سیاست میں کبھی جمود نہیں رہتا۔ وہ عرصے بھی‘ جو بظاہر پرسکون اور ساکن نظر آتے ہیں‘ ان میں بھی تہہ کے نیچے حرکت مسلسل جاری رہتی ہے۔ عمران خان نے جو تحریک دھرنوں کے ساتھ شروع کی‘ یہ برسوں کا پکا ہوا وہ لاوا ہے‘ جس کی ابتدائی لہریں عمران کے مینار پاکستان والے ایک جلسے میں دکھائی دیں۔ 2013ء کے انتخابات کے دوران ان میں شدت آئی اور دھرنوں کے ساتھ یہ پوری طرح ابلنے لگا۔ بے شک ان کے بعض اتحادیوں اور ایک ساتھی کی ناراضی نے‘ عین وقت پر پورے ابھار کے ساتھ بڑھتی ہوئی تحریک کو جھٹکا لگایا۔ یہ عوام کے حق میں بہت اچھا ہو گیا کہ حکومت اور اس کے اتحادیوں نے ‘عوامی تحریک کو محلاتی سازش کا نتیجہ قرار دینے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کر لی۔ خود عمران اور مولانا طاہرالقادری کی تقریروں میں عوام کو‘ کامیابی نزدیک ہونے کا تاثر دینے کی خاطر‘ واضح اشارے دیئے گئے‘ جیسے یہ تحریک پس پردہ قوتوں کی ایما پر شروع کی گئی ہے۔حکومت کے نئے نئے کروڑپتی حامیوں نے بڑی مہارت سے‘ عوامی ابھار کو سازش کا نتیجہ قرار دینا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکاروں نے بھی بدامنی کا راستہ اختیار کر کے‘ تحریک کو نقصان پہنچایا۔ جب سازش کا تصور‘ زوروشور سے پھیلایا جا رہا تھا تو عمران خان کے ایک قابل اعتماد ساتھی‘ اچانک میدان میں آئے اور حکومت کے پراپیگنڈے کو تقویت دینے کے لئے ''موقع کے گواہ‘‘ بن گئے۔ سرکاری میڈیااور نئے نئے کروڑ پتی‘ جن کے حوصلے‘ عوامی ابھار کو دیکھ کر پست ہو گئے تھے‘ موقع کے ''فرضی گواہ‘‘ کے اعترافات کو ہتھیار بنا کر پھر سے تازہ دم ہو گئے اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی ہوئی تحریک کو شدید دھچکا لگا۔ اس کے باوجود عوام کے حوصلے بلند رہے۔ انہوں نے تبدیلی کی منزل کی طرف بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ عمران خان نے جلسوں کی مہم شروع کی‘ تو عوام نے حیرت انگیز تعداد میں پرجوش انداز سے‘ جلسوں میں شریک ہو کر‘ حکومت کے مصنوعی حوصلوں کی ہوا نکالنا شروع کر دی۔ اقتدار کے ایوانوں میں ‘ گھبراہٹوں کا سلسلہ جاری رہا۔ غیرجانبدار سیاسی ماہرین وثوق سے کہہ رہے تھے کہ اصل بحران ابھی ختم نہیں ہوا۔ وہ جاری ہے اور اس میں کسی وقت بھی اتنی تیزی آ سکتی ہے کہ بوسیدہ اور کھوکھلا نظام پارہ پارہ ہو سکتا ہے۔
''وعدہ معاف گواہ‘‘ کے اعترافات کا بھرم کھلنے لگا۔ گزشتہ روز دفاع اور پانی و بجلی کے وزیر خواجہ آصف نے‘ ایک ٹیلیویژن چینل پر واضح طورسے‘ اس حقیقت کا اعتراف کر لیا کہ ''دھرنوں کے دوران فوج کی مداخلت کا کوئی چانس نہیں تھا۔‘‘ حکومت اور اس کے اتحادیوں نے اعترافی بیان سے جتنا فائدہ اٹھانا تھا‘ اٹھا لیا اور حسب عادت وقت گزر جانے کے بعد وہ غبارے بھی پھوڑنے اور پھینکنے شروع کر دیئے‘ جو عوام کو گمراہ کرنے کے لئے بھرے گئے تھے۔ سب سے بڑا غبارہ گزشتہ روز خواجہ آصف نے پھوڑ ڈالا کہ ''فوج کی مداخلت کا کوئی چانس نہیں تھا۔‘‘ وہ کہانی‘ جسے سنا کر پارلیمنٹ کے تمام اراکین کا جذبہ جمہوریت ابھارا گیا۔ فوج کے خلاف بلاوجہ پرجوش تقاریر کرائی گئیں اور یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ جیسے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور پارلیمنٹ نے اتحاد کا ثبوت دے کر‘ فوج کو شکست دے دی ہو۔ دھواں دھار تقریریں کرنے والے اراکین پارلیمنٹ کو خواجہ آصف کا یہ اعتراف پڑھ لینا چاہیے۔ اس سے انہیں پتہ چل جائے گا کہ فوجی بغاوت کا جعلی خطرہ کھڑا کر کے‘ انہیں کس طرح بھڑکایا اور استعمال کیا گیا؟ عوام کو وعدہ معاف گواہ کی ''شہادت‘‘ کا پورا یقین نہیں تھا۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ پارلیمنٹ کے وقت سے پہلے ٹوٹنے کا خطرہ دیکھ کر‘ اس کے تمام اراکین خوفزدہ ہو گئے۔ ان کی بڑی اکثریت کروڑوں روپے خرچ کر کے پارلیمنٹ میں پہنچی ہے۔ ابھی ان کے سیزن کا ایک تہائی حصہ بھی نہیں پورا ہوا تھا کہ انہیں پھر نشستوں سے محروم ہو کر انتخابی میدان میں اترنا پڑے گا اور اگر ایسا ہو گیا‘ تو دھاندلی کی گنجائش نہیں رہ جائے گی اور اصل حقیقت ان سب کو معلوم ہے کہ انہیں حقیقی ووٹ کتنے ملے تھے اور آر اوز کی مہربانیاں کس قدر تھیں؟انہوں نے اس خوف میں پوری طاقت سے زور لگا دیا کہ فوج کے خیالی خطرے سے کسی طرح بچ جائیں۔ حکومت‘ جس کا غروروتکبر عروج پر پہنچا ہوا تھا‘ جھاگ کی طرح بیٹھتی نظر آنے لگی۔نہ جانے اس نے کیوں اپنے ہی کھڑے کئے گئے خطرے سے ڈر کے‘ اپنے بچائو کے لئے‘ وہ سارے دائو استعمال کرنا شروع کر دیئے‘ جن میں اسے مہارت حاصل ہے۔ افواہیں پھیلائی گئیں۔ سرمایہ پھیلایا گیا۔ اراکین اسمبلی کے وہ سارے مطالبے آناًفاناً پورے کئے جانے لگے‘ جو ڈیڑھ سال سے طالب توجہ پڑے تھے۔ مگر جیسے ہی فوجی اقدام کا تصوراتی موقع گزر گیا‘ وزیراعظم کی مصروفیات میں دیکھتے ہی دیکھتے اضافہ ہو گیا اور وہ مزیدچند روز وطن میں قیام کرنے کے بجائے‘ لامحدود بیرونی دوروں پر نکل کھڑے ہوئے اور ایک بار پھر اراکین اسمبلی کی حالت یہ ہونے والی ہے ''اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر‘‘۔
سیاسی مبصروں اور تجزیہ نگاروں کی تحریروں سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ پارلیمنٹ کے ڈرامے کی وجہ سے کوئی خطرہ نہیں ٹلا۔ حالات پہلے سے بدتر ہیں۔ عوام کے حوصلے بلند سے بلندتر ہوتے جا رہے ہیں۔ عوامی بیداری اور بیزاری کی لہروں میں‘ طوفانی کیفیت پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ایسے وقت میں
عمران خان اپنے بنیادی مطالبے یعنی ''وزیراعظم فوری استعفیٰ دیں‘‘ سے دستبردار ہو گئے۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ حکومت کو دائو گھات کا موقع نہ دیں۔ عمران خان کی 6شرائط میں تحقیقاتی کمیشن کا قیام اہم تھا‘ حکومت مجوزہ کمیشن کے دائرہ اختیار کا تعین کرتے وقت‘ ایسی ایسی شرائط لگائے گی‘ جن میں انتخابی دھاندلی کا مطلب ہی بدل کے رکھ دیا جائے گا۔ عمران خان کی مذاکراتی ٹیم ‘ اس حکومتی ترکیب سے بخوبی واقف ہے۔ مذاکرات کا سلسلہ یہیں پر ٹوٹا تھا۔ حکومت بظاہر یہ تاثر پیدا کرے گی کہ وہ ‘ عمران کے مطالبات پر مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ نئی نئی پیش کشیں کر کے‘ مذاکرات کو طول دیا جائے گا اور اس دوران کوشش کی جائے گی کہ عوام کے ابھرے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے‘ جلدی جلدی کچھ لالی پاپ دیئے جائیں۔ اس دوران ان کی توجہ تحریک سے ہٹ جائے اور اس کے بعد عمران خان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ ظاہر ہے‘ حکومت کی مشینری موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘ بھرپور پراپیگنڈا شروع کر دے گی کہ عمران خان اور حکومت میں سمجھوتہ ہونے والا ہے۔ دھرنوں کے نتیجے میں حکومت نے اپنی ساری طاقت استعمال کر کے‘ میڈیا کے ساتھ''بندوبست‘‘ کر لیا ہے۔ عمران خان کی دھرنے میں ہونے والی تقریروں کی‘ براہ راست نشریات پہلے ہی ختم کی جا چکی ہیں۔ دوبارہ ان کی پوری پوری تقریریں نشر نہیں کی جائیں گی۔ نئے نئے کروڑ پتی پورے جاہ و جلال کے ساتھ اپنا زور خطابت آزمائیں گے اور عوام کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے کہ عمران خان میدان سے بھاگ نکلے ہیں۔ ان میں قائدانہ صلاحیتیں ہی نہیں ہیں۔ ان کے ساتھی حکومت سے ملے ہوئے ہیں اور جیسے ہی عوامی جدوجہد کا جذبہ محرکہ رہنمائی سے محروم ہوا‘ عوام کے حوصلے پست ہو جائیں گے۔ عزم و ارادے کی شدت ختم ہونے لگے گی اور تبدیلی سے لگائی ہوئی امیدیں ٹوٹنے لگیں گی اور اس کے بعد معاشرے پر جو سکوت طاری ہو گا‘ اس سے نکلنا عوام کے لئے آسان نہیں رہے گا۔ موجودہ پاکستان میں عوامی بیداری کی یہ لہر 1970ء کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک عوام نے کیا کیا صدمات اٹھائے؟ ان کے حقوق کیسے کیسے سلب ہوئے اور انہیں کس بے رحمی سے مایوسیوں کی دلدل میں دھکیلا گیا؟ اس کے انہیں خوب تجربات ہیں۔وہ ان تلخ تجربات کے اثرات سے نجات پانے کے لئے‘ فیصلہ کن جدوجہد کے لئے میدان میں نکل آئے ہیں۔ لیکن یہ جدوجہد منزل سے پہلے ہی قوت محرکہ سے محروم ہو گئی‘ تو عوام ایک مرتبہ پھر ڈپریشن میں چلے جائیں گے۔ یہ وہ ستم ہوتا ہے‘ جو دنیا کاکوئی بھی لیڈر‘ منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی ‘عوام کو بے یار و مدد گار چھوڑ کے‘ ان پر کر سکتا ہے۔ا ب بھی موقع ہے کہ عمران خان ہاتھوں میں آئی ہوئی وقت کی لگاموں کومضبوطی سے پکڑے رکھیں۔ ان کے جو ہاتھ ڈھیلے پڑنے لگے ہیں‘ انہیں پوری طاقت سے بند رکھیں۔ ورنہ عمران خان تو صرف اپنے خوابوں سے ہی محروم ہوں گے لیکن عوام کی زندگی میں تاریکیاں بھر دیں گے۔