجموعہ غزل اس سلسلے کی پانچویں کڑی ہے۔
'' عہد بہادر شاہ سے عہد سعید الظفر تک‘‘ بھی رنگ ادب والوں ہی نے چھاپی ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ ٹائٹل پر بہادر شاہ ظفر اور سعیدالظفر کی تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ یہ اردو غزل کا عالمی انتخاب ، گویا 750سخنوروں کی 1500منتخب غزلوں کا گلدستہ ہے۔ شعراء کے کلام کے ساتھ ساتھ اگر ان کا مختصر تعارف بھی شائع کردیا جاتا تو اس کی افادیت میں اضافہ ہوتا۔ شہزاد احمد ، سلیم احمد اور احمد ہمدانی نے اس کے دیباچے قلم بند کیے ہیں۔ یہ کتاب فیض عالم بابر اور شاعر علی شاعر نے مرتب کی ہے اور پس سرورق پر کہاگیا ہے کہ پہلے یہ انتخاب ایک ہی جلد پر مشتمل تھا لیکن اب اسے مزید جامع کردیاگیا ہے۔ یہ کتاب بھی رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت 2000روپے رکھی گئی ہے۔
علوم افراد :مردانہ ، زنانہ، بچگانہ شخصی خاکوں پر مشتمل یہ مسرور کن کتاب بھی رنگ ادب ہی نے چھاپی ہے جس کے پس سرورق پر مصنف لکھتا ہے:
٭...مصنف کی قریب کی نظر کمزور ہے۔ اس کی والدہ نظر کا چشمہ لگاتی ہیں۔ اس کا ایک بھائی نظر کا معائنہ کرتا ہے۔ اس کی نظر میں چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔ وہ کسی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ اللہ اسے نظر بد سے محفوظ رکھے۔ کبھی نظر بند نہیں رہا وغیرہ وغیرہ ۔ کتاب کا انتساب اسی طرح سے ہے۔
اپنے چھوٹے بھائی کا مران احمد علوی اور بھابی طاہرہ کامران کے نام ، جو ریٹائر ہونے کے باوجود بھی ہماری عزت کرتے ہیں۔
کتاب کے شروع میں یہ نوٹ درج ہے کہ کتاب پسند نہ آئے تو ضائع نہ کریں ، آدھی قیمت پر کسی دوسرے کو دے دیں۔ ایک خوشخبری یہ بھی ہے کہ مصنف کی کوئی بھی پرانی کتاب دے کر (قیمت کے فرق کے ساتھ) اس کی یہ نئی کتاب حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ سہولت محدود مدت اور کنجوس لوگوں کے لیے ہے،
اور اب مصنف کے کچھ اقوال زریں:
٭... پاکستان سے سرداری نظام کا خاتمہ اسی وقت ہوگیا تھا جب سکھ یہاں سے چلے گئے تھے۔
٭...کہتے ہیں علم بڑی دولت ہے۔ ہوگی۔ مگر یہ مسئلہ آج تک حل نہیں ہوسکا کہ جس کے پاس علم ہوتا ہے اس کے پاس دولت کیوں نہیں ہوتی اور جس کے پاس دولت ہوتی ہے اس کے پاس علم کیوں نہیں ہوتا۔
٭...وزیر بننے میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مفت کی سیر و سیاحت ہوجاتی ہے۔ البتہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ اس قدر سیرو سفر کے باوجود کسی وزیر نے سفر نامہ کیوں نہیں لکھا؟ ممکن ہے کسی نے لکھ کر نہ دیا ہو!
مصنف انور احمد علوی کی دیگر کتابیں حسب ذیل ہیں:
جملہ حقوق غیر محفوظ ، مس گائیڈ، سود کے تعاقب میں ، اور غالب کا دستر خوان (پیروڈی خطوطِ غالب)۔
کتاب ابھی پڑھ نہیں سکا ہوں اس لیے یہی کافی سمجھا جائے۔120صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 200روپے رکھی گئی ہے۔
آج کا مطلع
کسی تازہ سفر کے واسطے تیار ہونا ہے
مگر پہلے پرانے خواب سے بیدار ہونا ہے