دھرنوں کے ذریعے آگے نہیں بڑھ سکتے‘ قوم کو گمراہ نہ کیا جائے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''دھرنوں کے ذریعے آگے نہیں بڑھ سکتے‘ قوم کو گمراہ نہ کیا جائے‘‘ کیونکہ ہم دونوں بڑی پارٹیوں نے جو اب تک قوم کو گمراہ کر لیا ہے‘ اسی کو کافی سمجھا جائے اور اگرچہ عمران خان اس میں بھی رخنہ اندازی کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی انہوں نے یہ سیکھنا ہے کہ قوم کو گمراہ کیسے کیا جاتا ہے اور جس کے لیے وہ ہم میں سے کسی کی بھی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''توانائی کا شعبہ اولین ترجیح ہے‘‘ اور یہ بات ہمیں بار بار اس لیے بھی کہنی پڑتی ہے کہ کوئی اس پر یقین ہی نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ''یورپی یونین سے آزاد تجارت کے خواہاں ہیں‘‘ جو فی الحال صرف بھارت کے ساتھ ہی کی جا رہی ہے اور وہ بھی چوری چھپے‘ جبکہ بھارت علی الاعلان سرحدی خلاف ورزیاں کر رہا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''جرمن سرمایہ کار پاکستان میں نجکاری میں شامل ہوں‘‘ کیونکہ رفتہ رفتہ انشاء اللہ پورے ملک ہی کی نجکاری کردی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کے جرمنی کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں‘‘ لیکن اتنے نہیں جتنے چینی کمپنیوں کے ساتھ ہیں اور جو ہمارے مسائل کو بخوبی سمجھتی ہیں اور دل کھول کر تعاون بھی کر رہی ہیں۔ آپ اگلے روز برلن پہنچنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دھرنوں سے بجلی منصوبوں میں تاخیر ہوئی‘ قوم ان سے بدلہ لے گی... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''دھرنوں سے بجلی منصوبوں میں تاخیر ہوئی‘ قوم ان سے بدلہ لے گی‘‘ اگرچہ قوم ہم سے تو آج تک بدلہ نہیں لے سکی‘ حتیٰ کہ بیرون ملکی سرمایہ بھی واپس نہیں منگوا سکی۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان اپنی خواہشات کے قیدی ہیں‘‘ اور ہم اس لیے نہیں ہیں کہ اپنی جملہ خواہشات اللہ کے فضل سے پوری کر چکے ہیں‘ بلکہ سارے خاندان کی خواہشیں بھی پایۂ تکمیل تک پہنچا چکے ہیں اور وہ مختلف عہدوں پر موجیں مان رہے ہیں اور حسد کرنے والے حسد۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنے والوں نے ملک کے ساتھ جو کچھ کیا‘ دشمن بھی نہیں کرتا‘‘ حتیٰ کہ ہم بھی نہیں کر سکے اور کافی حسرت باقی رہ گئی ہے جسے نکالنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر جھوٹ بولنے کی طرح جھوٹ نہیں بولا‘‘ کیونکہ جھوٹ بولنے کے لیے دھرنے وغیرہ کی ضرورت ہی نہیں ہے اور یہ کارِ خیر کنٹینر کے بغیر بھی بہ حسن و خوبی سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چین نے دوبارہ پاکستان کا ہاتھ تھاما ہے‘‘ جبکہ دوسرا ہاتھ چینی کمپنیوں نے پوری مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ آپ اگلے روز حافظ آباد میں سیلاب متاثرین سے خطاب کر رہے تھے۔
پاکستان خطرناک نہیں‘ سب سے
بہادر ملک ہے... بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پاکستان خطرناک نہیں‘ سب سے بہادر ملک ہے‘‘ کیونکہ گزشتہ عہد میں جس بہادری سے ہمارے سابق وزرائے اعظم اور دیگر عمائدین نے عوام کی خدمت کی ہے‘ پوری تاریخ میں اس کی کوئی مثال تلاش نہیں کی جا سکتی‘ حتیٰ کہ والد بزرگوار کی سرپرستی میں وہ اس سے زیادہ بھی کر سکتے تھے۔ لیکن عوام نے خود ہی ہاتھ جوڑ دیئے کہ اب بس کریں‘ وہ اس سے زیادہ خدمت برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کی اصلی روح جمہوریت میں ہے‘‘ اور‘ خاص طور پر یہ جمہوریت جو اس وقت ملک میں رائج ہے اور جس کو ابا جان کی مفاہمتی پالیسی نے چار چاند لگا رکھے ہیں کہ مل جل کر کھانے سے اخوت میں اضافہ ہوتا ہے اور ایک کے بعد لازمی طور پر دوسرے کی باری آ جاتی ہے تاکہ عوامی خدمت کے اپنے اپنے ریکارڈز قائم کریں اور جسے مخالفین جمہوریت کی بدروح کا نام دے رہے ہیں جبکہ اتنے نیک لوگوں میں بدی کا کیا گزر ہو سکتا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ اولیائوں کا ملک ہے جو کہ سراسر اس کی خوش قسمتی ہے۔ آپ اگلے روز بینظیر بھٹو کی زندگی پر لکھی گئی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی انقلاب اور انتخاب کے لیے
ہر وقت تیار ہے... جہانگیر بدر
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے پولیٹیکل سیکرٹری سینیٹر جہانگیر بدر نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی انقلاب اور انتخاب کے لیے بروقت تیار ہے‘‘ اور قادری صاحب کے بعد جو انقلاب باقی رہ گیا تھا‘ پارٹی اس کو برپا کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہے‘ حتیٰ کہ انتخابات کے لیے بھی تیار ہے‘ اگرچہ حالات پہلے سے بھی خراب ہیں اور انتخابات تک مزید خراب ہو سکتے ہیں جبکہ اصل مزہ تو خراب حالات ہی میں انتخابات لڑنے کا ہے اور یہ مزہ ہم پچھلی بار خوب چکھ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اپوزیشن تعداد سے نہیں بلکہ عزم سے ہوتی ہے‘‘ جبکہ شریف برادران کی طرح ہم بھی ہر وقت پُرعزم رہتے ہیں اور اسی لیے ہم تعداد کے بارے میں کبھی فکرمند نہیں رہتے اور کسی ہار جیت کی پروا نہیں کرتے کیونکہ اصل چیز تو عزم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان جو انقلاب لانا چاہتے ہیں‘ پیپلز پارٹی وہ کب کا لا چکی ہے‘‘ جبکہ پچھلے دور میں ہم نے یہی کام کیا ہے جس سے پارٹی کے جملہ معززین میں ایک زبردست انقلاب برپا ہو گیا اور جس پر ساری دنیا دنگ رہ گئی۔ آپ اگلے روز بلاول ہائوس لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان کی پسپائی؟
عمران خان نے نواز لیگ کو جو تجویز پیش کی ہے‘ اسے ارادتاً مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے جبکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے نیچے جو ٹیم تشکیل دی جائے اسے آئین کے مطابق یہ اختیار اصل ہوگا کہ وہ کسی بھی ایجنسی‘ نیب یا پولیس کی مدد حاصل کر سکتی ہے جبکہ مذاکرات کے دوران نواز لیگ کی طرف سے اسے تسلیم بھی کیا گیا اور اب تک اس کی تردید بھی نہیں آئی۔ اور‘ اگر اس ضمن میں کوئی اقدام کرنا پڑے تو اس کی گنجائش اور روایت موجود ہے۔ علاوہ ازیں جسٹس افتخار محمد چودھری جنہیں بحال کیا گیا وہ خود پی سی او زدہ تھے۔ نیز انہیں وزیراعظم کے جس ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بحال کیا گیا‘ آئین میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ عمران خان نے دھرنے کی بجائے یا اس کے ساتھ ساتھ طوفانی جلسے کرنے کا جو پروگرام بنایا ہے‘ حکومت کی نیندیں تو اس سے بھی حرام ہو جانی چاہئیں۔ یقینا میاں صاحب عمران خان کے ساتھ کوئی تصفیہ کرنے پر اپنے اقتدار کی قبر کھودنے کو ترجیح دیں گے‘ جیسا کہ وہ اکثر کرتے آئے ہیں۔ جبکہ اس بلا کی سردی میں دھرنا جاری رکھ کر لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرنا بھی کوئی عقلمندی نہ ہوتی جسے عمران خان کی پسپائی سمجھ کر یار لوگ خوش ہو رہے ہیں! وہ جو بھی کریں‘ لوگ ان کے ساتھ ہیں۔
آج کا مقطع
وہ سرزنش تھی نامۂ انکار میں، ظفر
تحریر سے زیادہ زبانی کا رنج تھا