تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     12-11-2014

نیا افغانستان علاقائی تناظر میں

پاکستان اور افغانستان کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان کو بخار چڑھے تو پاکستان کو چھینک ضرور آتی ہے۔ ایک طویل بارڈر لائن سے جو دشوار گزار راستوں سے گزرتی ہے۔ سرحد کے دونوں جانب عزیز داریاں ہیں۔ گزشتہ دس سال سے نان سٹیٹ ایکٹرز اس سرحد کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ افغان فروٹ کی نزدیک ترین بڑی مارکیٹ پاکستان ہے۔ پاکستان سے ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ مال ہر سال افغانستان ایکسپورٹ ہوتا ہے جس میں بنیادی غذائی اشیا سے لے کر سیمنٹ تک شامل ہے۔ کوئی بیس لاکھ افغانی اب بھی پاکستان میں پناہ گزین ہیں۔ افغانستان میں امن ہوگا تو یہ لوگ واپس اپنے وطن جاسکیں گے۔ افغانستان اقتصادی ترقی کرے گا تو پاکستان سے مزید مال امپورٹ کرسکے گا۔ لہٰذا خوش حال اور مستحکم افغانستان نہ صرف افغان شہریوں کی دلی آرزو بلکہ پاکستان کی بھی خواہش ہے۔ حامد کرزئی والا افغانستان قصہ پارینہ ہوا۔ نئی افغان لیڈر شپ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں نیا سٹارٹ لینا چاہتی ہے۔ کرزئی کے دور میں باہمی اعتماد کی شدید کمی رہی۔ موصوف سیماب صفت شخصیت رکھتے ہیں۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ اسلام آباد آتے تھے تو لگتا تھا کہ ان سے بڑا پاکستان کا خیر خواہ اور دوست کوئی اور نہیں۔ کابل واپس جاتے ہی وہی معاندانہ بیانات شروع ہوجاتے تھے۔ 
افغانستان کے الیکشن کے دوران دو مضبوط امیدواروں کا مل کر قومی حکومت تشکیل دینا خوش آئند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پشتون تاجک ازبک اور ہزارہ سب ہی اس حکومت میں شامل ہیں۔ اگر یہ اتحاد قائم رہا تو کابل کی حکومت طالبان کے ساتھ خوداعتمادی سے بات چیت کرسکے گی۔ پاکستان افغان 
امن مذاکرات کرانے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے اور میرا خیال ہے کہ نئی افغان قیادت اس بات کا ادراک رکھتی ہے۔کابل میں نئی حکومت بننے کے بعد مختصر سے عرصے میں پاکستان سے تین اہم شخصیات نے ہمسایہ ملک کا دورہ کیا۔ صدر ممنون حسین کا دورہ تو صرف حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے کی غرض سے تھا لیکن مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دوروں میں دو طرفہ امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ افغان صدر اشرف غنی کا پاکستان کا دورہ جلد متوقع ہے۔ اس سال کے آخر تک یعنی چند ہی ہفتوں میں بیشتر غیر ملکی فوجی افغانستان سے چلے جائیں گے۔ دس ہزار کے قریب امریکی اور نیٹو کے فوجی افغانستان میں رہیں گے لیکن ان کا رول بدل جائے گا۔ اب وہ اپنی توجہ جنگ کی بجائے ٹریننگ پر مرکوز رکھیں گے۔
پاکستان میں ضرب عضب چند ماہ سے کامیابی سے جاری ہے۔ اس آپریشن کے بعد پاکستان کے رول کے بارے میں تمام شکوک ختم ہوجانا چاہئیں تھے۔ لیکن کچھ امریکی اور بھارتی ادارے ابھی تک پرانے بریف اٹھائے پھرتے ہیں۔ وہ انہیں فل سٹاپ اور کومے بدل کر نئی رپورٹ کے طور پر پیش کردیتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال امریکی وزارت دفاع کی حالیہ رپورٹ میں نظر آئی جو امریکی کانگرس کو بھیجی گئی۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں اب بھی موجود ہیں جنہیں افغانستان اور بھارت کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ جھوٹ کا پلندہ ہے لیکن انڈین میڈیا نے اسے خوب اچھالا۔ مگر افغانستان میں سینئر امریکی جرنیل جوزف اینڈرسن نے اس رپورٹ کے فوراً بعد امریکی وزارت دفاع کو بریفنگ دی اور پاکستان کے ملٹری آپریشن کی ستائش میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ جنرل اینڈرسن نے کھل کر کہا کہ پاکستانی آپریشن کی وجہ سے حقانی گروپ کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اب یہ گروپ پہلے کی طرح کابل پر حملے کرنے کے قابل نہیں رہا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمینی حقائق کو افغانستان میں موجود جنرل اینڈرسن بہتر جانتے ہیں یا سات سمندر پار بیٹھے ہوئے امریکی وزارت دفاع کے افسر۔ انگریزی محاورے کے مطابق مجھے لگتا ہے کہ یہ حماقت تدبر سے عاری نہیں۔ سوچ سمجھ کر دو بالکل مختلف بیان دیے گئے ہیں تاکہ پاکستان پر پریشر جاری ہے۔
کچھ عرصہ پہلے افغانستان اور بھارت میں اسلحہ کی ترسیل کا معاہدہ ہوا تھا۔ یہ حامد کرزئی کے زمانے کی بات ہے۔ بھارت معاہدے میں مقررہ وقت کے مطابق اسلحہ نہیں پہنچا سکا۔ چنانچہ افغانستان کی موجودہ حکومت نے معاہدہ منسوخ کردیا۔ بھارت کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر اجیت کمار دوول بھاگے بھاگے کابل گئے مگر نئی افغان قیادت نے ان کا معاہدہ بحال کرنے کی درخواست کی پزیرائی نہیں کی۔ اس کے بعد جو بھارت میں میڈیا والوں نے کہا اور لکھا وہ دلچسپ ہے۔ سابق بھارتی سفیر بھدرا کمار نے اپنے کالم میں اس میڈیا کی بحث کا حوالہ دیا ہے۔ اکثر بھارتیوں کا خیال تھا کہ ہم نے افغانستان میں بہت سرمایہ کاری کی ہے مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میری بلی اور مجھے ہی میائوں۔ سب سے زیادہ غصہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پر نکلا ہے۔ کچھ انڈین مبصروں نے یہاں تک کہا ہے اس شخص کی انتخابی مہم میں بھارتی ایجنسیوں نے پیسے لگائے اور آج یہی شخص ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ بھارتی عمومی طور پر گھاٹے کا سودا نہیں کرتے اور اگر ایسا ہوجائے تو مہینوں سر پیٹتے رہتے ہیں۔
پاکستانی نقطہ نظر سے جنرل راحیل شریف کا دورہ کابل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کابل میں یہ بیان کہ دہشت گرد ہمارے مشترکہ دشمن ہیں آنے والے دنوں میں ممکنہ تعاون کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جب تک کابل اور اسلام آباد متحد ہوکر اس خطرے کا سامنا نہیں کرتے دونوں طرف سرحدی علاقے غیر محفوظ رہیں گے۔ اس سلسلہ میں انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بہت اہم ہے۔ 
جنرل راحیل شریف نے افغان حکام کو یہ فراخدلانہ پیش کش کی ہے کہ پاک فوج کے تربیتی ادارے افغان فوجیوں کو ٹریننگ دے سکتے ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ افغان حکام اس آفر کو قبول کریں گے یا نہیں کیونکہ وہاں پاکستان مخالف لابی ابھی تک فعال ہے۔ مشترکہ تاریخ‘ مذہب اور زبان کی وجہ سے پاکستان اور نفسیات متشابہ ہیں۔ لہٰذا افغانیوں کو عسکری تربیت دینے کے لیے پاکستان سے زیادہ مناسب کوئی اور ملک نہیں ہوسکتا۔ افغانستان کو یہ بھی پیشکش کی گئی ہے کہ پاکستان ایک افغانی بریگیڈ کی عسکری صلاحیت بہتر کرسکتا ہے اور اس بریگیڈ کو نیا اسلحہ بھی مہیا کیاجاسکتا ہے۔ یہ آفر فوری ہے اور افغان ردعمل سے کابل کی سوچ کا پتا چل جائے گا۔
پاکستانی مخابرات (انٹیلی جنس) کی عرصے سے رائے ہے کہ جلال آباد اور قندھار میں بھارتی قونصل خانے معاندانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں اور یہ بات قرین قیاس بھی ہے لیکن ہماری ایجنسیوں کا اب یہ فرض ہے کہ اس سلسلہ میں ٹھوس معلومات کابل کے نئے حکام کے سامنے رکھیں کہ ان کی سوچ حامد کرزئی سے مختلف لگتی ہے۔ ملا فضل اللہ کا معاملہ بھی کابل میں اٹھایا گیا ہے۔ اعتماد سازی کے نئے عمل کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک ایسے اشخاص اور تنظیموں کو اپنی سرزمین پر جگہ نہ دیں۔
میرا یہ خیال ہے اگر طالبان اور کابل کی حکومت کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کا آغاز نہ ہوا تو موسم سرما کے بعد وہاں شدید جنگ ہوگی۔ نئی افغان افواج کا امتحان ہوگا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں اور ان حالات میں پاک افغان تعاون بہت اہم ہوگا۔ 
بھارت کے ساتھ اسلحہ کے معاہدے کی تنسیخ سے ایک بات واضح ہے کہ افغان مشکل سے مشکل وقت میں بھی قومی اصولوں پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اب کچھ بھارتی تجزیہ نگار یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ پاکستان کے افغانستان میں قومی مفادات ہیں جو کہ بھارت سے زیادہ ہیں۔ لیکن بھارتی عسکری اداروں کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان کے دونوں اطراف سے گھیرا تنگ کیاجائے ان نئے علاقائی حالات میں ہمارے لیے کابل کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved