تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     13-11-2014

اصل مسئلہ تو وہیں کا وہیں رہا!

مسیحی برادری کے میاں بیوی کو جس طرح زندہ جلایا گیا اس پر محترم نذیر ناجی کے ان جملوں نے مجھے زاروقطار رُلا دیا کہ ''پیغمبرؐ اسلام اور صحابہ کرامؓ تو مقدس اور برتر ہستیاں ہیں،ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے نام اپنی زبان پر لائیں‘‘ چنانچہ میں نے مذکورہ واقعہ کی ہر پہلو اور ہر مکتب فکر تک رسائی کر کے جو تحقیق کی ہے، اس کے مطابق کوٹ رادھا کشن کے قریب ایک مسیحی بستی ہے جس کا نام ''کلارک آباد‘‘ ہے۔ کوئی سولہ سترہ سال پہلے یہاں سے ایک مسیحی خاندان اٹھا اور روزگار کی خاطر یوسف گجر کے بھٹے پر مقیم ہو گیا۔ یہ بھٹہ چک 59سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ مذکورہ چک کوٹ رادھا کشن سے چند کلومیٹر ہی دور ہے۔ بابا ناظر مسیح کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ وہ جادو ٹونے اور تعویذ گنڈے کا کام کرتا تھا۔ اس نے اپنے ہاں قرآن مجید بھی رکھا ہوا تھا اور بائبل بھی۔ وہ تعویذ دیتا تو اس میں بائبل کے الفاظ بھی ہوتے اور قرآنی آیات کے بھی... مسلمان بھی اس سے تعویذ دھاگہ لیتے تھے۔ ناظر مسیح کے گھر میں اچانک ایک تبدیلی رونما ہوئی، اس کا بیٹا فیاض اور بہو مسلمان ہو گئے۔ بھٹہ مالک یوسف گجر اس ضمن میں تعاون کرتا رہا... حالیہ محرم کے پہلے جمعہ کو بابا ناظر مسیح فوت ہو گیا۔ ناظر کا بیٹا شہزاد اور اس کی بیوی شمع بھی اسلام کی جانب مائل ہو چکے تھے۔ وہ ناظر کے دھندے کو اچھا نہ جانتے تھے چنانچہ دونوں نے یہ کیا کہ ناظر بابا کے مرنے کے بعد اس کے فوٹو کاپی کئے ہوئے تعویذ اور کاغذ وغیرہ جلا دیئے۔ شہزاد نے اس کا اظہار بھٹہ مالک یوسف گجر سے کیا اور کہا کہ ہم نے اس سارے عمل سے جان چھڑا لی ہے اور مسلمان ہونے کے ارادے کا بھی اظہار کیا۔ یہاں بھٹہ پر مزدوری کرنے والے پانچ چھ گھر مسیحی برادری ہی کے ہیں۔ بابا اپنے چھوٹے بیٹے سجاد اور صائمہ کے پاس رہتا تھا۔ یہ سارے لوگ بھی بابا کے جادو ٹونے کے کام کو اچھا نہ سمجھے تھے۔ جب بابا کے تعویذ جلنے کی بات یوسف گجر نے سنی تو اس نے نصیحت کی کہ یہ بات آگے نہ کرنا، کوئی مسئلہ نہ بن جائے۔
یوسف گجر جب نصیحت کر رہا تھا تو اس کے پاس اس کے منشی افضل اور شکیل بھی بیٹھے تھے۔ شکیل منشی اور یوسف گجر آپس میں رشتہ دار بھی ہیں۔ دونوں منشی جب اپنے گائوں ''چک59‘‘ آتے ہیں تو منشی افضل گائوں کی ایک مسجد کے مولوی محمد حسین سے ملاقات کرتا ہے اور مذکورہ واقعہ بتاتا ہے۔ اب مولوی محمد حسین مشتعل ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ کو بھی جلا دیا چنانچہ یہ دونوں اس بات کو پھیلاتے ہیں اور دیگر مولویوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ ایک دن سکون سے گزرتا ہے مگر افواہیں پھیلتی چلی جاتی ہیں کہ مسیحیوں نے قرآن کو جلا دیا... اگلے دن صبح کی نماز کے بعد مولوی محمد حسین اور دیگر مساجد میں لائوڈ سپیکروں پر اعلان کرتے ہیں اور لوگوں کو مذکورہ بھٹے کی طرف جانے کو کہتے ہیں چنانچہ 700 کے قریب لوگ 59،60، 65 اور دیگر چکوں سے اکٹھے ہو کر بھٹے کی طرف لاٹھیاں وغیرہ لے کر چل پڑتے ہیں۔لائوڈ سپیکروں سے اعلان سن کر شہزاد اور شمع اپنے تین بچوں چھ سالہ سلمان، چار سالہ بچی سونیا اور اٹھارہ ماہ کی بچی پونم کو گھر چھوڑتے ہیں اور خود یوسف گجر کے دفتر میں آ جاتے ہیں۔ وہاں دفتر میں بند ہو کر اندرسے دروازہ بند کر لیتے ہیں۔ اتنے میں لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور کمرے کا گھیرائو کر لیتے ہیں۔ لوگ دروازہ کھولنے کیلئے کہتے ہیں تو شہزاد اور شمع جواب دیتے ہیں کہ ہم نے تو محض اپنے بابا کے تعویذ اور اوراق جلائے ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں پتہ۔ ہم تو اسے جادو ٹونہ سمجھتے ہیں، اس لئے جلائے ہیں۔ ہم نے قرآن کے اوراق نہیں جلائے۔ مگر لوگ نہیں مانے۔ اب وہ کمرے کی چھت ادھیڑتے ہیں، ایک شخص اندر چھلانگ لگاتا ہے اور شمع جو 4ماہ کی حاملہ تھی اس کے پیٹ پر لات مارتا ہے اور دروازہ کھول دیتا ہے۔ اب لوگ باہر نکال کر مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک شخص شہزاد کی گردن پر بھالا مارتا ہے وہ بے ہوش ہو کر گر جاتا ہے، شمع بھی مار کھا کر گر جاتی ہے۔ اب دونوں کو ٹریکٹر کے پیچھے باندھا جاتا ہے، گھسیٹا جاتا ہے، ساتھ مار بھی پڑ رہی ہے، بھٹہ کی بھٹی جو جہنم زار ہوتی ہے، وہاں لا کر دونوں زندہ میاں بیوی کو اس میں پھینک دیتے ہیں۔ وہ کوئلہ بن جاتے ہیں۔ اب یہ کالک بن کر پاکستان کے چہرے کو کالا کر رہی ہے۔ مسلمانان پاکستان کے چہرے کو سیاہ کر گئی ہے، اسلام کو بدنام کر گئی ہے اور کرتی چلی جا رہی ہے۔
مذکورہ اندوہناک واقعہ سے پہلے بھی متعدد واقعات ہو چکے ہیں کہ جن کی زد میں مسلمان آ چکے ہیں جلائے جا چکے ہیں اور پتھروں سے سنگسار کئے جا چکے ہیں... سب واقعات میں مشترک ایک ہی نکتہ ہے کہ مولویوں کے اعلانات جو مساجد میں لائوڈ سپیکروں پر ہوئے، انہوں نے سانحات کو جنم دیا، حادثات کو رونما کیا... میں نے بڑا غور کیا کہ یہ مولوی کس کا وارث ہے؟ اگر یہ حضور رحمۃللعٰلمینؐ کا وارث ہوتا تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ سکتا۔ اس کے سامنے قرآن ہوتا تو قرآن کی سورئہ حجرات تو کہتی ہے کہ مسلمانو! جب کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جہالت کی وجہ سے اقدام کر بیٹھو اور پھر ندامت ہی ندامت کا منہ دیکھتے رہ جائو... جہالت کی انتہا کہ تحقیق تو درکنار... ہجوم لے کر پل پڑے۔ ملزم انکار کرتے ہیں تو انکار کا فائدہ بھی نہیں دیتے۔ پھر خود ہی موقع پر سزا دیتے ہیں اور سزا بھی ایسی کہ شدید اورسرعام تشدد کے بعد آگ کے الائو میں بھسم کر دیتے ہیں۔ ان کو اس قدر بھی خبر نہیں کہ حضور رحمۃللعٰلمینؐ نے اپنے ایک سفر میں صحابہ کے ایک گروہ کو دیکھا کہ انہوں نے چیونٹیوں کا بل اس وجہ سے جلا دیا کہ جس درخت کے نیچے وہ آرام کر رہے تھے وہاں چیونٹیوں کا بِل تھا۔ وہ کاٹتی ہوں گی تو یہ کام کر دیا... حضورؐ نے جب دیکھا تو سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا، آگ کے رب کے سوا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو آگ کی سزا دے (ابودائود) پھر اللہ کے نبیؐ سے صحیح بخاری میں یہ واقعہ بھی مذکور ہے کہ آپؐ نے فرمایا: نبیوں میں سے ایک نبی درخت کے نیچے آرام کو ٹھہرے، انہیں چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے حکم دیا کہ ِبل کو آگ لگا دی جائے، سارے بِل کو ظاہر کیا گیا اور چیونٹیوں کو جلا ڈالا گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نبی سے کہا، صرف اسی چیونٹی ہی کو کیوں نہ مارا کہ جس نے کاٹا تھا، تم نے چیونٹیوں کی ساری قوم ہی مار ڈالی جو اللہ کی تسبیح کرتی تھی۔
ہاں ہاں! مولویوں کو میں کیا کہوں کہ تم نے آگ کا عذاب بھی دیا، اللہ کے کام کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ظالمو! اس بچے کو بھی مار ڈالا جو ماں کے شکم میں آٹھ ماہ کا تھا... بتلائو! اس کا جرم کیا تھا؟ تم اس قدر جلد باز تھے کہ دنیا میں اس کے آنے کا انتظار بھی نہ کیا، کیا معلوم کہ اس کے ماں باپ جو اسلام کے ساتھ اپنائیت کا اظہار کر رہے تھے، مسلمان ہو جاتے اور مذکورہ بچہ کتنا بڑا اور عظیم مسلمان ہوتا؟
ہاں ہاں! اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو تمہیں کیا حق تھا کہ ان کو مارتے جن کو اللہ کے رسولﷺ نے ذمّی کہا اور حضرت عمرؓ نے فرمایا، ان کی حفاظت کرنا اللہ کے ذمّہ کو پورا کرنا ہے۔ آہ! تم لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ضمانت کی دھجیاں اڑا دیں، ضمانت کو برسر زمین روند ڈالا، ٹریکٹر کے پیچھے باندھ کر گھسیٹ ڈالا اور آگ میں کوئلہ بنا دیا۔ آہ! تم لوگ اپنے اس مذموم عمل سے جنت کی امیدیں باندھتے ہو؛ حالانکہ وہ رحمت ِدو عالم رسولؐ کہ جن کا پاک منبر جنت کے دروازے پر ہو گا اور امام احمدؒ کی لائی ہوئی حدیث کے مطابق حضورؐ وہاں تشریف فرما کر اہل جنت کو جنت میں جاتے دیکھیں گے، سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھلوائیں گے... وہ فرماتے ہیں جس نے کسی ذمّی کو قتل کر دیا وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا اور جنت کی خوشبو سو سال کی مسافت سے آئے گی۔
میاں شہباز شریف صاحب نے تین یتیم مسیحی بچوں کو زمین کے 10 ایکڑ اور 50لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ... میں کہتا ہوں یہ اچھا اور قابل تحسین اقدام ہے مگر اصل مسئلہ تو وہیں کا وہیں رہا۔ اگر ایسے رونما ہونے والے پہلے واقعات کے مجرموں کو سخت سزا دی جاتی، سرعام لٹکایا جاتا تو یہ واقعہ نہ ہوتا۔ میں کہتا ہوں کہ اب بھی کرنے کا کام یہ ہے کہ مجرموں کو سرعام سزا دی جائے وگرنہ یہ واقعات رکنے نہ پائیں گے، تھمنے نہ پائیں گے... اور یوں ہر واقعہ کا اصل ذمہ دار وہ حکمران ہے جو سرزمین پاکستان پر قانون کا نفاذ ان لوگوں کے خلاف نہیں کرتا جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved