آج کل ہم ٹیلی وژن پر جو ڈرامے دیکھتے ہیں وہ اس روایت کے عکاس نہیں رہے جو پاکستانی ٹی وی ڈراموں کی پہچان بنی تھی۔ ہمارے ہاں جو غیرملکی سیریل اردو زبان میں منتقل ہو رہے ہیں اور جو بھارتی ڈرامے ہم ہندی زبان میں دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں ان سب کا ناتا مغربی دنیا کی سوپ اوپرا کی روایت سے جا ملتا ہے۔ ہماری اپنی ڈرامے کی مضبوط روایت بظاہر معدوم ہو رہی ہے۔
ہمارے ہاں ٹی وی ڈرامہ‘ ایک زمانے میں کیوں اس قدر مضبوط تھا کہ لکھنے والے اور پیش کرنے والے نازک سے نازک بات اس انداز میں ناظرین تک پہنچا دیتے تھے کہ ڈرامہ دیکھنے کے کئی دن بعد تک اس کا سرور باقی رہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹی وی ڈرامے کو ریڈیو کے میڈیم سے بہت مدد ملی تھی۔
تقسیم ہند کے بعد ریڈیو پاکستان میں لاہور‘ کراچی سمیت کئی دیگر سٹیشنوں پر ڈرامے کے شعبے میں بے مثال کام ہوا۔ برصغیر میں ڈرامے کی روایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ لوگ کالی داس کی شکنتلا کا حوالہ دینے کے بعد خاموش ہو جاتے تھے۔ بعد میں جا کر اردو زبان میں امانت لکھنوی کی اندرسبھا ملتی تھی۔ یہ ڈرامہ کیا تھا گیتوں بھری کہانی تھی۔ اس کے بعد پارسیوں کے تھیٹر پھر احسن اور بے تاب جیسے لکھنے والے مگر یہ لوگ بھی زیادہ تر انگریزی ڈراموں کو مقامی زبان میں پیش کرتے تھے۔ آغا حشر کاشمیری برصغیر کے شیکسپیئر کہلائے‘ مگر ریڈیو ڈرامے نے اس روایت سے کوئی مدد نہ لی۔ انگریزوں کے دور میں آل انڈیا ریڈیو میں انگریزی ڈراموں کے مقامی زبانوں میں ترجمے کی بوجوہ حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔ وہ ایک بڑی وجہ تھی کہ ریڈیو بین الاقوامی دنیا میں موجود ڈرامے کی توانا روایت سے منسلک ہو گیا۔
اگرچہ ریڈیو سرکاری شعبے میں رہا ہے اور حکومت کا اس پر مکمل کنٹرول آج بھی موجود ہے‘ مگر خوش قسمتی سے ریڈیو پاکستان میں ڈرامے کو سرکاری پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان ترقی نہ پا سکا کیونکہ لکھنے والے لوگوں نے انگریزی ڈرامے کی روایت کو اپنے ہاں آگے بڑھایا تھا اور اس روایت میں ایسی گنجائش موجود نہ تھی کہ ڈرامے کی صنف کو حکومت کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جائے۔
اس وجہ سے ریڈیو میں اچھے ڈراموں کی ایک مضبوط روایت قائم ہوئی اور ہم نے اس میدان میں بڑے بڑے رائٹر اور پروڈیوسر پیدا کیے۔ پاکستان میں جب ٹی وی آیا تو ڈرامے کے میدان میں ریڈیو میں جو لوگ موجود تھے وہی آگے بڑھے اور انہوں نے وہ کارنامہ کر دکھایا جس کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
اس وقت ہمیں ٹی وی ڈرامے کے میدان میں اپنے ہاں جو انحطاط دکھائی دیتا ہے‘ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ نرسری موجود نہیں رہی جو ٹی وی ڈرامے کی آبیاری کرتی تھی۔ وہ نرسری تھی ریڈیو ڈرامہ۔ ریڈیو پاکستان میں اس وقت اگر آپ حقیقت پسندی سے دیکھیں تو ڈرامہ پروڈکشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ وجہ وہی ہے‘ یعنی غربت۔ بجٹ میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ ڈرامے اس طرح سے پروڈیوس کیے جا سکیں جیسے ماضی میں ہوتے تھے۔ اب تو ریڈیو سٹیشنوں پر ڈرامہ کے آڈیشنز بھی نہیں ہوتے۔
ایک زمانے میں ہر سٹیشن پر ڈرامے اور موسیقی کے شعبوں میں ہر ماہ آڈیشنز ہوتے تھے۔ طریقہ کار یہ تھا کہ جو کوئی خواہش مند ہوتا اس کو براہ راست یا بذریعہ ڈاک آڈیشن سلپ بھیج دی جاتی تھی‘ جس پر آڈیشن کی تاریخ درج ہوتی تھی۔ پھر دی ہوئی تاریخ پر باقاعدہ آڈیشنز ہوتے تھے۔
آڈیشنز کا اہتمام کرنا بڑا تکلیف دہ کام ہوتا تھا مگر ضروری تھا۔ آخر نئی آوازیں کہیں سے تو ریڈیو کے اندر داخل ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد ڈراموں کے مسودے لوگ ریڈیو سٹیشن روانہ کر دیتے تھے۔ ان کو Unsolicited scripts کہا جاتا تھا اور ڈرامہ سیکشن میں ان مسودات کا جائزہ لیا جاتا تھا اور کبھی کبھار ایک اچھا لکھاری دریافت ہو جاتا تھا۔ پھر ریڈیو میں جو پینل پر لکھنے والے ہوتے تھے ان سے معروف عالمی فکشن پر مبنی ڈرامے لکھوائے جاتے تھے۔ لکھنے والوں اور پروڈیوسروں کو مل بیٹھ کر مسودے کو آخری شکل دینا ہوتی تھی۔ صوتی اثرات کا محکمہ پس منظر موسیقی کا بھی اہتمام کرتا تھا۔ آرٹسٹوں کی کئی دنوں تک ریہرسلز ہوتی تھیں اور پھر جا کر ڈرامہ تیار ہوتا تھا۔ یہ سارے کام متعلقہ لوگ خوشی سے کرتے تھے حالانکہ معاوضہ بالکل معمولی ہوتا تھا۔
یہ تمام سرگرمیاں اگر آج بھی ریڈیو میں بحال ہو جائیں تو ٹیلی وژن کے میڈیم کو سپورٹ ملنا شروع ہو جائے گی۔ آج بھی اگر آپ ٹیلی وژن کے بہترین لکھنے والے اور فنکاروں کا جائزہ لیں تو ان کی اکثریت نے پہلے ریڈیو پر کام کیا ہوگا اور پھر ٹی وی پر آئے ہوں گے۔ یہ کسی طور بھی شرم کی بات نہیں ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم لوگ کہاں یورپ اور امریکہ کی طرح تربیتی ادارے قائم کر سکتے ہیں۔
آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ریڈیو ڈرامے کو مضبوط کیا جائے۔ بھارت میں آل انڈیا ریڈیو نے 1960ء میں ایک سنٹرل ڈرامہ یونٹ بنا لیا تھا۔ اس یونٹ کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ بہترین ڈرامے لکھوائے اور پروڈیوس کرے۔ اسی یونٹ کے مسودات پھر علاقائی زبانوں کے سٹیشنوں میں بھیجے جاتے ہیں تاکہ ان کا علاقائی زبانوں میں ترجمہ نشر کیا جائے۔ مگر بھارت کے اس سنٹرل ڈرامہ یونٹ کو زیادہ کامیابی غالباً اس وجہ سے نہ مل سکی کہ یہاں موضوعات سرکاری افسر طے کرتے تھے۔ اس طرح ڈرامے کی روح فنا ہو جاتی ہے۔
ہمارے ہاں ماضی میں اگرچہ کوئی سنٹرل ڈرامہ یونٹ نہیں رہا لیکن چونکہ موضوعات کی سماجی اور معاشرتی میدانوں میں مکمل آزادی رہی اس وجہ سے ہمارا ریڈیو ڈرامہ مضبوط ہوتا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ قومی ادارہ ایک سنٹرل ڈرامہ یونٹ قائم کرے اور اس کے لیے مالی وسائل بھی فراہم کرے۔
اس یونٹ کی شاخیں تمام بڑے سٹیشنوں پر ہوں۔ ہر ماہ آڈیشنز کیے جائیں۔ نئی آوازیں متعارف کروائی جائیں۔ نئے لکھنے والے سامنے لائے جائیں۔ ان کو پرانے مسودے فراہم کیے جائیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ ایک مؤثر ریڈیو ڈرامہ کیسے تحریر کیا جاتا ہے۔ یہ یونٹ کم از کم ایک نیا ڈرامہ ہر ہفتے پروڈیوس کرے۔ ابتداء میں اتنا ہی کافی ہے اور بعدازاں اچھی کوالٹی اور سامعین کی تعداد بڑھ جانے کی صورت میں یہ ڈرامے سپانسر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح لکھنے والوں اور فنکاروں کی ایک نرسری قائم ہو جائے گی۔ یہاں سے ٹیلنٹ ہمارے ٹی وی چینلز کو فراہم ہوگا تو ٹی وی ڈراموں کا معیار بلند ہوگا۔ وگرنہ بھارتی سیریلز چھائے رہیں گے اور ترکی کے ڈرامے اردو زبان میں چلتے رہیں گے اور ہمارے پاس بس ایک درخشاں ماضی رہ جائے گا۔ ذکر ہوا کرے گا کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کے ٹی وی ڈرامے اس قدر مقبول تھے کہ ادھر پی ٹی وی پر ڈرامہ نشر ہوتا تھا اور اگلے دن بھارت میں وی ایچ ایس کیسٹ پر اس کی کاپیاں فروخت ہو رہی ہوتی تھیں۔