تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     14-11-2014

19 نومبر 1995ء

19 نومبر 1995ء پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ کے حوالے سے ایک اہم ترین دن ہے۔ تب سے اب تک پاکستان کی پوری ایک نسل بغیر یہ جانے جوان ہو چکی ہے کہ ہماری خوبصورت سرزمین پر خون کے پیاسے غیرملکی ایجنٹوں نے مذہب کی آڑ میں دہشت گردی کے بیج کیسے بوئے۔ آج ہم خود کش حملہ آوروں، جو اپنے من پسند اہداف پر حملہ کرکے شہریوں کو ہلاک کرتے ہیں، کے بارے میں لب کشائی نہیں کرتے۔ ہر حملے کے بعد ٹی وی چینلوں پر زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور حملے کی جگہ کی منظر کشی، جو ہر حملہ میں ایک جیسی ہی لگتی ہے، دکھائی، بلکہ دہرائی جاتی ہے۔ اگلے دن اخبارات کے صفحات پاکستانی رہنمائوں کے تعزیت بھرے دکھی پیغامات لیے ہوتے ہیں۔ قائدین دہشت گردوں کے سامنے نہ جھکنے کا عہد دہراتے سنائی دیتے ہیں؛ تاہم شام تک سب کچھ فراموشی کی گرد میں گم جاتا ہے اور ایک دن بیت جاتا ہے۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ خود کش حملوں کے پیچھے کون ہے۔ انتہا پسند تنظیموں کا شکریہ کہ وہ حملہ کرنے کے بعد پریس ریلیز جاری کرنے میں تاخیر سے کام نہیں لیتیں۔ وہ بڑے فخر سے بتاتی ہیں کہ یہ گھنائونے اور انسانیت سوز واقعات ان کی کارروائی کا نتیجہ ہیں۔ وہ بے دھڑک ان کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ ان کا تعلق کس سیارے سے ہے؟ یہ سوالات غیر ضروری ہیں‘ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ غیرملکی نہیں بلکہ یہ ہمارے ملک کے ہی شہری ہیں۔ لیکن یہ لوگ ملک کے موجودہ نظام کو ''غیر اسلامی‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے اپنی مرضی سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکمران ان کے سامنے بے بس ہیں۔ ان کے خلاف جو واحد ایکشن وہ لے سکتے ہیں‘ یہ ہے کہ ہر حملے کے بعد وہ اپنے گرد مزید حفاظتی دیواریں کھڑی کر لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی جان عام پاکستانیوں سے کہیں زیادہ اہم ہے اور انہیں کوئی گزند نہیں پہنچنا چاہیے۔ 
ٹھیک 19 سال پہلے، نومبر میں ہم نے پہلی مرتبہ سنا کہ خود کش حملہ کسے کہتے ہیں اور اس سے کیا تباہی آ سکتی ہے۔ یہ موسم سرما کی ایک خوبصورت شام تھی‘ جب میرے اسلام آباد والے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے لرز اُٹھے اور میں ڈر گئی تھی کہ کہیں چھت تو نہیں گر گئی۔ دس منٹ بعد، فون کی گھنٹی بجی۔ اُس وقت تک ابھی ہمارے ہاں سیل فون نہیں آیا تھا۔ فارن آفس میں موجود ایک دوست نے مجھے بتایا کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے... ''یہ ہمارے دفتر کے سامنے مصر کا سفارت خانہ ہے‘ جہاں پر حملہ ہوا ہے‘‘۔ فون کرنے والے، اسلم رضوی، نے بتایا کہ وہ یہ تمام منظر اپنے کمرے سے دیکھ رہا ہے... ''وہاں گرد اور دھوئیں کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور فی الحال بتانا مشکل ہے کہ کیا ہوا ہے‘‘۔
ایک انگریزی اخبار کے نمائندے کی حیثیت سے میں اپنی نوٹ بک اور کیمرہ لے کر بھاگی اور جائے وقوعہ پر پہنچی۔ اُس وقت تک وہاں پہنچنا آسان تھا کیونکہ پولیس ابھی اپنی پوزیشن سنبھالنے کی کوشش میں تھی اور کافی بوکھلائی ہوئی تھی۔ جب میں وہاں پہنچی تو دیکھا کہ جہاں کبھی مصری سفارت خانہ تھا، اب وہاں ایک بڑا سا گڑھا ہے۔ دھوئیں میں سے انسانی جسموں کے جلنے کی بو آ رہی تھی۔ اُس وقت تک، وہاں صرف ایک انٹیلی جنس افسر، عبدالقادر حئی، ہی پہنچ پائے تھے۔ وہ بھی کسی محافظ کے بغیر وہاں موجود تھے۔ ہر طرف انسانی اعضا بکھرے ہوئے تھے۔ خون کے تالاب دکھائی دے رہے تھے۔ ہم دونوں بہت سنجیدہ اور خاموش تھے۔ حئی صاحب ایک دھیمے لہجے میں بات کرنے والے ایک جنٹل مین تھے۔ اپنے جچے تلے لہجے میں اُنہوں نے کہا، ''یہ غالباً حملہ آور کا سر ہے‘‘۔ وہ بہت ہی دلخراش منظر تھا۔ اُس رات، اور آنے والی بہت سی راتوں میں ان مناظر نے مجھے چین سے سونے نہ دیا۔ اس حملے میں پندرہ افراد ہلاک اور 59 زخمی ہوئے تھے۔ حملہ آور نے سفارت خانے کی عمارت سے گاڑی ٹکرائی تھی۔ پولیس کے مطابق یہ ایک سیاہ رنگ کی گاڑی تھی۔ اُس نے پہلے ایک دستی بم اور کچھ اور کریکر پھینکے اور گیٹ توڑ دیا۔ سفارت خانے کے اندر داخل ہو کر اُس نے گاڑی کو دھماکے سے اُڑا لیا۔ مرنے والے چھ مصری، ایک افغان اور سات پاکستانی تھے۔ یہ افراد یا تو یہاں کام کرتے تھے یا ویزے کے حصول کے لیے آئے تھے۔ مصر کے ویزہ کونسلر، ہاشم ابو وفا بھی مرنے والوں میں شامل تھے۔ مصری سفارت کار نعمان گلال معجزانہ طور پر بچ گئے۔ میں پہلی صحافی تھی جس نے اُن سے اور اُن کے سٹاف سے بات کی۔ اُن میں سے ایک نے مجھے بتایا، ''جب میں نے بم دھماکا سنا، میں نے سفیر صاحب کو دھکا دے کر سیڑھیوں سے نیچے گرا دیا‘‘۔ اس دھکے نے اُن کی جان بچا لی۔ 
سفارت کار کے پاکستانی پی اے مسٹر محبوب نے مجھے بتایا کہ لاشیں ملبے کے نیچے سے نکالی جا رہی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ اور سفارت کار چند لمحوں کے فرق سے ہی بچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ وہ زندہ بچ گئے، ورنہ اس وقت ان کا شمار بھی مرحومین میں ہوتا۔ دھماکے کی آواز سنتے ہی وہ باہر بھاگے اور حیران کھڑے سفارت کار کو سیڑھیوں میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد ہونے والا دوسرا دھماکہ بہت زوردار تھا۔ مسز نعمان گلال آب پارہ میں شاپنگ کر رہی تھیں۔ اُنہوں نے بھی مجھ سے بات کی اور بتایا، ''میں نے دھماکے کی آواز سنی اور حیران تھی کہ کیا ہوا ہے؟ جب میں سفارت خانے کی طرف واپس آئی تو میں نے پولیس کی گاڑیاں اور ایمبولینسز دیکھیں۔ پھر کسی نے مجھے بتایا کہ یہاں بم پھٹا ہے۔ میں اپنے شوہر کے لیے پریشان تھی‘‘۔ پھر وہ مجھے اپنے تباہ شدہ کمرے میں لے گئی، شیشے کی کرچیاں اور تباہ شدہ چیزوں کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہا‘ ''دیکھو یہ ہے میرا کمرہ۔ ہر چیز تباہ ہو چکی ہے‘‘۔ ان پر ایک ہیجانی کیفیت طاری تھی۔ اُنہوں نے حال ہی میں اس رہائش گاہ کی تزئین و آرائش کی تھی۔ اُنہیں اس سجے ہوئے گھر پر بہت فخر تھا۔
سفارت کار مسٹر گلال نے پریس سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ بہت تحمل سے ریسکیو کی کارروائی کی نگرانی کر رہے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ ہرگز خوفزدہ نہیں۔ وہ تباہ شدہ چیزوں کو دیکھ کر کہہ رہے تھے کہ کوئی بات نہیں، ایسا ہوتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ فوج علاقے کو محاصرہ کر لے تاکہ لوگوں، جن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، کو اندر آنے سے روکا جا سکے۔ بہرحال اُنہوں نے اس حملے کا ارتکاب کرنے والوں کا نام لینے سے گریز کیا۔ میرے ذرائع کے مطابق مصری سفارت کار نے وزارت داخلہ کو تین دن پہلے خط لکھ کر حملے کی دھمکی کے بارے میں آگاہ کیا اور اضافی حفاظت طلب کی تھی۔ اُنہیں موت کی دھمکیاں ملی تھیں۔ اُس وقت کے آئی جی پولیس اسد علوی مرحوم اور اعلی انٹیلی جنس حکام نے بند کمرے میں کانفرنس کی اور کچھ اقدامات تجویز کیے۔ وزیر داخلہ نصیراﷲ بابر مرحوم نے مصری سفارت کار سے ذاتی طور پر تعزیت کی؛ تاہم اطلاع کے باوجود، وہ حملہ روکنے میں ناکام ہو چکے تھے۔ کوئی باز پرس نہیں ہوئی تھی... یہ سلسلہ جاری ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved