ہم ایک بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں جی رہے ہیں۔ایسا لگتاہے کہ خوفناک مغربی اور امریکی اتحاد کے مقابل اب ایشیائی طاقتیں سر اٹھانے کو ہیں ۔ ایسا لگتاہے کہ پاکستان بہرحال اس کھیل کا ایک حصہ ہوگا۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد 23برس محوِ خواب رہنے والا عسکری عفریت روس جاگ اٹھا ہے۔ یوکرائن میں کسی قیمت پر امریکہ اور یورپ کے مقابل جھکنے پہ وہ آمادہ نہیں ۔ یورپ نوازیوکرائنی حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے۔ تین روز قبل اسی لیے بھاری جنگی سازو سامان کے ساتھ اس کی افواج روسی سرحد کے ساتھ واقع جنگ زدہ علاقے کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ باغی بھی جدید ترین روسی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران دونوں اطراف سے چار ہزار افراد مارے جا چکے ہیں ۔
روس بدل رہا ہے۔ ایران کے برعکس اسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ یہ بات درست ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی دو ہزار ارب ڈالر کی معیشت رکھنے والے روس سے زیادہ مضبوط ہیں۔ 16,000ارب ڈالرکے ساتھ امریکہ اس کا آٹھ گنا ہے لیکن روس آج بھی ایک متبادل جنگی و ایٹمی سپر پاور ہے ۔ ہتھیاروں کی عالمی فروخت میں امریکہ 29جبکہ روس 27فیصد حصہ رکھتاہے ۔ امریکہ 8500جبکہ روس 10ہزار ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہے ۔ سلامتی کونسل میں روس کے خلاف کوئی قرار داد منظور نہیں ہو سکتی ۔ یورپ کی تیس فیصد گیس کی ضروریات وہی پوری کرتاہے ۔ اب اپنا رخ وہ چین کی طرف موڑ رہا ہے ۔ دونوں ممالک میں 400بلین ڈالر کا ایک معاہدہ ہوا ہے۔ اگلے تیس برس تک وہ چین کو گیس فراہم کرے گا۔
اب چین کو دیکھیے ۔ صرف یہ نہیں کہ پاکستان کے طول و عرض سے گزرتے ہوئے ریلوے اور موٹر وے کے نظام سے وہ گوادر سے منسلک ہورہا ہے ۔ صرف یہ نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ سے اس کا فاصلہ16,000کی بجائے محض 2500کلومیٹر رہ جائے گا، چین دنیا کے بھر کے تجارتی خطوں کے ساتھ منسلک ہونے کا منصوبہ بنا چکا ہے ۔ وہ دو عالمی رستے تعمیر کرے گا۔"New Silk Road"کے نام سے زمینی رستہ وسط ایشیائی ممالک سے ہوتا ہوا شمالی ایران، عراق اور شام پہنچے گا۔ ترکی کے راستے یورپی ممالک سے گزرتی ہوئی یہ شاہراہ اٹلی کے شہر وینس میں جاختم ہوگی۔
''میری ٹائم سلک روڈ‘‘ کے نام سے دوسرا مجوّزہ راستہ بھارت سے گزر کر بحیرۂ ہند پہنچے گا۔ سمندر میں منزلیں طے کرنے کے بعد نیروبی اور کینیا۔ افریقی ممالک میں سڑکوں کا جال تعمیر ہوگا۔ پھر بحیرۂ احمر سے ایتھنزاور آخر وینس میں یہ نیو سلک روڈ سے جا ملے گی۔ یہ ہے گیم چینجر!
ادھر گزشتہ ماہ چین ہی کی سربراہی میں بیس ایشیائی ممالک ایک نیا بینک قائم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں ۔ ہو سکتاہے کہ پھرپسماندہ ممالک کو قرض لینے کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافے جیسی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم نہ کرنی پڑیں ۔
عسکری میدان میں تاحال امریکہ اور مغرب ہی حاوی ہیں ۔ ان کے 28ممالک کا فوجی اتحاد ''نیٹو‘‘عالمی دفاعی اخراجات کا کل 70فیصد خرچ کرتاہے ۔بہرحال اب صاف نظر آتاہے کہ یورپ اور امریکہ کے معاشی اتحاد کے مقابل ایشیائی قوّتیں سر اٹھانے لگی ہیں ۔ طاقت کا توازن ایک بار پھر مغرب سے مشرق میں منتقل ہو سکتاہے ۔ اس اہم موقعے پر بھارت کیا کررہا ہے ؟
ہمارے ایک طرف بھارت ، دوسری طرف بھارت نما افغانستان آباد ہے ۔ 2001ء کے بعد ایک منصوبے کے تحت بھارت نے افغانستان میں اپنا معاشی اور بالخصوص عسکری کردار آخری حد تک بڑھا دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں اس صورتِ حال سے لا تعلق نہیں رہ سکتیں کہ پاکستان کا دفاع ان کی ذمہ داری ہے۔ اس ساری صورتِ حال کے باوجود خدا نے ہمیں ایسی ہستیاں عطا فرمائی ہیں ، جو دانت نکال کے ''سٹریٹجک ڈیپتھ، سٹریٹجک ڈیپتھ ‘‘کا ورد کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔
یہ بات درست ہے کہ اس اہم موقع پر پاکستان اوربھارت کو تلخ ماضی فراموش کرتے ہوئے مستقبل کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو سمجھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ یہ وہ سنہری موقع ہے ، جہاں پاکستان اوربھارت کے ڈیڑھ ارب عوام کی معاشی تکالیف ختم کی جا سکتی ہیں لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔ دشمن مسلسل مصروفِ سازش ہو توکون دوستی کا راگ الاپ سکتاہے ؟
اب امریکہ بہادر اور بھارت کے تزویراتی اشتراک کو دیکھیے ۔ اللہ کی شان ہے کہ آرمی چیف کے دورۂ امریکہ سے قبل پاکستان کو بھارت کی ''برتر‘‘افواج کے خلاف ،افغانستان کے خلاف پراکسی وار کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے ۔ اسی پاکستان کو، امریکی جنگ میں جس کے پچاس ہزار شہری شہید اور سو ارب ڈالرضائع ہو چکے ہیں ۔ اس دوران ہمیں بیس بائیس ارب ـڈالر تھمائے گئے ، جس کا بڑا حصہ افغان سرحد کے دوسری طرف موجود امریکی فوج کی مدد کے لیے کیے گئے جنگی اخراجات تھے ۔ پہلی بار نہیں کہ پاکستا ن کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہو ۔ افغان جنگ کے ان تیرہ برسوں کے دوران وتیرہ یہی تھا کہ ایک زبان سے تعریف ، دوسری سے الزام اور دھمکی۔ کبھی سب سے بڑے نان نیٹو اتحادی کا درجہ ، کبھی سلالہ پہ حملہ ۔
اللہ کی شان ہے کہ افغان جنگ کے تیرہ برسوں میں مشرقی سرحد پہ امن قائم رہا، شانتی رہی ۔اب جب کہ امریکی بوریا بستر سمیٹ کر ایک دوسرے سے نظر چراتے ہوئے واپس جا رہے ہیں اور جب شمالی وزیرستان سمیت قبائلی علاقوں میں اہم ترین فوجی آپریشن جاری ہیں ، بھارت نے سرحدوں پہ دبائو اپنی آخری حد تک بڑھا دیا ہے ۔ کیا اس لیے کہ سرحدی چھیڑ چھاڑ کے ضمن میں اس پر عائد وہ امریکی دبائو ہٹ گیا ہے ، جس کی بنا پر پاکستان مغرب میں نیٹو افواج کی مدد کر رہا تھا؟
شف شف نہیں ، شفتالو کہیے ۔ کہہ ڈالیے کہ پاکستان اور امریکہ کے راستے ایک بار پھر جدا ہو رہے ہیں ۔افغانستان پر امریکی حملے سے قبل 2000ء میں پاکستان کے لیے کل امریکی امداد 45ملین ڈالر تھی ۔ وہ دن دوبارہ لوٹنے کو ہیں ۔ پاکستان اور افغانستان میں امریکی اثر و رسوخ کم ، چینی بڑھ جائے گا۔ بھکاری بننے کی بجائے ہمارے حکمرانوں کواپنی توجہ معاشی راہداری منصوبے سے فائدہ اٹھانے، ٹیکس چوروں کو پکڑنے ، زیرِ زمین وسائل کی دریافت اورسستی توانائی کی پیداوار پہ مرکوز کرنی چاہیے ۔ جہاں تک سکیورٹی معاملات کا تعلق ہے تو آپ خود سمجھدارہیں ۔