تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     14-11-2014

سیاسی جماعتوں کی اصلاح کی ضرورت

پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کی ذمہ داری جن عوامل پر عائد ہوتی ہے اُن میں سیاسی جماعتوں کے ہاں جمہوری روایات کا فقدان سب سے قابل ِ ذکر ہے۔ ان جماعتوں کے رہنمائوں کی اکثریت قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کرتی ہے۔ یہ رہنما اپنے معاملات کا شفاف انداز میں جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر قسم کی تنقید کے باوجود سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں جمہوری اقدار کی پاسداری کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب تک یہ جماعت اپنی صفوں میں بنیادی تبدیلیاں لاتے ہوئے اصلاح کے عمل سے نہیں گزرتیں، پاکستان میں مستحکم اور پائیدار جمہوریت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ 
دنیا بھر کی مستحکم جمہوریتوں میں سیاسی جماعتیں اپنی فعالیت میں بنیادی تبدیلیاں لاتی ہیں، داخلی سطح پر انتخابات کراتی ہیں ، اپنے اکائونٹس کی آڈٹ رپورٹس، ٹیکس ریٹرن فائلز شائع کرتی ہیں اورعطیات اور عطیات دینے والے افراد کے نام اور اخراجات منظر ِ عام پر لاتی ہیں؛ تاہم یہ تمام لوازمات پاکستانی سیاسی کلچر کا حصہ نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ایف بی آر سیاسی جماعتوںسے اپنے قوانین اور قواعد وضوابط پر عمل کرانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ 
پاکستانی قانون کے تحت سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے لیے ضروری ہے کہ سالانہ اکائونٹس اور اپنے اثاثوں اور وسائل کا اعلان کریں۔ پولیٹیکل پارٹیز قوانین کے قاعدے نمبر چار کے تحت ''ہر سیاسی جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ فارم نمبر1 کے مطابق اپنی آمدنی، اخراجات، فنڈز کے ذرائع، اثاثے ہرمالی سال کے اختتام سے ساٹھ دن قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جمع کرائے۔ اس کے اکائونٹس کی سٹیٹ منٹ پرکسی چارٹرڈ اکائونٹنٹ، جس نے ان کا آڈٹ کیا ہوا ہو، کے دستخط ہوں۔ اس کے ساتھ پارٹی لیڈر کا دستخط شدہ سرٹیفکیٹ ہوکہ یہ سٹیٹ منٹ ان کی جماعت کی مالی پوزیشن کو درست طور پر بیان کرتی ہے ، نیز اُنھوں نے کسی ایسے ذرائع سے فنڈز حاصل نہیں کیے جوملکی قانون کے مطابق ممنوع ہوں۔‘‘
عوامی نمائندگی ایکٹ1976ء کے شق 42-A اور سینٹ الیکشن ایکٹ 1975ء کی شق 25-A کے مطابق عوامی نمائندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر مالی سال کے اختتام پر اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ ایسا کرنے میں ناکامی پر وہ رکنیت کے لیے نااہل قرار دے دیے جائیںگے۔تاہم ہمارے سیاسی نمائندے بہت کم ان قوانین کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر سال الیکشن کمیشن اس بنا پر کئی ایک قانون سازوں کی رکنیت معطل کرتا ہے۔ تاہم اس بات کا تعین کرنے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں جس کے تحت یہ چیک کیا جا سکے کہ الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے پا س جمع کرائی گئی سٹیٹ منٹس قانون سازوں کے حقیقی اثاثوں کی عکاسی کرتی ہیں یا نہیں۔ نیب نے کبھی بھی ان کو چیک کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ ان سیاسی رہنمائوں کا لائف سٹائل ان عاجزانہ اثاثوں میں ممکن ہی نہیں ہوتا جن کو منظر عام پر لاتے ہوئے وہ اپنے ''آئینی فریضے‘‘ سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ 
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتیں ٹیکس فائلز جمع نہیں کراتیں لیکن ایف بی آر کوکبھی بھی اُنہیں نوٹس بھیجنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ بھارت میںانکم ٹیکس ایکٹ 1961ء کی شق 13-A کے تحت سیاسی جماعتوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ ٹیکس فائل جمع کرائیں۔ بھارتی چیف الیکشن کمشنر ''انڈین سنٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز‘‘ کو مسلسل ہدایت کرتا رہتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ظاہرکردہ اکائونٹس کا جائزہ لیتا رہے۔ اسی طرح بھارت کا سنٹرل انفارمیشن کمیشن انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کی ٹیکس فائلز میں درج شدہ عطیات دینے والوں کی تفصیل منظر ِعام پر لائے۔ اس کے ساتھ ساتھ کالے دھن کے سیاسی دھارے میں شامل ہونے کے عمل پر بھی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ پاکستان میں نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی ایف بی آر یا نیب ایسے معاملات میں ہاتھ ڈالنے کی جسارت کرتے ہیں۔ 
قانون کی خلاف ورزی کرنے کی ایک اور مثال ۔۔۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 116کے تحت تمام افراد، جن کی آمدنی ایک ملین یا اس سے زائد ہے، کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی دولت اور ذاتی اخراجات کو بیان کریں۔۔۔ ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام ارکان ِ پارلیمنٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اثاثو ں کے اظہار کے ساتھ اپنی دولت اورا پنے اخراجات کو بھی ظاہر کریں۔ ٹیکس ڈائریکٹری 2013ء کے مطابق ایف بی آر نے تسلیم کیا ہے کہ زیادہ تر عوامی نمائندے شق نمبر 116 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں، تاہم ان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی سننے میں نہیں آئی۔ 
چونکہ ملک میں سیاسی اور جمہوری نظام کی اصلاح کی بات ہورہی ہے، اس لیے وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ٹیکس فائلز جمع کرانا لازمی قرار دیا جائے ۔ اس بات کی عوامی سطح پر تشہیر کی جائے کہ کس نے کتنا ٹیکس ادا کیا ہے یا اُن کو عطیات دینے والے کون ہیں۔ پاکستان میں ہم نے ابھی تک اس خیال کو پروان نہیں چڑھایا کہ سیاسی جماعتیں غیر نفع بخش تنظیمیں ہوتی ہیں اور ان کا بنیادی مقصد عوامی فلاح ہوتا ہے۔ اس تصور کی ترویج کرنا کئی ایک حوالوں سے اہم ہے۔ جب افراد کسی سیاسی جماعت سے وابستگی اختیار کرتے ہیںتو اُن کے پیشِ نظر کچھ اغراض و مقاصد ہوتے ہیں۔ وہ ان کی تکمیل کے لیے اپنی جماعتوں کو مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ان جماعتوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر عوام جمہوری اور انتخابی عمل میں موثر طور پر شمولیت اختیار کریں اور اس پر نظر رکھیں تو وہ پارٹی سربراہ سے اپنے عطیات(کم یا 
زیادہ) کے استعمال اور پارٹی کی مجموعی پالیسیوں کی بابت پوچھ سکتے ہیں۔ عوامی سطح پر احتساب ہونے سے سیاسی جماعتیں اپنے معاملات شفاف رکھنے پر مجبور ہوجائیںگی۔ 
سیاست دانوں کے لیے ضروری ہے کہ چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، وہ ذمہ داری کا مظاہر ہ کریں۔ ریاستی اداروں کی فعالیت کا دارومدار ان کی کارکردگی پر ہے۔ چونکہ وہ عوام کے رول ماڈل ہوتے ہیں، اس لیے اُنہیں اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرنا چاہیے کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ اگر وہ بدعنوانی اور خلاف ِ قانون سرگرمیوں کا ارتکاب کریں تو وہ یہ نظام نہیں چل پائے گا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ ہر سیاسی جماعت کا بنیادی مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے اور اس کوشش میں کوئی حرج نہیں، لیکن ایسا کرتے ہوئے اُنہیں خود کو قانون سے بالا ترسمجھنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جب وہ ایک مرتبہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو خود کو ریاست سے بالا تر سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر آمریت کی راہ اپنا لیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں سیاسی جماعتوں میں اقربا پروری بھی دکھائی دیتی ہے اور بدعنوانی بھی۔ ہماری سیاسی جماعتیں زیادہ تر کسی نہ کسی شخصیت کے گرد گھومتی ہیں جس کے فرمودات ملکی آئین پر فوقیت رکھتے ہیں۔ نہ ان کی صفوں میں میرٹ کو دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی بدعنوانی کو براسمجھا جاتا ہے۔ بلکہ انہیں سیاسی مسئلہ بنا کر پوائنٹ سکورنگ کی جاتی ہے۔ یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں اپنی اصلاح نہیں کریں گی، جمہوریت مستحکم نہیں ہوگی؛ تاہم دھرنوں اور احتجاج کے باوجود، ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved