تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     15-11-2014

پیسے کا کھیل

کاغذ قلم اٹھائیے اور ایک پیش گوئی نوٹ کر لیجئے۔ 2016 ء میں جو کوئی بھی امریکہ کا صدر ہو گا‘ وہ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں اوباما سے زیادہ سخت (عقابی) پالیسی اختیار کرے گا۔ اسرائیل کے پہلو میں فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان موجودہ حکومت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔ دو یہودی امریکی ارب پتی اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنی دولت وائٹ ہاؤس کے آئندہ مکین کے انتخاب پر صرف کریں گے۔ گزشتہ نصف صدی میں اسرائیل کی پالیسی پر تنقید کرنے والے بیسیوں سیاستدان یہودی سرمائے کا نشانہ بن کر واشنگٹن سے گھر جا چکے ہیں اور بدقسمتی سے یہ سب کچھ امریکی قانون کے عین مطابق ہے۔ 2012ء کے صدارتی الیکشن پر امیدواروں‘ پارٹیوں اور بیرونی ذرائع نے سات بلین ڈالر خرچ کئے تھے۔
ہائم سبان (Haim Saban) ڈیموکریٹک پارٹی کی غیر سرکاری امیدوار ہلیری راڈم کلنٹن کے حامی ہیں۔ ان کے امکانی ریپبلکن حریف سینیٹر لنڈسی گراہم کے طرف دار شیلڈن ایڈلسن (Sheldon Adelson) ایک مقامی ہوٹل میں نوزائیدہ لابی اسرائیل امریکن کونسل کے زیر اہتمام سینکڑوں اسرائیلی امریکیوں سے خطاب کر رہے تھے۔ سبان نے ایران تک رسائی کی پالیسی کے لئے صدر اوباما کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا: ''ہم (اسے) بہت زیادہ گاجریں اور بہت کم چھڑیاں دکھا چکے ہیں‘‘۔ گراہم کی کوشش ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری منصوبے پر کوئی بھی معاہدہ منظوری کے لئے کانگرس کو پیش کیا جائے۔ حالیہ الیکشن میں ایوان کے بعد سینیٹ پر بھی ریپبلکن کنٹرول بڑھ گیا ہے لہٰذا اس بل کے پاس ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایڈلسن بولے: اگر لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو معافی دے دی گئی تو ملک وہ نہیں رہے گا ''جس میں رہنے پر میں فخر کرتا ہوں‘‘۔ بیشتر ریپبلکن غیر قانونی غیر ملکیوں کو امریکی شہریت دینے اور یوں انہیں قانون کی خلاف ورزی کے سائے سے محفوظ کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فلوریڈا کے سابق گورنر جیف بش میدان میں آ گئے‘ تو اس مخالفت کی سطح اور بلند ہو جائے گی۔ وہ میرے سامنے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے والے تیسرے بش ہوں گے اور موروثی صدارت کا سوال کوئی نہیں اٹھائے گا۔
ستر سالہ سبان اور اکاسی سالہ ایڈلسن اپنی دولت کے بل پر امریکی یہود میں نمایا ں حیثیت کے مالک ہیں۔ سبان میڈیا مغل سمجھے جاتے ہیں اور ایڈلسن کامیابی سے قمار بازی کے اڈے چلا رہے ہیں۔ وہ آپس میں شاذ و نادر ہی ملتے ہیں۔ ایک گھنٹے کی محفل میں سیاست اور صحا فت زیر بحث رہی۔ دونوں نے اپنی اپنی پارٹی پر زور دینے کی قسم کھائی کہ وہ انہیں مشرق وسطیٰ کے معاملے میں درشت رویہ اختیار کرنے پر مجبور کریں گے۔ وہ دونوں ایران سے بیزاری پر متفق تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایرانی حکومت‘ اسرائیل کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر امریکہ کے لین دین پر فکرمندی ظاہر کی۔ ایڈلسن نے کہا: اساس پرستوں کو ان کے مذہب کا حکم ہے کہ سب کفار کا صفایا کر دیا جائے اور یہود کا صفایا اس پر ڈاؤن پیمنٹ (آغاز) ہو گی۔ سبان بولے: اساس پرست حقیقی خطرہ ہیں۔اگر اسرائیل کو بچانا ضروری ہوا تو میں ''دشمنوں پر بم برسانے‘‘ سے گریز نہیں کروں گا۔ انہوں نے حاضرین کی توجہ سینیٹ کی دو تہائی اور ایوان نمائندگان کی سب نشستوں کے لئے حالیہ انتخابات کے نتائج کی جانب مبذول کرائی جن میں ریپبلکن کی جیت ہوئی۔کہنے لگے۔آپ کو روشن پہلو پر نظر رکھنی چاہیے۔
امریکی سیاست کے اندھیرے میں روشنی کی واحد کرن یہ ہے کہ رائے دہندگان آزادی سے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اور نتیجے پر اعتراض کا رونا سنائی نہیں دیتا۔ ایڈلسن نے سابق سپیکر نیوٹ گنگرچ کی انتخابی مہم پر اپنا پیسہ لگا یا تھا مگر وہ پرائمری پاس نہ کر سکے۔ گنگرچ نے امریکی یہودیوں کو خوش کرنے کی غرض سے کہہ دیا تھا کہ فلسطینی ایک ایسی قوم ہیں جنہیں اسرائیل کو فنا کرنے کی خاطر ''ایجاد‘‘ کیا گیا۔ایڈلسن اب بھی گنگرچ کے متنا زعہ بیان کو درست خیال کرتے ہیں۔ وہ دو ریاستوں کا قیام رد کرتے ہیں۔ سبان نے پوچھا: اسرائیل ‘ ان ساٹھ لاکھ افراد (فلسطینیوں) کا کیا کرے ؟ ''سوال فلسطینیوں کو ان کا ملک دینے کا نہیں۔ سوال ‘ ا سرائیل کے جمہوری مستقبل کو محفوظ کرنے کا ہے‘‘۔ امریکہ میں بھی تقریباً اتنے ہی یہودی رہتے ہیں۔امریکی مسلمانوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے مگر وہ سیاسی مقاصد کے لئے فراخدلی سے چندہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ایک چھوٹی سی مثال منٹگمری کاؤنٹی میں ملتی ہے(یہاں تعلیمی نظام لوکل باڈیز چلاتی ہیں ) کاؤنٹی بورڈ نے امریکی آئین سے مطابقت پیدا کرنے کی غرض سے سکولوں کے کیلنڈر سے عبرانی ‘ نصرانی اور اسلامی چھٹیوں کے نام حذف کر دیے تھے۔ گو کاؤنٹی نے مذہبی تعطیلات برقرار رکھی تھیں مگر فیصلے کے خلاف سب سے زیادہ شدید رد عمل یہودی کمیونٹی کی جانب سے آیا۔ان کے دو مذہبی تہوار کرسمس کے موقع پر آنے والے ہیں اور عید الاضحی گزر چکی ہے۔
سبان نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے اوباما کے تعلقات کو تیل اور پانی سے تشبیہ دی جس سے یہ تاثر پھیلا ہے کہ امریکی صدر اسرائیل کا دوست نہیں۔ با ایں ہمہ ان کے خیال میں دونوں ملکوں میں تعاون کی اونچی سطح ظاہر کرتی ہے کہ کسی سابق صدر سے اسرائیل کا تعلق ایسا نہیں رہا۔اس کے باوجود ان کے خیال کے مطابق ہلیری کلنٹن دونوں ملکوں کے تعلقات درست کرے گی اور میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ وہ انہیں وائٹ ہاؤس پہنچانے کے لئے جو کچھ ان کے بس میں ہوگا کر گزریں گے۔گزشتہ الیکشن میں انہوں نے اوباما کی مالی امداد کی تھی۔میرے خیال میں مسز کلنٹن زور دار صدر ہوں گی اور امریکہ اور اسرائیل کا رشتہ دوبارہ استوار ہو گا۔مسز کلنٹن اور مسٹر گراہم دونوں اجتماع میں موجود تھے۔
یہودی بادشاہ گر آزادیٔ صحا فت سے بھی خوف زدہ تھے۔جب محفل کے صدر شان ایون ہائم نے ان سے پوچھا کہ آیا پریس اسرائیل کا مخالف ہے تو سبان نے اثبات میں جواب دیا مگر اسی سانس میں دو استثنا پیش کئے : فوکس نیوز چینل اور روزنامہ وال سٹریٹ جرنل۔انہوں نے از راہ تفنن ایڈلسن سے کہا: دونوں نے مل کر اخبار واشنگٹن پوسٹ کیوں نہ خریدا ؟ کاش جیف بیزوز پوسٹ نہ خریدتا (ایمیزان ڈاٹ کام کے بانی نے سال بھر پہلے اخبار خریدا تھا) ڈھائی سو ملین ڈالر میں ‘ یہ تو ایک چوری تھی۔ایڈلسن بولے: آپ اور میں نیو یارک ٹائمز کے پیچھے کیوں نہیں پڑتے ؟ سبان نے جواب دیا۔ انہوں نے اخبار کو خریدنے کی کوشش بار بار کی ہے مگر ایک خاندان کی ملکیت ٹائمز برائے فروخت نہیں۔ ایڈلسن بولے: ''اس سے لڑنے کا ایک ہی راستہ ہے ‘ پیسہ۔‘‘
ارب پتی یہودی امریکیوں کا اثرو رسوخ آخر میں سامنے آیا۔ ایون ہائم بحث کو سمیٹتے ہو ئے بو لے: ''2016ء میں الیکشن کے بعد آپ دونوں میں سے ایک ‘ مجھے وائٹ ہاؤس کا پرائیویٹ ٹور کرائے گا۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved