شاید ساری دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس کی1998ء کے بعد مردم شماری کرانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی جا رہی۔ کسی کو اگر یہ پتہ چلتا ہے تو وہ حیرت سے منہ تکنے لگتا ہے کہ جس ملک میں مردم شماری نہیں ہو گی وہ کس طرح کام کر سکتا ہے؟ وہ کیسے ترقی کر سکتا ہے؟ وہاں کے عوام کی ضروریات، تعلیم، پانی، ہسپتال ، علاج معالجے اور رہائش کا کیسے بہتر بندوبست کیا جا سکتا ہے؟ جب1998ء میں مردم شماری ہوئی تو اس کے اعداد و شمار کے مطا بق پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ساتواں بڑا ملک تھا گو کہ اس کے بعد سے ابھی تک پاکستان میں مردم شماری پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں کی ملی بھگت کی وجہ سے کرانے سے لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے لیکن ورلڈ بینک نے 2012ء میں اپنے ایک جائزے کے حوالے سے جو رپورٹ تیار کی ہے اس کے مطا بق پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن چکا ہے۔
پاکستان کی پہلی مردم شماری1951ء دوسری1961ء تیسری1972ء، چوتھی مردم شماری1981ء میں کی گئی لیکن جومردم شماری 1991ء میں ہونی تھی اس پر نواز شریف حکومت نے اچانک یہ کہتے ہوئے کام ملتوی کر دیا چونکہ سینسس کے ترمیمی آرڈیننس کی میعاد فروری میں ختم ہو رہی ہے اور دونوں ایوانوں سے اس کی بطور قانون منظوری کے بغیر جس کا امکان فوراََ نہیں ہو سکتا یہ آرڈیننس غیر موثر ہو گیا ہے اس لئے اب مردم شماری نہیں ہو سکتی۔ اب اگر غیر جانبداری سے اس پر بات کی جائے تو مردم شماری کے پہلے مرحلے میں22 نومبر1990ء سے16 دسمبر1990ء تک خانہ شماری کا کام مکمل ہو چکا تھا اور اس کے آخری مرحلے کیلئے یکم مارچ91 ء سے افراد خانہ کو شمار کیا جانا تھا لیکن خانہ شماری کی بنیاد پر لگائے گئے تخمینوں سے جو نقشہ مرتب ہوا تھا وہ اتنا خوفناک اور ناقابل قبول تھا کہ حکمرانوں کے پاس مردم شماری کے کام کو ملتوی کرانے کے سوا چارہ نہ تھا۔۔۔وجہ اس کی یہ تھی کہ سندھ میں مردم شماری کے پہلے مرحلے میں 1972ء میں کی جانے والی مردم شماری سے بھی بڑے پیمانے پر جعلسازی 1981ء میں کی گئی اور اس میں وہاں کی جماعتوں کے علا وہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی مستقبل میں اپنے سیا سی سفر کی راہیںآڑے آگئیں۔1998ء میں پاکستان کی پانچویں مردم شماری کرائی گئی لیکن پیپلز پارٹی سے بیک ڈور چلنے والے معاہدے کے نتیجے میں اسے شروع کرانے سے پہلے سرتاج عزیز نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کر دیا کہ اس مردم شماری کا انتخابی حلقہ بندیوں سے کوئی واسطہ نہیں ہو گا اورآبادی بڑھنے کی وجہ سے ملک کے کسی بھی حصے میں کسی بھی قسم کی نئی انتخابی حلقہ بندی نہیں کی جائے گی۔چھٹی مردم شماری کیلئے مارچ 2011ء میں اس پر ابتدائی کام کرتے ہوئے پہلے خانہ شماری کرائی گئی اور جب ستمبر میں مردم شماری کا آخری مرحلہ آیا تو صدر آصف زرداری نے اس سے اسی طرح ہاتھ کھینچ لیا جیسے1991ء میں نواز شریف نے کھینچا تھا۔اس کی اصل وجہ ان دو سیا سی جماعتوں کا اندرون خانہ '' پنجاب اور سندھ‘‘ میں اپنی اپنی اجا رہ داری برقرار رکھنے کیلئے آپس کا مک مکا
تھا کیونکہ سندھ میں کراچی اور حیدر آباد کی خانہ شماری کے اعدادو شمارنے انہیں بوکھلا کر رکھ دیاتھا۔1977ء میں جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد بھٹو دور کے سیکرٹری داخلہ محمد خان جونیجو نے تحریری طور پر اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا '' میں نے 1972ء کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو جو اس وقت65 لاکھ تھی، اس وقت کی حکومت کے مجبور کرنے پر35 لاکھ کر دیا تھا۔ یہ جعلسازی مجھ سے اس لیے کرائی گئی تھی تاکہ کراچی سے صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستیں محدود رکھی جائیں‘‘۔
اس وقت کے بین الاقوامی اداروں کی تحقیق کے مطابق کراچی کی آبادی میں چھ فیصد سالانہ اضافہ ہوتا تھا اور اقوام متحدہ کے اصولوں اور پلاننگ کمیشن کے مطا بق ترقی پذیر ممالک کی دیہی
آبادی دس سال کے بعد30 سے35 فیصد بڑھتی ہے جبکہ شہری آبادی میں پچا س سے ساٹھ فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح اگست1972ء میں کرائی جانے والی مردم شماری میں بدین کی آبادی میں364 فیصد،کندھ کوٹ155 فیصد،سکرنڈ 200 فیصد،گھوٹکی177 فیصد،دادو148 فیصد،ٹھٹھہ70 فیصد،ہالہ99 فیصداور ٹنڈومحمد خان کی آبادی میں72 فیصد اضافہ دکھاتے ہوئے تمام بین الاقوامی ریکارڈ توڑ دیئے گئے۔۔۔ کراچی کی آبادی جو65 نہیں بلکہ75 لاکھ ہونی چاہئے تھی اسے اس وقت کی پی پی پی حکومت کے حکم پر سیکرٹری داخلہ نے صرف 35 لاکھ15 ہزار تک محدود کر دیا۔۔۔۔ کس کس بات کا ذکر کیا جائے کہ ملک کی حقیقی مردم شماری میں کسی کا حق مارنے کے لیے کیسے کیسے گھپلے کیے گئے۔ 1972ء، 1981ء میں اور1999ء میں کی جانے والی مردم شماری سندھ میں بالکل اسی طرح کی گئی جیسے لیسکو کے میٹر ریڈر اوسط نکال کر گھر بیٹھے صارفین کے یونٹ لکھ دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا تھا کہ اس صورت میں ''سیا سی توازن‘‘ بدل کر رہ جا نا تھا ۔۔۔۔زیا دہ نہیں ایک مثال سامنے رکھ لیں۔1972ء کی مردم شماری میں سکھر کی آبادی 50 لاکھ95 ہزار اور حیدر آباد کی54 لاکھ54 ہزار ظاہر کی گئی اور کراچی ڈویژن جو سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ بن چکا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر کراچی ڈویژن
کی آبادی سکھر اور حیدر آباد ڈویژن سے بھی کم دکھائی گئی۔1981ء میں کرائی گئی مردم شماری میں نوشہرو فیروز کی آبادی میں771 فیصد، لاڑکانہ میں397 فیصد، جیکب آباد288 ، شکار پور اور دادو میں بالترتیب272 اور357 فیصد اضافہ دکھایا گیا لیکن حیران کن طور پر کراچی کی آبادی میں صرف89 فیصد اضافہ دکھایا گیا۔
آج سندھ میں سیا سی طاقت کا جو توازن بگڑتا ہوا نظر آتا ہے اسے درست کرنے کا نہایت اہم موقع انتخابات2013ء سے پہلے تھا کیونکہ جب2011 ء میں طے شدہ مردم شماری کو اس لئے روک دیا گیا تھا کہ اس دفعہ میڈیا کی بھر پور آزادی اور کچھ آزاد تنظیموں کی مانیٹرنگ کی وجہ سے '' شرح آبادی میٹر ریڈر‘‘ کی گھر بیٹھے ریڈنگ کی طرح نہیں بلکہ اپنے حقیقی وجود کے ساتھ سامنے آنے والی تھی جو کسی بھی طرح پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں کو منظور نہیں تھا۔ساری دنیا میں مردم شماری کیلئے آزاد اور خود مختار سینسس کمیشن قائم ہیں جو حکومتی مداخلت سے آزاد ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی سے ملک کی آبادی کے اعداد و شمار پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔اس لیے آج وقت کا تقاضا ہے کہ مردم شماری میں دیر نہ کی جائے اور اس کیلئے بین الاقوامی طریقہ کار کے مطا بق ایک آزاد اور خود مختار'' سینسس کمیشن‘‘ قائم کیا جائے جس کا سربراہ سپریم کورٹ کا جج ہو اور جس پرتمام حلقے متفق ہوں۔ نئی مردم شماری کیلئے فیلڈ ورکرز کی خدمات حاصل کرنے کا انتخاب سینسس کمیشن کے پاس ہونا چاہیے اور فیلڈ ورکرز کیلئے سختی سے حکم جاری کیا جائے کہ فارم میں کوئی بھی اندراج پنسل سے نہیں ہو گا...!!