تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     13-11-2014

داعش

فارسی کے معروف نغز گو شاعر انوریؔ نے کہا تو اپنے گھر کے بارے میں تھا منطبق یہ سو فیصد آج کے پاکستان پر ہوتا ہے ؎ 
ہر بلائے کز آسماں آید 
گرچہ بر دیگرے قضا باشد 
بہ زمیں نا رسیدہ می گوید 
خانۂ انوریؔ کجا باشد 
(ہر بلا جو آسماں سے نازل ہوتی ہے اگرچہ دوسروں کا مقدر ہوتی ہے مگر زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی پوچھنے لگتی ہے کہ خانۂ انوری کہاں ہے؟) 
لسانی‘ نسلی‘ صوبائی‘ علاقائی اور فرقہ وارانہ تعصبات اور منافرتوں کی بلائیں اہل پاکستان بھگت چکے اب داعش کی صورت میں ایک نئی بلا کا سامنا ہے یہ عسکریت پسندی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا ملغوبہ ہے اس بنا پر اخباری اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان کے ایک دھڑے کے علاوہ کالعدم لشکر جھنگوی‘ کالعدم انجمن سپاہ صحابہ اور دیگر تنظیموں سے وابستہ افراد عراق اور شام میں جنم لینے والی دولت اسلامیہ بلاد عراق و شام میں دلچسپی لے رہے ہیں اور کراچی کے بعد ملتان اور لاہور میں بھی وال چاکنگ کے علاوہ لٹریچر تقسیم کیا جا رہا ہے۔ 
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے پاکستان میں داعش کے ظہور پر دلچسپ اور معنی خیز تبصرہ کیا ''داعش کی مثال کوکا کولا جیسی ہے کہ عالمی برانڈ ہونے کے سبب پوری دنیا میں اس کی نقل کی جاتی ہے‘‘۔ کوکاکولا کی طرح داعش محض عالمی برانڈ نہیں مخصوص پس منظر‘ ذہنی سطح اور عمر کے لوگوں کے لیے باعثِ کشش اور وجۂ تسکین بھی ہے۔ ہمارے دانشور‘ فیصلہ ساز اور صاحبانِ اقتدار و اختیار اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں یہ ان کی مرضی۔ 
1979-80ء میں پاکستان کے بعض چالاک اور شاطر افراد نے عوام کو بینکوں سے کئی گنا زیادہ شرح منافع پر سرمایہ کاری کا جھانسہ دیا‘ کروڑوں روپے بٹورے اور یہ جا وہ جا۔ حکومتی اداروں نے ان فراڈیوں کے خلاف مقدمات بنائے‘ بعض گرفتار ہوئے‘ باقی ماندہ مال مسروقہ برآمد کیا گیا اور قوانین بھی بنے تاکہ آئندہ کسی کو معصوم عوام کو ورغلانے اور ان کی جمع پونجی لوٹنے کی جرأت نہ ہو۔ خوب چرچا ہوا کہ اب کوئی سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنا کر لوٹ نہیں سکے گا مگر چند سال بعد کواپریٹو کارپوریشنوں کے نام سے وہی دھندہ شروع ہو گیا اور اربوں روپے ان کارپوریشنوں نے جمع کر کے اڑا دیئے۔ 
ڈبل شاہ اس سلسلے کی کڑی تھا اور غیر ملکی کرنسی کے کاروبار کا ڈھونگ رچا کر لالچی افراد کو لوٹنے والے بھی اسی قبیل کے لوگ تھے بار بار لوٹنے اور لٹنے کا سبب وہ حالات ہیں جو ہماری مختلف حکومتوں‘ ریاستی اداروں اور سرکاری محکموں نے کم و بیش پینسٹھ سال سے پیدا کر رکھے ہیں کاروبار اور پیسہ غیر محفوظ اور بینکوں و مالیاتی اداروں کی شرح منافع افراط زر سے کم؛ چنانچہ زیادہ منافع کا لالچ دے کر جو چاہے متوسط طبقے کو لوٹ لے۔ زیور اور پیسے دوگنے کرنے والے خود اتنے ذہین نہیں ہوتے جتنے ان کے ہاتھوں لٹنے والے غرض مند اور راتوں رات امیر بننے کے شوقین۔ جب تک ایک لگا کر سو کمانے کا شوق اور ہاتھ پائوں ہلائے بغیر زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی ہوس معاشرے میں موجود ہے فریب کاری ختم ہو سکتی ہے نہ نوسربازوں کا قلع قمع ممکن ہے۔ 
یہی حال کبھی بحیلۂ مذہب‘ کبھی بنام وطن وجود میں آنے والے گروہوں کا ہے جو تھرڈ ورلڈ میں اچانک سر اٹھاتے اور ریاست و معاشرے کے لیے سنگین مسئلہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں بالعموم اس صورت حال کا ذمہ دار مسلکی بنیادوں پر قائم مذہبی جماعتوں‘ فوجی حکومتوں اور عطیات و صدقات سے چلنے والے مدارس کو قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ جزوی سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ ہماری سیاسی اور فوجی حکومتوں نے پینسٹھ سال تک اس ملک کے بدقسمت عوام کو روزگار‘ انصاف‘ سیاسی و معاشی مساوات اور سماجی و مذہبی آزادیوں سے محروم رکھا۔ پرائمری اور مڈل سکول کی عدم موجودگی میں غریب عوام کے پاس اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کرانے کے سوا کیا آپشن ہے آوارہ گردی‘ چوری چکاری اور نشہ بازی۔ 
نوجوانوں کو روزگار ملتا ہے نہ انصاف اور جب وہ تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں تو ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ وہ جمع ہو کر دھرنا دیں‘ احتجاج کریں تو ریاستی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ عمران خان نے 30نومبر کو اسلام آباد میں بڑے اجتماع کا اعلان کیا تو حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے‘ ابھی سے گرفتاریوں کے منصوبے بن رہے ہیں۔ ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر یہاں اسلام اور جمہوریت کا لفظ صرف 1973ء کے آئین میں درج ہے عملاً یہاں دور جاہلیت کی‘ خاندانی اور قبائلی حکمرانی ہے اور دھن‘ دھونس‘ دھاندلی کا راج۔ ماڈل ٹائون میں ریاستی ادارے نے سو افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا‘ چودہ جاں بحق اور 86 زخمی ہوئے مگر آج تک ایک بھی ذمہ دار شخص کو سزا ملنا تو درکنار قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔ جے آئی ٹی نہیں بن سکی‘ باقر نجفی کمشن کی رپورٹ پبلک نہیں کی گئی اور جب گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے اصرار کیا تو انہیں ڈپٹی وزیراعلیٰ کی طرف سے کہا گیا ''چودھری صاحب آج کل آپ بہت اونچا اُڑ رہے ہیں‘‘۔ 
داعش نے کسی ایسے ملک میں جنم نہیں لیا جہاں ضیاء الحق جیسا مذہب پسند فوجی حکمران قابض تھا۔ عراق اور شام میں دینی مدارس کا جال بچھا ہے نہ ان دونوں ممالک کے حکمرانوں نے اپنے ملک میں مذہبی قوانین نافذ کیے۔ یہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کے پیدا کردہ حالات ہیں اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کی سوچی سمجھی سازش۔ پاکستان میں بھی یہ تنظیمیں اس جنگ کی پیداوار ہیں جو افغانوں نے اپنی آزادی کے لیے لڑی مگر امریکہ نے اسے اپنے عالمی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اپنے آپ کو فاتح عالم قرار دے کر نیو ورلڈ آرڈر کا ڈنکا بجایا۔ 
شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد ہم نے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں پر فوجی برتری حاصل کرلی ہے ان کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کی حملہ کرنے کی صلاحیت مفلوج یا ختم کردی ہے مگر ان کی نظریاتی اساس اور مذہب گریزی‘ ناانصافی‘ بے روزگاری اور امریکہ نوازی کے حوالے سے ان کے بیانیے کو عوامی سطح پر مسترد کرنے کے لیے اب تک کیا ہوا؟ کسی کو علم نہیں۔ کیا اس بات کا اہتمام کر لیا گیا ہے کہ اب ناانصافی اور ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والا کوئی نوجوان آتش انتقام بجھانے کے لیے ان گروہوں کے چنگل میں نہیں پھنسے گا؟ کیا روزگار اور تعلیم کے وافر مواقع موجود ہیں کہ کوئی بھولا بھٹکا نوجوان اپنی جہالت‘ غربت‘ بے روزگاری کے سبب ان سے متاثر نہیں ہوگا۔ 
اب تک تحریک طالبان پاکستان‘ داعش اور اس نوعیت کی عسکری تنظیموں کے خلاف وہی دلائل دہرائے جاتے رہے ہیں جو امریکہ و یورپ کے دانشوروں اور سیاسی و عسکری تجزیہ کاروں نے تخلیق کیے جس سے وہ لوگ ہرگز متاثر نہیں ہو سکتے جو ان تنظیموں کے پروپیگنڈے سے متاثر اور مغرب کے سیاسی‘ سماجی اور معاشی غلبے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ جبکہ غربت و افلاس‘ جہالت‘ ناانصافی‘ بے روزگاری اور ظلم و زیادتی کی چکی میں پسنے والے پاکستانی عوام موجودہ نظام‘ اس کے پشتی بان افراد‘ خاندان اور گروہوں سے تنگ اور موثر و پائیدار تبدیلی کے خواہش مند ہیں اور کسی نجات دہندہ کی تلاش میں سرگرداں جو ان عفریتوں سے چھٹکارا دلا سکے۔ 
چودھری نثار علی خان اور رانا ثناء اللہ لاکھ تردید کریں‘ داعش کا ظہور ہو چکا۔ یہ اصلی ہے یا نقلی اس سے خاص فرق نہیں پڑتا‘ نقلی چیزیں زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ کوئی کالعدم تنظیم یا اس کا کوئی منحرف گروپ اگر اپنے اوپر داعش کا لیبل لگاتا ہے تو ابوبکرالبغدادی کو تردید کرنے کی فرصت کہاں؟ مقابلہ محض مضحکہ خیز بیانات سے نہیں کیا جا سکتا۔ وقتی طور پر ریاستی طاقت سے دبا لیا گیا تو بھی یہ فینومینا زیر زمین پھلتا‘ پھولتا‘ پھیلتا رہے گا۔ اس کی مستقل اور موثر بیخ کنی کے لیے وہ اسباب و وجوہات ختم کرنی پڑیں گی جو ایسی تنظیموں کی ساخت پرداخت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کسی بھی درست یا غلط نظریے کا مقابلہ زیادہ طاقتور‘ پرکشش اور قابل قبول نظریے سے کیا جاتا ہے بیان بازی سے نہیں۔ 
ناخواندگی‘ جہالت‘ ظلم‘ دھونس‘ دھاندلی‘ ناانصافی‘ سیاسی و معاشی عدم مساوات اور بے روزگاری کا خاتمہ‘ تعلیم کا فروغ‘ رواداری اور برداشت کے کلچر کی حوصلہ افزائی اور قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم ایسی مؤثر تدابیر ہیں جو خواب فروشی کا راستہ روک سکتی ہیں اور پاکستان کو ان مصیبتوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں جو نازل تو کسی اور کے لیے ہوتی ہیں مگر زمین تک پہنچنے سے پہلے پاکستان کے بارے میں پوچھتی ہیں کہ کہاں واقع اور ان کے لیے کس قدر زرخیز ہے؟ دولت اسلامیہ عراق و شام سے پاکستان کی سرحد ملتی ہے نہ زبان اور کلچر میں مشابہت ہے مگر پھر بھی یہاں داعش کو متعارف کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شاید مہربانوں کا جی ابھی بھرا نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved