تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     14-11-2014

مشاعرہ گاہ سے ہوٹل تک کا سفر

اٹلانٹا کے مشاعرے سے رات گئے فارغ ہوئے تو حسب معمول ہوٹل کی طرف منہ کیا۔ ایک صاحب اصرار کرنے لگ گئے کہ وہ ہمیں ہوٹل تک چھوڑنے جائیں گے۔ میزبان ان صاحب کو جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جیسی آپ کی خوشی۔ آپ مہمانوں کو ہوٹل چھوڑ آئیں۔ میں‘ انور مسعود صاحب‘ خالد عرفان‘ وقاص جعفری اور نوید باقی ان صاحب کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ سیٹ بیلٹ باندھنے کی عادت کی وجہ سے مجھے مستقل طور پر فرنٹ سیٹ الاٹ کی جا چکی تھی۔ گاڑی چلتے ہی ان صاحب کی زبان چل پڑی۔ انہوں نے اپنا تعارف کروانا شروع کردیا۔ آغاز تو عاجزی سے ہوا مگر دو منٹ بعد ہی وہ صاحب اپنی کامیابیوں کی فہرست سنانے لگ گئے۔ 
ان کا نام مقام کیا بتائوں؟ ویسے بھی یہ مناسب نہیں لگتا۔ اس معاملے میں نام اور عہدے کی نہیں معاملے کی اہمیت ہے جو اس کالم کی وجہ بنا ہے۔ وہ صاحب امریکی سیاست میں بزعم خود بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ ایک نہایت اہم سیاسی عہدے پر فائز رہے تھے اور اب بھی ایک اہم عہدے پر فائز ہونے کے دعویدار تھے اور اسی لحاظ سے لمبی لمبی چھوڑ بھی رہے تھے۔ اب ان صاحب نے اپنی چھوڑ کر پاکستان پر گفتگو شروع کردی۔ تنقید اور مسلسل تنقید۔ آہستہ آہستہ انہوں نے تمام سیاستدانوں کو باقاعدہ گالیاں دینا شروع کردیں۔ اب میرا پارہ تھوڑا گرم ہونا شروع ہو گیا مگر میں نے خود کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کر لیا۔ ایک دو منٹوں کے بعد ان صاحب نے پاکستانی حکمرانوں‘ سیاستدانوں‘ حتیٰ کہ عوام کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا اور نہایت اشتعال انگیز جملہ بولا کہ ''پاکستانی حکمران یہاں آ کر ''ہم سے‘‘ بھیک مانگتے ہیں۔ ہم ان کے بارے میں اس قسم کی گفتگو کا حق رکھتے ہیں۔ ہم خیرات مانگنے والوں کو گالیاں نکالنے کا بھی حق رکھتے ہیں‘‘۔ اب میرا صبر جواب دے گیا اور میں خم ٹھونک کر میدان میں آ گیا۔ 
میں نے کہا آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ پاکستانی لیڈروں کو گالیاں دیں‘ پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بے ضمیر کہیں اور پاکستان کی توہین کریں؟ وہ صاحب ایک دم دفاعی انداز میں کہنے لگے: میں پاکستان کے بارے میں فکرمند ہوں۔ آخر میں ایک پاکستانی ہوں۔ میں نے کہا: میں پچھلے آدھ گھنٹے سے آپ کی یہ ساری اشتعال انگیز گفتگو اسی غلط فہمی میں سن اور برداشت کر رہا تھا کہ آپ پاکستانی ہیں مگر جب آپ نے امریکی بن کر یہ کہا کہ آپ لوگ یہاں آ کر ''ہم سے‘‘ خیرات مانگتے ہیں اور ''ہم لوگ‘‘ آپ کو خیرات دیتے ہیں تو آپ یہ بات بحیثیت پاکستانی نہیں بلکہ بحیثیت امریکن شہری کہہ رہے تھے۔ میں کسی امریکن کو پاکستان کی عوام کو‘ پاکستانی لیڈر شپ کو حتیٰ کہ نااہل اور نالائق حکمرانوں تک کے بارے میں کوئی منفی بات کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ میں کسی غیر ملکی کو اس حد تک دخیل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ بحیثیت قوم ہماری توہین کرے‘ ہمارا مذاق اڑائے اور ہماری انا کو کچوکے لگائے۔ آپ براہ مہربانی اپنی امداد اور خیرات اپنے پاس رکھیں۔ آپ کے اس عمل کے طفیل ہم لوگ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں گے۔ آپ کی امداد نے ہمارے حکمرانوں کو بے حمیت اور ہمیں بحیثیت مجموعی فقیر بنا دیا ہے۔ 
ہماری ساری اشرافیہ کو کاہل بنا دیا ہے اور ساری بیوروکریسی کو کرپٹ بنا کر رکھ دیا ہے۔ آپ آج ضرور امریکی ہیں۔ نیلا پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ مگر آپ کبھی تو پاکستانی تھے۔ اس ماضی کے رشتے کے حوالے سے پاکستان اور پاکستانیوں پر ایک مہربانی کیجیے‘ ایک احسان فرمایئے۔ یہ امداد اور خیرات کا دروازہ بند کروا دیجیے۔ ہم آپ کے احسان مند رہیں گے۔ 
اب ان صاحب نے بھی مروت بالائے طاق رکھتے ہوئے جوابی حملہ کردیا کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ ہر طرف قتل و غارت گری ہے۔ میں نے کہا‘ الحمدللہ یہ بھی آپ امریکیوں کا کیا دھرا ہے۔ نہ آپ لوگ افغانستان میں گھستے نہ یہ طالبان کا مسئلہ ہوتا۔ نہ ڈرون حملے ہوتے نہ خودکش بمبار پیدا ہوتے۔ وہ صاحب کہنے لگے اور پاکستان میں ہونے والی کرپشن؟ میں نے کہا میں پاکستان میں ہونے والی خرابیوں کا دفاع نہیں کر رہا۔ دو خرابیاں مل کر ایک اچھائی نہیں بن سکتی۔ لیکن یہاں کیا نہیں ہوتا۔ آپ امریکن کون سے کم بدعنوان اور شریف لوگ ہیں۔ کیلی فورنیا کے شہر بیل (Bell) کا واقعہ آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ کس طرح وہاں کے میئر نے‘ پولیس چیف نے‘ سٹی کونسل نے مل کر‘ پورے شہر کی انتظامیہ بمعہ سرکاری افسران نے مل کر کس طرح کرپشن کی۔ میئر آسکر ہرنینڈس‘ ڈپٹی میئر‘ تین چار سٹی کونسلر شہر کا سابق ایڈمنسٹریٹر رابرٹ ریزو‘ ایک اور ایڈمنسٹریٹر اینجلاسپاسیا اور سٹی پولیس چیف اینڈی ایڈمنز نے مل کر چھ اعشاریہ سات ملین ڈالر کی لوٹ مار کی۔ عوامی فنڈ کھایا۔ پورے کے پورے شہر کی انتظامیہ نے مل کر کرپشن کی۔ بالآخر پکڑے گئے۔ آپ کے ہاں کیا نہیں ہوتا۔ وہ صاحب کہنے لگے‘ ہمارے ہاں اس طرح چودہ سولہ بندے نہیں مارے جاتے جیسا کہ ماڈل ٹائون میں ہوا۔ اگر یہاں ہوتا تو سارا امریکہ ہل جاتا۔ میں نے کہا ماڈل ٹائون میں جو ہوا وہ انتہائی شرمناک بھی ہے اور اندوہناک بھی۔ میرا مقصد اس سانحے کی اہمیت کم کرنا نہیں صرف آپ کے دعوے کی سچائی اور حقیقت بیان کرنا مقصود ہے۔ آپ بتائیں لاس اینجلس کے 1992ء کے ہنگاموں میں کتنے لوگ مرے؟ میں بتاتا ہوں۔ ان ہنگاموں میں جنہیں آپ لاس اینجلس رائٹس کے نام سے یاد کرتے ہیں کم و بیش 53لوگ مرے۔ دو ہزار زخمی ہوئے۔ گیارہ سو عمارات جلائی گئیں۔ لوٹ مار کی کوئی انتہا نہیں۔ تقریباً ایک بلین ڈالر کا عوامی نقصان ہوا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ کوئی فارغ ہوا؟ میئر تک وہی پرانا رہا یعنی ٹام بریڈلی۔ اب بتائیں؟ وہ صاحب کہنے لگے عدل و انصاف کا معاملہ جتنا پاکستان میں خراب ہے ہم اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں نے کہا آپ واقعتاً نہیں سوچ سکتے۔ اگر آپ سوچ سکتے تو آپ کو یاد آتا کہ مشہور زمانہ لاس اینجلس رائٹس کا آغاز ہی عدل و انصاف کی خرابی سے ہوا تھا جب ''رونڈی کنگ‘‘ پر تشدد کرنے والوں کو بری کردیا گیا تھا حالانکہ اس تشدد کی وڈیو عدالت میں پیش کی گئی تھی۔ ابھی حال ہی میں اوجے سیمسن والا کیس بھی آپ کے سامنے ہے۔ کس طرح عدل و انصاف کا جنازہ نکلا۔ امریکہ ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال امریکہ میں پولیس لگ بھگ چار سو لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیتی ہے۔ وہ صاحب اب تقریباً زچ ہو چکے تھے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کسی پاکستان سے آنے والے کو امریکہ کے بارے میں ایسی فضول اور واہیات معلومات بھی ہو سکتی ہیں۔ مجھے بھی بھلا کیا پتا ہوتا؟ یہ وہ ساری معلومات ہیں جو شفیق سے دوران گفتگو پتا چلتی رہی ہیں۔ ان معلومات کا سارا کریڈٹ شفیق کو جاتا ہے جو سارا دن امریکی نظام میں ہونے والی خرابیوں کو نوٹ کرتا رہتا ہے۔ میں نے دل ہی دل میں شفیق کو داد دی جس کے طفیل آج کا معرکہ مارا۔ 
آخر میں وہ صاحب کہنے لگے آپ میری اس بات سے تو اتفاق کریں گے کہ ہمارے ہاں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہے۔ میں نے کہا میں آپ کی یہ بات شاید مان لیتا اگر آپ کے ہاں ساڑھے تین ہزار کلو میٹر مشتمل ''ٹریل آف ٹیئرز‘‘ یعنی آنسوئوں کی شاہراہ کے بارے میں نہ پڑھا ہوتا۔ اس کے بعد ہوٹل پہنچنے تک خاموشی رہی۔ اتر کر ان صاحب سے رخصتی مصافحہ کیا تو وہ کہنے لگے اگر کوئی بات بری لگی ہو تو اس کی معذرت۔ میں نے کہا معذرت آپ تب کریں اگر ہم نے کوئی کسر چھوڑی ہوتی۔ حساب برابر ہو چکا ہے۔ کسی پر ادھار نہیں۔ ہم ادھار چھوڑنے کے قائل ہی نہیں۔ ہوٹل کی لابی میں انور مسعود صاحب نے میری پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا کہ ''مزا آ گیا ہے‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved