تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     15-11-2014

کیسی پولیس‘ کیسے ڈاکو

سندھ پولیس کی شاندار کارکردگی پر‘ اسے مبارک باد پیش کرنا چاہئے کہ اس کی صلاحیتوں اور شان و شوکت کا اعتراف کرتے ہوئے‘ ڈاکوئوں نے دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا احتجاجی مظاہرہ ریکارڈ کروایا۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ ضلع گھوٹکی میں کچے کے علاقے‘ رانوتی گائوں سے تعلق رکھنے والے‘ ڈاکوئوں کے ایک گروہ نے ''دنیا ٹی وی‘‘ کے نمائندے کے سامنے بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ڈاکوئوں کے مطابق‘ علاقہ پولیس انہیں تمام اسلحہ‘ فروخت اور فراہم کرتی ہے۔ اسلحے کی بھاری قیمت وصول کرنے کے بعد بھی پولیس کا مطالبہ ہے کہ اسے فی ڈاکو‘ ہر ماہ ایک لاکھ روپے بھتہ بھی دینا ہو گا۔ ڈاکوئوں نے انکشاف کیا کہ اس کھلے لین دین کے باوجود‘ پولیس پر جب بھی کوئی دبائو آتا ہے‘ وہ باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے‘ دھوکے سے ہمارے خلاف آپریشن بھی کر دیتی ہے‘ جو صرف دکھاوے کے لئے ہوتا ہے۔ پولیس ڈاکوئوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے‘ خاص طور سے رانوتی تھانہ سرفہرست ہے۔ رپورٹر کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں نیشنل ہائی وے پر خیر پور کا حادثہ جس طرح انوکھا ہے‘ اسی طرح ڈاکوئوں کا احتجاج بھی بدامنی کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ اس خبر میں ڈاکو اپنا موقف وضاحت کے ساتھ پیش نہیں کر سکے لیکن بات بہرحال سمجھ میں آجاتی ہے۔ انہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ مذکورہ تھانے میں ڈاکوئوں اور پولیس کی ملی بھگت ہے اور یہ لین دین پورے سندھ میں جاری رہتا ہے اور پولیس‘ ڈاکوئوں کے خلاف جو آپریشن کرتی ہے وہ محض دکھاوے کے ہوتے ہیں۔ اس کے دو مفہوم نکلتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ پولیس جہاں دکھاوے سے کام چلا سکے‘ وہاں پولیس جعلی مقابلے کا ڈرامہ رچا دیتی ہے اور دبائو سخت ہو تو اسی دکھاوے کے مقابلے میں‘ اپنے حصے دار‘ دو چار ڈاکوئوں کو پھڑکا بھی دیتی ہے۔ یہ منظرنامہ‘ ہمارے لئے بھی نیا نہیں۔ اگر سندھ پولیس برا نہ مانے تو اپنی پولیس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے‘ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ پنجاب پولیس اس فن میں‘ سندھ سے زیادہ ترقی یافتہ‘ سمجھدار اور اپنے فن کا کامیاب مظاہرہ کرنے میں‘ اپنی مثال آپ ہے۔
ہمارے صوبے کی پولیس میں بھی کچھ عناصر‘ اجتماعی طور طریقوں سے بیگانہ اور پیشہ وارانہ رِیت رواج سے بغاوت کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں بہت جلد اس ''بے اصولی‘‘ پر پچھتانا پڑتا ہے۔ جو پولیس افسر آپ کو ہمیشہ دور دراز مقامات پر‘ تعینات ہوتا نظر آئے اور اسے کسی بھی ''رس بھری‘‘ پوزیشن سے دور رکھا جائے تو سمجھ لیجئے کہ یہ برادری کا ''غدار‘‘ ہے۔ ایسی کالی بھیڑوں کو ہمیشہ نیک نام اور معیاری ‘‘تھانوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس کا معیاری وصف یہ ہے کہ وہ پارٹنرشپ میں بے ایمانی نہیں کرتی۔ دبائو اس پر بھی آتے ہیں۔ سزا کے خطرات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن وہ ڈاکوئوں کے ساتھ‘ اپنے سمجھوتے کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ اگر بہت زیادہ دبائو آ جائے کہ ڈاکوئوں کا خاتمہ کر دو تو پنجاب پولیس احکامات کی من و عن تعمیل کرتی ہے۔ ڈاکوئوں کے ایک گروہ کو ختم کرنے کا‘ حکم ملتا ہے تو وہ ڈاکوئوں کی اصل تعدا د کے عین مطابق‘ آس پاس کے دیہات سے بے کار قسم کے لوگوں کو‘ اتنی ہی تعداد میں پکڑ کے جنگل کے اندر لے جاتی ہے۔ انہیں بھگاتی ہے اور پھر ان پر صحیح صحیح نشانہ لگانے کی صلاحیت کو آزما بھی لیتی ہے۔ شہری پولیس کو ایسی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے‘ شہروں کے آس پاس پکھی وال آسانی سے مل جاتے ہیں۔ شہر کے کسی علاقے میں زیادہ ڈاکے پڑنے لگیں اور عوامی احتجاج قابو سے باہر ہوتا نظر آئے‘ تو اصل چور ڈاکوئوں کو فوراً بھگا دیا جاتا ہے اور پکھی والوں کے کسی نہ کسی ڈیرے سے‘ مطلوبہ تعداد میں نفری جمع کر کے‘ اس کے خلاف پرچہ کاٹ دیا جاتا ہے اور اعلیٰ حکام کو مطمئن کر کے‘ میڈیا میں تعریفی خبریں اور تبصرے چھپوا لئے جاتے ہیں تاکہ سند رہیں اور ترقی کے وقت کام آئیں۔
بعض اعلیٰ پولیس افسر اپنے آپ کو‘ میڈیا گروپس کے ساتھ وابستہ کر لیتے ہیں اور بڑے بڑے کارنامے انجام دے کر‘ ارباب اقتدار کو نہ صرف خوش کرتے ہیں بلکہ اپنے افراد خاندان کو‘ اقتدار کے ایوانوں میں بھیجنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہاں آ کر من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے۔ حکومت ایسے پولیس افسروں کے کنٹرول میں آ جاتی ہے اور ارباب اقتدار کو بھی ایسی پولیس دستیاب ہو جاتی ہے‘ جس پر پورا اعتماد کیا جا سکے۔ سندھ میں ارباب اقتدار اور پولیس کا انداز اپنا ہے اور ہمارا اپنا۔ یہاں ایسے ایسے پولیس افسر بھی موجود ہیں جو کسی مشہور ملزم کو‘ پولیس مقابلے میں قتل کر کے‘ اس کی لاش کو شہر میں پھراتے ہیں اور پھر اس سے لئے ہوئے بیان حلفی کی خوب تشہیر کرتے ہیں اور مرنے والے ملزم سے بیان منسوب کر کے‘ انتظامیہ یا عدلیہ کے کسی اعلیٰ رکن پر الزامات لگوا دیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف کسی اعلیٰ شخصیت کو اس کے منصب سے نکلوا دیتے ہیں بلکہ اپنے کارنامے کی بنیاد پر‘ مزید ترقی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ بعض ایسے مفرور مجرم بھی ہیں‘ جو اپنا مستقبل محفوظ کر کے‘ بیرون ملک قیام پذیر ہو جاتے ہیں اور وہاں سے میڈیا پر انٹرویوز میں‘ اپنے کارنامے فخر سے بیان کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے صوبے کے ہیرو ہیں۔ وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں وزیر اعلیٰ کے حکم پر‘ اتنے بندے پھڑکا دیئے اور اپنے نام پر‘ دھبہ بھی نہیں لگنے دیا۔ کئی ایسے پولیس افسر ہیں‘ جو ملک کی نامور اداکارائوں کے حلقہ احباب میں شامل ہو کر‘ زندگی کے چار دنوں کو رنگین بنانے کا موقع نہیں گنواتے۔ وہ ثابت کر دیتے ہیں کہ انسان میں ہنر ہو تو وہ چار دن کی زندگی کو 1460 دنوں‘ یعنی چار دنوں کو‘ چار سال میں بدل کر بھی مطمئن نہیں ہوتا بلکہ انہیں بھی آٹھ سال میں بدل کے‘ اپنی پُرتعیش زندگی آٹھ سال بھی کر لیتا ہے۔ بعض پولیس افسر ایسے ہیں جن کی تیز رفتار ترقی دیکھ کر‘ ان کے ساتھیوں کو رشک آتا ہے۔ ایسے لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں‘ جن کی ہر ترقی کی بنیاد‘ کسی نہ کسی بڑے آدمی کے قتل پر ہوتی ہے۔
ہمارے ارباب اقتدار‘ جس طرح کے مشاغل اور طرز زندگی کے عادی ہوتے ہیں‘ انہیں دوستی کے لئے بااعتماد اور باوفا پولیس افسروں کی ہمیشہ تلاش رہتی ہے۔ جب انہیں اپنے مطلب کے پولیس افسر مل جاتے ہیں تو دونوں کی زندگی میں انقلاب آ جاتا ہے۔ مقتدر شخصیت کے سارے کام اس کی خواہش کے مطابق ہو جاتے ہیں۔ اسے اپنے مخالفین کو عقل اور اثرورسوخ کے زور پر‘ نیچا دکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اطمینان سے باوفا پولیس افسر کو اشارہ ہوتا ہے اور مخالف ہمیشہ کے لئے‘ منظر سے ہٹ جاتا ہے۔ ایسے پولیس افسر کی‘ ترقی میں کبھی رکاوٹ نہیں پڑتی۔ جیسے ہی کوئی مخالف رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ،اس کا تبادلہ یا انتہائی بلند پہاڑی مقام پر کرا دیا جاتا ہے یا ایسے ریگستان میں‘ جہاں دور دور تک پانی اور سبزہ دکھائی نہ دے۔ اس کی تفصیل ایسی زندگی گزارنے والے پولیس افسروں سے پوچھی جا سکتی ہے کہ جب وہ پہاڑو ں پر تھے تو زندگی کیسی تھی اور جب صحرا میں پوسٹنگ ہوئی تو زندگی کیسے گزری؟ لیکن ایسی سزائوں کو بھگتنے والے کبھی نہ کبھی واپس نارمل زندگی میں آ جاتے ہیں اور باقی عمر یا تو اپنے کردار میں اصلاح کر کے‘ آرام سے رہتے ہیں یا بے ضرر قسم کی پوسٹیں حاصل کر کے‘ زندگی اللہ کی یاد میں گزار دیتے ہیں۔ اور اگر کسی ایسے پولیس افسر سے واسطہ پڑ جائے‘ جو نہ پہاڑوں پر جاتا ہو اور نہ صحرا کی طرف‘ تو پھر اس کا ایک ہی علاج ہوتا ہے اور وہ باخبر لوگ‘ اچھی طرح جانتے ہیں۔ جب آپ یہ خبر پڑھیں کہ پولیس کے فلاں افسر کو فلاں ٹارگٹ کلر نے سرِ بازار قتل کر دیا اور موقع پر موجود پولیس والوں نے ٹارگٹ کلر کو وہیں ڈھیر کر دیا تو سمجھ لیجئے کہ یہ کراچی کا واقعہ ہے۔ نہ تو پولیس افسر کو ٹارگٹ کلر نے مارا ہوتا ہے اور نہ ہی ٹارگٹ کلر کو پولیس نے۔ دونوں کے قاتل کبھی گرفت میں نہیں آتے۔ ایسے مقتولوں پر بڑے بڑے سودے طے کئے جاتے ہیں۔ وہ زندگی کی تکلیفوں سے نجات پا لیتے ہیں اور ان کا سودا کرنے والے‘ اپنی زندگی کے آرام و آسائش میں اضافہ کر لیتے ہیں۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں سے کراچی میں امداد باہمی کا یہ کاروبار‘ انتہائی محفوظ رہتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ نہ زندگی کے معمولات میں فرق آتا ہے اور نہ شہر کے حالات بدلتے ہیں۔ سب کچھ ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ قاتل بھی خوش ہیں اور مقتول بھی پریشانیوں سے آزاد رہتے ہیں۔ اگر آپ گھوٹکی کے تھانے رانوتی کا قصہ غور سے پڑھیں تو اپنے ملک کے سیاسی نظام کے بارے میں‘ بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ اس نظام میں ایسی ہستیاں بھی موجود ہیں جو سندھ پولیس کی طرح‘ اپنے قریبی ڈاکوئوں سے بے وفائی کرتے ہوئے‘ انہیں پھڑکا دیتی ہیں اور پنجاب پولیس کی وفا شعاری‘ کی طرز پر دوستی بھی نبھا لیتی ہیں۔ یعنی دوست کو قتل کا حکم ملے تو اس کی جگہ کسی پکھی وال کو پھڑکا کے‘ اپنی ملازمت کے ریکارڈ میں ایک کارنامے کا اضافہ بھی کر لیا جاتا ہے اور دوستی کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے۔ جس دن پاکستان کی پولیس اور سیاست دان ٹھیک ہوئے‘ اس دن پاکستانیوں کی زندگی بھی محفوظ اور پُرامن ہو جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved