کہا جاتا ہے کہ جب تک کرکٹ میں پیسے کی ریل پیل نہیں ہوئی تھی، یہ ایک جنٹلمین کا کھیل تھا‘ لیکن اس میں رقم کے ملوث ہونے سے میچ فکسنگ کی جیسی خرابیاں در آئیں اور کھلاڑی راتوں رات امیر ہونے کے لیے اپنی مہارت فروخت کرنے لگے‘ لیکن کرکٹ ہی واحد شعبہ نہیں‘ جہاں رقم نے روایات کو بدل دیا، بہت سے اور شعبے بھی ہیں‘ جن کا رنگ ڈھنگ تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے کیونکہ کچھ افراد نے وسائل کے بل بوتے پر ان کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی روایت اپنا لی۔
وسائل کا استعمال جن شعبوں پر اثر انداز ہو رہا ہے، ان میں میڈیا اور تعلیمی ادارے بطور خاص نمایاں ہیں۔ بعض اداروں کے طاقت ور سٹیک ہولڈر جانتے ہیں علم اور معلومات طاقت کا سرچشمہ ہیں، اس لیے علم اور میڈیا کے اثر کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ جب لوگ کہتے ہیں کہ میڈیا آزاد ہے یا اس نے لوگوں کو بااختیار بنایا ہے، تو اس سے مراد غالباً وہ افراد لیے جاتے ہیں جو ان ذرائع کو استعمال کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت سے بہرہ مند ہیں۔ یہاں وسائل سے مراد صرف رقم نہیں بلکہ معلومات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بعض آرگنائزیشنز اپنے رنگ ڈھنگ میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنے معیار پر سمجھوتہ کرتی اور لچک دکھاتی نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی طاقت اُنہیں اُن کے ملک کی حکومت سے زیادہ متاثر کر رہی ہوتی۔ غالباً حکومت اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے ہاتھ روک لیتی ہیں تو کوئی اور فریق سرمایہ کاری کرنے لگتا ہے۔ چونکہ معلومات کو کنٹرول کرنا آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے، اس لیے بعض ادارے اُن افراد کو ملازمت دیتے ہیں یا ملازمت سے نکال دیتے ہیں، جو مخصوص روابط رکھتے ہیں۔ یقینا روایات کی پاسداری کی جاتی ہے لیکن بتدریج تبدیلی کا راستہ کھلا رکھا جاتا ہے۔ اس لیے جب عالمی سطح پر کام کرنے والی کوئی آرگنائزیشن ایسے افراد کو ملازمت دیتی ہے جو خبری لوازمات سے لاعلم ہیں تو اس سے اس کا معیار لازمی طور پر گرے گا۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا، تعلیم کے شعبے کو بھی اس سے وابستہ طاقتور سٹیک ہولڈرزکنٹرول کرتے ہیں۔ اس حقیقت کا اظہار اس واقعے سے ہوتا ہے کہ اکسفورڈ میں ایک پاکستانی تنظیم کو اپنی سالانہ تقریب میں ایک پاکستانی صحافی کو شرکت کی دعوت دینے سے روک دیا گیا۔ عطیات دینے والوں نے سوسائٹی کو ایسے افراد کو دعوت دینے کی ترغیب دی‘ جو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اس تقریب میں ایسے سیاست دانوں کو دعوت خطاب دی گئی‘ ملک میں عوامی رائے جن کے خلاف ہے۔ کسی بھی سیاست دان کے خلاف عوامی رائے دراصل اُن طاقتوں کے لیے ساز گار ہوتی ہے‘ جو ایسے واقعات کو کنٹرول کر رہی ہوتی ہیں کیونکہ ایسے افراد کو دعوت دے کر وہ نوجوان نسل کے ذہن میں اپنے ملک کے جمہوری نظام کی فعالیت کے بارے میں شکوک و شبہات ابھارنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
اس کانفرنس کے انعقاد کی شروعات 2011ء میں ہوئی تھی۔ اُس وقت سے ایک تنظیم کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنا موقف پیش کرتے ہوئے نوجوانوں کو سیاسی نظام سے بیزا ر کرکے خلافت کے قیام کی طرف متوجہ کر سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض لوگ اس پر شکایات کرتے رہتے ہیں لیکن صورت حال میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ برطانوی حکومت، جو مسلمان لڑکوں کو مشرق وسطیٰ میں جہاد کرنے کے لیے جاتے دیکھ کر پریشان ہے، بھی اس عمل کو خاموشی سے دیکھتی رہی۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی اس طرز عمل کو برطانیہ کی مجرمانہ غفلت قرار دے لیکن اس کیس میں یقینا حکومت نے اپنی بچت کے لیے دوسروں کو یونیورسٹی سسٹم میں سرمایہ کاری کرنے کا موقع دیا تھا۔ اگر اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں تو یہ بات سامنے آ جائے گی کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اُس تقریب میں سرمایہ کاری کی جس کا انعقاد برطانیہ کی اہم یونیورسٹی کے احاطے میں ہونا تھا۔ عمر کا یہی حصہ ہوتا ہے جب نوجوانوں کو تصورات کی دنیا بسانے کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ فرسودہ خیالات اور ماضی کے بے بنیاد حقائق کو چیلنج کریں، لیکن وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ اُنہیں تخیلات کی بجائے میدان سیاست کے حقائق سے آشنا کیا جا رہا ہے۔ جوانی کے تازہ خیالات کی وارفتگی کی بجائے ان نوجوانوں کو ایسی حدود و قیود سے آشنا کیا جاتا ہے‘ جہاں طاقتور روابط رکھنے والوں کی پذیرائی ہو۔ جب فارغ التحصیل ہو کر یہ نوجوان واپس جائیں گے تو پروان چڑھائی گئی یہ سوچ سرمایہ کاری کرنے والوں کے استعمال میں آئے گی۔
اس تماشے کو دیکھ کر مجھے ایک اور کہانی یاد آئی جب کچھ اداروں نے کولمبو میں ''رینجل سنٹر فار سٹریٹجک سٹڈیز‘‘ پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا تھا۔ اس سنٹر میں جنوبی ایشیا کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلبہ اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد چند دن مل کر اہم موضوعات کو زیر بحث لاتے تھے۔ جب لوگ ملتے تھے تو ایک شک کی فضا ہوتی تھی‘ لیکن ورک شاپ ختم ہونے تک لوگوںکی ایسی دوستیاں ہو جاتی تھیں کہ جدا ہوتے ہوئے بہت سی آنکھیں آبدیدہ نظر آتیں۔ پھر ایک تبدیلی لائی گئی اور ان نوجوانوں کی کڑی نگرانی شروع ہو گئی۔ بہت سوںکو ایسے سوالات دیے جاتے تھے جن سے دشمن ملک کے شرکا کو شرمندہ کیا جا سکے۔
کسی بھی ریاست کی اسٹیبلشمنٹ اس کی مستقبل کی قیادت کے ذہن کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ طلبہ کے ذہن کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش مشرف اقتدار کے آخری برسوں میں دیکھی گئی۔ اس سے پہلے طلبہ ایک دوسرے سے مل کر پاکستان کے معاملات پر تبادلہ ِ خیالات کرتے یا برطانوی طلبہ اور اساتدہ کو پاکستان کے بارے میں سوچنے پر آمادہ کرتے اور پاکستان کے بارے میں بتاتے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ رضاکارانہ ہوتا۔ اس کے لیے باہر سے فنڈز کی اپیل نہیں کی جاتی تھی، لیکن پھر یکایک مشاہدے میں آیا کہ ایک ملک کے طلبہ پر کیش اور دیگر ذرائع سے سرمایہ کاری شروع کر دی گئی ہے۔ اس ملک کے ہائی کمیشن نے بھی مداخلت کرتے ہوئے طلبہ باڈیز بنائیں اور طلبہ کو مجبور کیا کہ کس کو منتخب کریں اور کس کو مسترد کر دیں۔ یقینا اس سرمایہ کاری کا فائدہ ہوا؛ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ طلبہ نے اس مداخلت پر مزاحمت نہیں کی۔ بہرحال عطیات کے بل بوتے پر کرائی جانے والی ایسی تقریبات کا طلبہ کے ذہن پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ اُن کے لیے بہتر ہے کہ وہ ایسی تقریبات سے اجتناب کریں۔ دوسرا طریقہ ان کے تحقیقی کام، خاص طور پر اگر یہ اس ملک کے حوالے سے ہو، میں مالی یا کسی اور طریقے سے معاونت فراہم کرنا ہے۔ افسوس، اس طریقے سے ویسا ہی اشرافیہ طبقہ ہمارے سامنے آئے گا جیسا ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ریاستی نمائندے ان طالب علموں کو، جو خاص طور پر سوشل سائنس پڑھ رہے ہیں، مالی اور یا کسی اور طریقے سے تحقیق میں معاونت کرنے کا لالچ بھی دیتے ہیں۔ افسوس، اس طریقے سے ایک ایسی نئی لیڈرشپ پیدا ہو گی جس کی صورت پچھلی اشرافیہ سے شاید مختلف نہ ہو۔
یہ نوجوانوں کی زندگی کا وہ وقت ہے جب وہ خواب دیکھنا افورڈ کر سکتے ہیں۔ ایک قوم کی ترقی میں خواب دیکھنے والوںکی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ کبھی وقت تھا جب لو گ خواب دیکھنا افورڈ کر سکتے تھے۔ خواب دیکھنے سے انسان مثالیت پسند بن جاتا ہے؛ تاہم اس سے وہ عملیت پسند بھی بن سکتا ہے... لیکن ضروری یہ ہے کہ یہ نوجوان اپنی فعالیت کا خود تعین کریں، بجائے اس کے کہ کوئی اور اُس پر فعالیت مسلط کرے۔ جب تک کسی ریاست میں مثالیت پسند پیدا نہیں ہوتے، وہ ترقی نہیں کر سکتی۔ اس لیے بہتر ہے کہ طلبہ کو خواب دیکھنے دیے جائیں۔